Tafseer-al-Kitaab - An-Nisaa : 47
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم سفر کے لئے نکلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں اگر نماز میں قصر کرو اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔
[67] قصر سے مراد نماز میں کمی کرنا ہے یعنی چار رکعت کی جگہ دو رکعت۔ جہاں تک سنتوں کا تعلق ہے تو نبی ﷺ کے عمل سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ سفر میں فجر کی سنتوں اور عشاء کے وتر کا التزام فرماتے تھے مگر باقی اوقات میں صرف فرض نماز پڑھتے تھے۔ [68] بعض لوگوں نے اس فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ قصر صرف حالت جنگ کے لئے ہے، امن کی حالت میں نہیں۔ لیکن یہ بات تقریباً تواتر سے ثابت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے دونوں حالت میں قصر فرمایا ہے اور صحابہ کرام کا بھی اس پر عمل رہا۔
Top