Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم سفر کرو ملک میں تو تم پر گناہ نہیں کہ کچھ کم کرو نماز میں سے اگر تم کو ڈر ہے کہ ستاویں گے تم کو کافر البتہ کافر تمہارے صریح دشمن ہیں
خلاصہ تفسیر
اور جب تم زمین میں سفر کرو (جس کی مقدار تین منزل ہو) سو تم کو اس میں کوئی گناہ نہ ہوگا (بلکہ ضروری ہے) کہ تم (ظہر اور عصر اور عشاء کے فرض) نماز (کی رکعات) کو کم کردو (یعنی چار کی جگہ دو پڑھا کرو) اگر تم کو یہ اندیشہ ہو کہ تم کو کافر لوگ پریشان کریں گے (اور اس اندیشہ کی وجہ سے ایک جگہ زیادہ دیر تک ٹھہرنا خلاف مصلحت سمجھا جاوے، کیونکہ) بلاشبہ کافر لوگ تمہارے صریح دشمن ہیں اور جب آپ ان میں تشریف رکھتے ہوں (اور اسی طرح آپ کے بعد اور جو امام ہو) پھر آپ ان کو نماز پڑھانا چاہیں (اور اندیشہ ہو کہ اگر سب نماز میں لگ جائیں گے تو کوئی دشمن موقع پا کر حملہ کر بیٹھے گا) تو (ایسی حالت میں) یوں چاہئے کہ (جماعت کے دو گروہ ہوجائیں پھر) ان میں سے ایک گروہ تو آپ کے ساتھ (نماز میں) کھڑے ہوجائیں (اور دوسرا گروہ نگہبانی کے لئے دشمن کے مقابل کھڑا رہے تاکہ دشمن کو دیکھتا رہے) اور وہ لوگ (جو آپ کے ساتھ نماز میں شامل ہیں وہ بھی مختصر مختصر) ہتھیار لینے میں دیر نہ لگے، فوراً قتال کرنے لگیں، گو نماز قتال سے ٹوٹ جائے گی، لیکن گناہ نہیں) پھر جب یہ لوگ (آپ کے ساتھ) سجدہ کر چکیں (یعنی ایک رکعت پوری کرلیں) تو یہ لوگ (نگہبانی کے لئے) تمہارے پیچھے ہوجاویں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے اور دوسرے گروہ کے جو کہ اب نماز میں شامل ہوں گے جن کا بیان آگے آتا ہے، یہ پہلا گروہ ان سب کے پیچھے ہوجائے) اور دوسرا گروہ جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی (یعنی شروع بھی نہیں کی) وہ اس پہلے گروہ کی جگہ امام کے قریب) آجائے اور آپ کے ساتھ نماز (کی ایک رکعت جو باقی رہی ہے اس کو) پڑھ لیں اور یہ لوگ بھی اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لیلیں (اور سامان اور ہتھیار ہمراہ لینے کا اس لئے سب کو حکم کیا ہے کہ) کافر لوگ یوں چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے (ذرا) غافل ہو جاؤ تو تم پر ایک بارگی حملہ کر بیٹھیں، (سو ایسی حالت میں احتیاط ضروری ہے) اور اگر تم کو بارش (وغیرہ) کی وجہ سے (ہتھیار لے کر چلنے میں) تکلیف ہو یا تم بیمار ہو (اور اس وجہ سے ہتھیار باندھ نہیں سکتے، تو تم کو اس میں (بھی) کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھ اور (پھر بھی) اپنا بچاؤ (ضرور) لے لو، (اور یہ خیال نہ کرو کہ کفار کی دشمنی کا صرف دنیا ہی میں علاج کیا گیا ہے بلکہ آخرت میں اس سے بڑھ کر ان کا علاج ہوگا کیونکہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے سزائے اہانت آمیز مہیا کر رکھی ہے، پھر جب تم نماز (خوف) کو ادا کر چکو تو (بدستور) اللہ تعالیٰ کی یاد میں لگ جاؤ کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے بھی (یعنی ہر حالت میں حتی کہ عین لڑائی کے وقت بھی اللہ کا ذکر جاری رکھو دل سے بھی اور احکام شرعی کے اتباع سے بھی کہ وہ بھی ذکر میں داخل ہے، لڑائی میں خلاف شرع کوئی کارروائی کرنے سے پرہیز کرو، غرض نماز تو ختم ہوئی ذکر ختم نہیں ہوتا، سفر یا خوف کی وجہ سے نماز میں تو تخفیف ہوگئی تھی لیکن ذکر اپنی حالت پر ہی ہے) پھر جب تم مطمئن ہوجاؤ (یعنی سفر ختم کر کے مقیم ہوجاؤ اور اسی طرح خوف کے ختم ہونے کے بعد بےخوف ہوجاؤ) تو نماز کو (اصلی) قاعدہ کے موافق پڑھنے لگو (یعنی قصر اور نماز میں مشی وغیرہ چھوڑ دو ، کیونکہ وہ بوجہ عارض کے جائز رکھا گیا تھا) یقیناً نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے (پس فرض ہونے کی وجہ سے ادا کرنا ضرور اور وقت کے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے وقت ہی میں ادا کرنا ضرور ہوا، اس لئے کچھ کچھ اس کی شکل و صورت میں تبدیلی کردی گئی، ورنہ نماز کی صورت مقصودہ وہی اصلی صورت ہے، پس سبب کے ختم ہونے کے بعد نماز کی اصلی صورت کی حفاظت لازم ہوگئی) اور ہمت مت ہارو اس مخالف قوم کے تعاقب کرنے میں (جبکہ اس کی ضرورت ہے) اگر تم (زخموں سے) تکلیف میں مبتلا ہو تو (کیا ہوا) وہ بھی تو درد میں مبتلا ہیں جیسے تم درد میں مبتلا ہو (تو وہ تم سے زیادہ قوت نہیں رکھتے پھر کا ہے کو ڈرتے ہو) اور (تم میں ایک زیادتی ان سے یہ ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی چیزوں کی امید رکھتے ہو کہ وہ لوگ (ان کی) امید نہیں رکھتے (یعنی ثواب، تو دل کی قوت میں تم زیادہ ہوئے اور ضعف بدن میں ایک جیسے تو تم کو زیادہ چست رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں (ان کو کفار کا کمزور دل اور کمزور بدن معلوم ہے) بڑے حکمت والے ہیں (تمہاری قوت برداشت سے زیادہ حکم نہیں فرمایا)۔
معارف و مسائل
ربط آیات۔ اوپر جہاد اور ہجرت کا ذکر تھا چونکہ اب احوال میں جہاد اور ہجرت کے لئے سفر کرنا پڑتا ہے اور ایسے سفر میں مخالف کی طرف اندیشہ بھی اکثر ہوتا ہے اس لئے سفر اور خوف کی رعایت سے جو نماز میں بعض خاص سہولتیں اور تحفیفیں کی گئی ہیں آگے ان کا ذکر فرماتے ہیں۔
Top