Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
(اور جب تم لوگ سفر کے لئے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار کر دو (خصوصا) جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں
(آیت) ” نمبر 101۔ جو شخص مسافر ہو ‘ اسے اپنے رب کے ساتھ دائمی تعلق کی ضرورت ہے ‘ تاکہ اللہ اس پر سفر کی مشکلات میں آسانیاں پیدا کر دے ۔ اس کی تیاریوں میں اس کی مداد ہو ‘ سامان سفر فراہم ہو اور راستے کی مشکلات اللہ اس کے لئے آسان کر دے ۔ نماز تعلق باللہ کا موثر ترین ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مشکلات اور تکالیف میں نماز سے امداد حاصل کریں ۔ جب خوف کا مقام ہو اور جب زندگی کی مشقتوں کا سامنا ہو تو حکم ہے کہ نماز سے معاونت حاصل کرو۔ (آیت) ” واستعنوا بالصبر والصلوۃ) (نماز اور صبر کے ذریعے اللہ کی امداد طلب کرو) یہی وجہ ہے کہ سفر و جہاد کے اس موضوع کے متصلا بعد اللہ تعالیٰ نے نماز کا ذکر کیا ۔ ایسے حالات میں نماز ایک مومن کا نہایت ضروری ہتھیار ہوتی ہے ۔ اگر کسی کو راستے میں خوف اور خطرے کے حالات درپیش ہوں تو ایسے حالات میں اسے صرف اللہ کی یاد سے اطمینان ہوتا ہے ۔ جو شخص اپنے ملک کو چھوڑتا ہے اس کے لئے اللہ کی درگاہ میں پہنچ جانا ہی باعث اطمینان ہوتا ہے ۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ ہے کہ کامل نماز اور پورے رکوع اور سجود کے ساتھ نماز کی وجہ سے کبھی ہو سکتا ہے کہ ایک مومن پر دشمن حملہ آور ہوجائیں جو کہیں قریب ہی چھپے ہوں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دشمن اسے پہچان لیں ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طویل رکوع اور سجود میں اسے پکڑ لیں ‘ چناچہ جو لوگ جہاد کے لئے نکلیں ان کے لئے جائز ہے کہ وہ خوف کے وقت نماز کو مختصر کردیں ۔ یہاں قصر کے مفہوم اور تفسیر میں ہم اسی بات کو ترجیح دیتے ہیں جسے جصاص نے لیا ہے کہ اس قصر سے مراد رکعات میں قصر نہیں ہے اس لئے کہ یہ تو مطلق مسافر کے لئے جائز ہے خواہ حالت خوف ہو یا نہ ہو ‘ بلکہ سفر میں تو قصر لازمی ہے ۔ جس طرح حضور اکرم ﷺ نے قصر فرمائی اور ہر سفر میں فرمائی اس لئے کہ سفر میں راجح اقوال کے مطابق پوری رکعات پڑھنا جائز ہی نہیں ہے ۔ لہذا یہاں حالت خوف میں قصر سے مراد بالکل دوسری ہوگی اور یہ قصر مسافر کی قصر سے مختلف ہوگی ۔ یہ قصر نماز کی کیفیت میں ہوگی مثلا رکوع ‘ سجود اور قیام میں نہایت ہی سکون سے یہ ارکان سرانجام دینے میں قصر ہوگی ۔ یوں حالت خوف میں مسافر کے لئے چلتے ہوئے ‘ سواری کی حالت میں اور صرف اشارے سے بھی نماز جائز ہوگی اور اس طرح وہ اپنے رب کے ساتھ جڑا ہوا رہے گا ۔ حالت خوف اور حالت فتنہ میں بھی وہ اس ضروری ہتھیار سے مسلح ہوگا اور دشمن کے مقابلے میں محتاج بھی ہوگا اس لئے کہ (آیت) ” ان الکفرین کانوا لکم عدوامبینا “۔ (4 : 101) (بےشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں) مسافر اور مجاہد کی نماز میں حالت خوف میں قصر کے حکم کے بعد اور اسی مناسبت سے معرکہ کارزار میں اب صلوۃ الخوف کا حکم بھی یہاں دیا جاتا ہے ۔ اس خالص فقہی حکم کے اندر بھی نفسیاتی اور تربیتی اشارات کا وافر ذخیرہ دستیاب اور موجود ہے ۔
Top