Tafseer-al-Kitaab - An-Naml : 49
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَنُبَیِّتَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے تَقَاسَمُوْا : تم باہم قسم کھاؤ بِاللّٰهِ : اللہ کی لَنُبَيِّتَنَّهٗ : البتہ ہم ضرور شبخون ماریں گے اس پر وَاَهْلَهٗج : اور اس کے گھر والے ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ : پھر ضرور ہم کہ دیں گے لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارثوں سے مَا شَهِدْنَا : ہم موجود نہ تھے مَهْلِكَ : ہلاکت کے وقت اَهْلِهٖ : اس کے گھروالے وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَصٰدِقُوْنَ : البتہ سچے ہیں
کہنے لگے کہ خدا کی قسم کھاؤ کہ یم رات کو اس پر اور اسکے گھر والوں پر شب خون ماریں گے پھر اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم صالح کے گھر والوں کے موقع ہلاکت پر گئے ہی نہیں اور ہم سچ کہتے ہیں
آیت 49: قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ (انہوں نے کہا سب منکر آپس میں قسمیں اٹھائو) ۔ : نمبر 1۔ یہ تقاسموا خبر ہے جو محل حال میں واقع ہے۔ اور قد مضمر ہے۔ ای قالوا متقاسمین باللّٰہ۔ نمبر 2۔ یہ امر ہے۔ یعنی انہوں نے ایک دوسرے کو قسم کا کہا اور حکم دیا۔ تقاسموا کا معنی تحالفوا۔ باہمی حلف ہے۔ لَنُبَیِّتَنَّہٗ (ہم اس پر شب خون ماریں گے) ۔ راتوں رات اس کو ضرور قتل کردیں گے۔ وَاَہْلَہٗ (اور اس کے اہل کو) ۔ اولاد و پیروکاروں کو ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہٖ (پھر ہم اس کے اولیاء کو کہیں گے) ۔ خون کے وارث۔ قراءت : حمزہ و علی کی قراءت میں لتبیتنہ تائے اولیٰ اور تائے ثانیہ کے ضمہ سے۔ لتقولُن تاء اور ضمہ لام کے ساتھ آیا ہے۔ ماشہدنا، ( ہم تو موجود ہی نہ تھے) مہلک اہلہ (اس کے اہل کے ہلاک ہونے کی جگہ میں) قراءت، حفص نے مہلک پڑھا اور ابوبکر ‘ حماد ‘ مفضل نے مَہْلَکَ پڑھا اور اصل ہلک قرار دیا۔ اول کا معنی موضع ہلاکت اور دوسرا مصدر ہے۔ اس کا معنی ہلاکت ہے۔ دیگر قراء نے مُہْلَک پڑھا اور اہلک کو اصل قرار دیا۔ نمبر 1۔ اس کا معنی اہلاک (ہلاک کرنا) نمبر 2۔ مکان اہلاک۔ ہلاک کرنے کی جگہ۔ حاصل معنی نمبر 1۔ یہ ہے ہم نے اس کے اہل و عیال پر کوئی تعرض ہی نہیں کیا۔ پس ہم ان پر کیسے تعرض کرسکتے ہیں۔ نمبر 2۔ ہم تو اس کی ہلاکت کے ٹھکانے پر موجود نہ تھے۔ ہم اس کی ہلاکت کے کیونکر ذمہ داربنیں۔ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ (اور بیشک ہم ضرور سچے ہیں) اس بات میں جو ہم نے کی ہے۔ وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّ مَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (اور انہوں نے ایک خفیہ تدبیر کی اور ہم نے بھی ایک خفیہ تدبیر کی اور اس تدبیر کی ان کو خبر بھی نہ تھی) ۔ مکرہم سے ان کی وہ تدبیر جو انہوں نے صالح (علیہ السلام) اور ان کے اہل کے متعلق شبخون مارنے کی بنائی تھی۔ مکر اللّٰہ سے مراد ان کا اس طور پر ہلاک کردینا کہ ان کو خبر بھی نہ ہوئی۔ آیت میں (نحو) بطور استعارہ تدبیر کو ماکر کے مکر سے تشبیہ دی ہے۔ صالح ( علیہ السلام) کے خلاف سازش قتل : روایت میں ہے کہ گھاٹی میں صالح (علیہ السلام) کی مسجد تھی جس میں آپ نماز ادا فرمایا کرتے تھے وہ کہنے لگے کہ صالح کا خیال یہ ہے کہ وہ ہم سے تین دن میں فارغ ہوجائے گا۔ ہم کیوں نہ اس سے اور اس کے اہل سے تین دن سے پہلے فارغ ہوجائیں۔ چناچہ نو آدمی گھاٹی کی طرف نکل کر گئے۔ اور آپس میں کہنے لگے اگر وہ نماز ادا کرنے آئے گا تو ہم اس کو قتل کردیں گے۔ پھر اس کے اہل پر حملہ آور ہو کر ان کو قتل کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک پتھر مسلسل بارش سے ان کی جانب بھیج دیا۔ وہ جلدی بھاگے تو پتھر اوپر سے آ کر ان پر گھاٹی میں فٹ ہوگیا۔ ان کی قوم کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ وہ کہاں گئے اور نہ ان کو معلوم ہوا کہ ان کی قوم کا کیا حشر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام کو اسی جگہ سزا دے دی اور صالح (علیہ السلام) کو اور تمام ایمان والوں کو بچالیا۔
Top