Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 101
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ١ۖۗ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَاِذَا : اور جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِي الْاَرْضِ : ملک میں فَلَيْسَ : پس نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : کہ تَقْصُرُوْا : قصر کرو مِنَ : سے الصَّلٰوةِ : نماز اِنْ : اگر خِفْتُمْ : تم کو ڈر ہو اَنْ : کہ يَّفْتِنَكُمُ : تمہیں ستائیں گے الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنَّ : بیشک الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) كَانُوْا : ہیں لَكُمْ : تمہارے عَدُوًّا مُّبِيْنًا : دشمن کھلے
اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کرکے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ تم کو ایذا دیں گے بےشک کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں
واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ جناح کا معنی ہے گناہ۔ کذافی القاموس۔ ان تقصروا من الصلوۃ کہ نماز میں قصر کر دو ۔ یعنی چار رکعت والی نماز میں دو رکعت کم کر دو ۔ تین اور دو رکعت والی نماز میں باتفاق علماء قصر نہیں۔ اس لئے اس جگہ الصلٰوۃ سے مراد چار رکعت والی نماز ہے۔ سیبویہ کے نزدیک من الصلوۃ صفت ہے اور موصوف جو مفعول ہے محذوف ہے یعنی شیئاً کائنًا من الصَّلوۃ۔ اخفش کے نزدیک الصلوٰۃ ہی مفعول ہے۔ منزائد ہے۔ چندمباحث بحث (1) : جس سفر میں قصر کی اجازت ہے اس کی مقدار کیا ہے۔ یہ مفصل بحث سورة بقرہ میں گزر چکی ہے جہاں روزہ نہ رکھنے کی اجازت کا بیان کیا گیا ہے۔ بحث (2) : کیا سفر میں پوری نماز (بغیر قصر کے) پڑھنی جائز ہے یا نہیں امام ابوحنیفہ (رح) کے اور امام مالک (رح) کے بعض رفقاء کے نزدیک ناجائز ہے۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت عمر ؓ حضرت علی ؓ حضرت ابن عمر ؓ حضرت جابر اور حضرت ابن عباس ؓ کا مسلک روایات میں یہی آیا ہے۔ حسن بصری (رح) عمر (رح) بن عبدالعزیز۔ قتادہ (رح) اور امام مالک کا یہی مذہب ہے۔ امام شافعی (رح) امام احمد (رح) نے کہا اور مشہور قول امام مالک کا بھی یہی ہے کہ پوری نماز سفر میں جائز ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان غنی اور حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کا مسلک یہی مروی ہے۔ امام شافعی (رح) نے جواز کا قول ظاہر آیت کو دیکھ کر اختیار کیا کیونکہ گناہ کی نفی اجازت ہی کی صورت میں ہوتی ہے جہاں قطعی حکم ہو وہاں نفی جناح نہیں (بلکہ اس کام کو نہ کرنا وجوبی ہوتا ہے) حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں قصر بھی کرتے تھے اور پوری بھی پڑھتے تھے اور روزہ نہیں بھی رکھتے تھے اور رکھتے بھی تھے۔ رواہ الشافعی و ابن ابی شیبۃ والدارقطنی۔ دارقطنی نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے لیکن اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ روایت مغیرہ بن زیاد کی ہے جس نے عطاء بن رباح کے حوالہ سے اس کو بیان کیا ہے اور امام احمد (رح) نے مغیرہ کو ضعیف کہا ہے اور ابو زرعہ نے اس کی حدیث کو ناقابل استدلال قرار دیا ہے۔ مگر ابن جوزی نے یہ حدیث عمر بن سعید کی وساطت سے بحوالۂ عطا بیان کی ہے (جس میں مغیرہ واقع نہیں ہوتا) پھر مغیرہ کو وکیع اور یحییٰ بن معین نے ثقہ قرار دیا ہے۔ عبدالرحمن بن اسود راوی ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا میں رمضان میں عمرہ کرنے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئی ‘ حضور ﷺ نے روزہ نہیں رکھا مگر میں نے رکھا۔ حضور ﷺ نے نماز میں قصر کیا اور میں نے پوری نماز پڑھی۔ میں نے عرض کیا ‘ میرے ماں باپ قربان ‘ آپ نے روزہ نہیں رکھا اور میں نے رکھا۔ آپ ﷺ نے قصر کیا اور میں نے پوری نماز پڑھی۔ فرمایا عائشہ ؓ : تم نے اچھا کیا۔ رواہ النسائی والدارقطنی۔ دارقطنی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ بیہقی نے بھی نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔ اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ عبدالرحمن بن اسود حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں بچہ پن میں گئے تھے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کسی حدیث کی سماعت نہیں کی۔ دارقطنی نے بلوغ کے قریب حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں جانے کی صراحت کی ہے۔ تاریخ بخاری وغیرہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ پھر دارقطنی نے کہا یہ حدیث عبدالرحمن ؓ بن اسود نے اپنے باپ کی وساطت سے اس سے بھی بیان کی ہے گویا دارقطنی کے قول میں اختلاف ہوگیا۔ ایک قول سے حدیث کا مسند ہونا اور دوسرے قول سے مرسل ہونا معلوم ہوتا ہے۔ السیر میں مسند ہونے کو صحیح کہا ہے اور العلل میں مرسل ہونے کو اشبہ بالصواب کہا ہے اس روایت پر اعتراض کیا گیا ہے کہ تمام اہل سیر کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی رمضان میں عمرہ نہیں کیا ہے صرف دارقطنی کی روایت میں عمرۂ رمضان کی صراحت ہے کسی اور راوی نے عمرۂ رمضان کا ذکر نہیں کیا۔ واللہ اعلم۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا استدلال حسب ذیل ہے۔ یعلی بن امیہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمر ؓ بن خطاب سے دریافت کیا اللہ نے فرمایا ہے : لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِیَنُکُم الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اور اب لوگ امن سے ہیں (تو کیا امن کی حالت میں سفر کے اندر بھی قصر جائز ہے) حضرت عمر ؓ نے فرمایا مجھے بھی اس پر تعجب تھا اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ صدقہ ہے جو اللہ نے تم کو عطا فرمایا ہے لہٰذا اللہ کے صدقہ (یعنی احسان) کو قبول کرو۔ رواہ مسلم۔ اس حدیث میں قصر کو صدقہ فرمایا ہے اور جہاں کسی کو مالک کرنے کا احتمال ہی نہ ہو وہاں تصدق کرنے کا معنی ہوتا ہے محض ساقط کردینا (تو قصر جب تصدق ہوا اور قصر سے کسی چیز کی تملیک نہیں ہوتی لامحالہ دو رکعت کو ساقط کردینا ہی مراد ہوگا اور اللہ کی طرف سے جو حکم ساقط ہوگیا اس کو کرنا ناجائز ہے لہٰذا پوری نماز پڑھنا ناجائز ہے) دیکھو جس شخص کی اطاعت واجب نہیں جیسے ولی قصاص اگر وہ تصدق کر دے یعنی قصاص کو معاف کر دے تو قصاص ساقط ہوجاتا ہے چہ جائیکہ تصدق کرنے والی اگر وہ ہستی ہو جس کی اطاعت واجب ہے (اس کے تصدق کے حکم کی تعمیل کس طرح لازم نہ ہوگی) قبیلۂ بنی عبداللہ بن کعب میں انس ؓ بن مالک ایک شخص تھے انہوں نے رسول اللہ ﷺ : کی مندرجۂ ذیل حدیث بیان کی اس کے علاوہ کسی اور حدیث رسول کی روایت ان سے ثابت نہیں۔ انس ؓ : کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سواروں نے ہم پر لوٹ مچائی (یعنی حملہ کیا) میں فوراً خدمت گرامی میں حاضر ہوا حضور ﷺ دن کا کھانا تناول فرما رہے تھے فرمایا قریب آؤ اور کھاؤ میں نے عرض کیا میں روزہ سے ہوں فرمایا قریب آؤ میں روزہ کے متعلق تم سے ایک بات کہوں ‘ اللہ نے مسافر سے روزہ اور نماز کا آدھا حصہ ساقط کردیا ہے اور حاملہ و مرضعہ سے روزہ۔ (انس ؓ : کا بیان ہے) افسوس کہ میں رسول اللہ ﷺ کا کھانا نہ کھاسکا۔ رواہ ابن الجوزی من طریق الترمذی۔ امام شافعی (رح) نے اسی حدیث سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں روزہ کو نماز کے ساتھ بیان کیا ہے اور مسافر کو سفر میں روزہ نہ رکھنے کا باتفاق علماء جواز ہے وجوب نہیں (لہٰذا نماز میں قصر کرنے کا بھی جواز ہوگا وجوب نہ ہوگا) وجہ یہ ہے کہ وضع کا حقیقی معنی ہے ساقط کردینا لیکن رخصت صوم میں چونکہ اس کا استعمال کیا گیا ہے اس لئے صوم کے معاملہ میں مجازاً اس کا استعمال تخییر کے لئے ہوگیا (اور قصر صلوٰۃ کا ذکر صوم کے ساتھ اسی لفظ کے تحت کیا گیا ہے اس لئے قصر میں بھی تخییر کا معنی مراد ہوگا۔ قصر صلوٰۃ میں وجوب کے لئے اور ترک صوم میں تخییر کے لئے ہو یہ ممکن نہیں ورنہ ایک ہی وقت میں ایک ہی لفظ کے دو معنی مراد لینے ہوں گے ایک حقیقی دوسرا مجازی اور یہ حقیقت و مجاز کے درمیان اجتماع ہے جو ناجائز ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق پوری پوری بغیر کمی کے سفر کی نماز دو رکعت ہے اور عیدالاضحی کی نماز دو رکعت ہے اور عیدالفطر کی نماز دو رکعت ہے اور جمعہ کی نماز دو رکعت ہے۔ اخرجہ النسائی وابن ماجۃ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ نے تمہارے نبی پر اقامت کی حالت میں چار رکعت اور سفر میں دو رکعت اور خوف کے وقت ایک رکعت فرض کی۔ رواہ مسلم۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا (شروع میں) نماز کی دو رکعتیں ہی فرض کی گئی تھیں پھر سفر کی حالت میں تو اس کو قائم رکھا گیا اور اقامت کی حالت میں اس میں (دو رکعت کی) زیادتی کردی گئی۔ رواہ البخاری ومسلم۔ زہری کا بیان ہے میں نے عروہ ؓ سے پوچھا پھر حضرت عائشہ ؓ سفر میں پوری نماز کیوں پڑھتی تھیں۔ عروہ ؓ نے جواب دیا انہوں نے حضرت عثمان ؓ کی طرح تاویل کی تھی۔ بخاری کی روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں۔ نماز دو رکعت فرض کی گئی تھی پھر جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کی تو چار رکعتیں (اقامت کی حالت میں) فرض کردی گئیں اور سفر کی حالت میں اوّل صورت پر نماز باقی رکھی گئی۔ حضرت ابن عمر ؓ کا بیان ہے میں سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا حضور ﷺ نے وقت وفات تک (سفر میں) دو رکعت سے زائد نہیں پڑھی۔ حضرت عمر ؓ کے بھی ساتھ رہا ‘ آپ نے بھی وقت وفات تک دو رکعت سے زائد نہیں پڑھی (یعنی سفر میں) حضرت عثمان ؓ کے بھی ساتھ رہا آپ نے بھی (سفر میں) وقت وفات تک دو رکعت سے زائد نہیں پڑھی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌرواہ البخاری۔ صحیحین میں حضرت ابن عمر ؓ کا قول ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا آپ ﷺ سفر میں دو رکعتوں پر اضافہ نہیں کرتے تھے اور میں ابوبکر ؓ و عمر ؓ اور عثمان ؓ کے ساتھ بھی رہا یہ بھی ایسا ہی کرتے تھے ‘ صحیحین میں حضرت ابن عمر کا قول اس طرح بھی آیا ہے کہ منیٰ میں رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں اور آپ کے بعد ابوبکر نے بھی اور ابوبکر ؓ کے بعد عمر ؓ نے بھی اور عثمان نے اپنی خلافت کے شروع میں بھی لیکن کچھ مدت کے بعد عثمان ؓ نے چار رکعتیں پڑھیں۔ امام احمد (رح) کی روایت ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو لوگوں نے اعتراض کیا آپ نے فرمایا لوگو میں جب سے مکہ میں آیا ہوں میں نے مکہ میں گھر کرلیا ہے اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ جو شخص کسی شہر میں گھر کرے تو وہ مقیم کی ایسی نماز پڑھے۔ دیکھو حضرت عثمان ؓ کے پوری نماز پڑھنے پر لوگوں نے اعتراض کیا اور آپ ﷺ نے مکہ میں گھر کرلینے کا عذر پیش کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری نماز پڑھنی جائز نہیں ورنہ لوگ اعتراض نہ کرتے اور نہ آپ عذر پیش کرتے بلکہ فرما دیتے کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ سفر میں قصر کروں یا نہ کروں) امام شافعی (رح) کی طرف سے جواب میں کہا گیا ہے کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب کے قول میں آیا ہے کہ سفر میں دو رکعتیں ہیں پوری پوری بغیر قصر (کمی) کے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ دو رکعتیں ثواب میں پوری ہیں (صرف دو رکعت پڑھنے سے) نماز میں کوئی نقصان نہیں آتا کیونکہ غیر قصر سے مراد اگر یہ ہوتی کہ (اصل نماز دو رکعت ہے) سفر میں قصر نہیں کیا گیا تو یہ آیت : فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا کے خلاف ہے اس آیت میں قصر صلوٰۃ کی صراحت ہے اور حدیث آحاد خواہ مرفوع ہی ہو لیکن جب اس کا مقابلہ صراحت قرآنی سے ہو تو واجب الترک ہے یہ تو حدیث موقوف ہے۔ رہا حضرت ابن عباس ؓ کا اثر تو وہ بالاجماع واجب الترک ہے کیونکہ صلوٰۃ خوف کے ایک رکعت ہونے کا کوئی قائل نہیں۔ باقی حضرت عائشہ ؓ کی روایت تو وہ بھی ناقابل عمل ہے کیونکہ راوی کا عمل اگر اسی کی روایت کے خلاف ہو تو ایسی روایت مجروح مانی گئی ہے اور یہ یقینی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ (سفر میں) پوری نماز پڑھتی تھیں اور رخصت اختیاری کا قول انہوں نے نقل بھی کیا ہے لہٰذا ان کے یہ الفاظ کہ سفر میں نماز اوّل حالت پر چھوڑ دی گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ جو دو رکعت پڑھنا پسند کرے تو گویا اس کے لئے نماز اوّل حالت پر چھوڑ دی گئی (اس کو زیادہ کا مکلف نہیں بنایا گیا) رہا حضرت ابن عمر ؓ کا قول تو وہ نفی کی شہادت دے رہا ہے اور حضرت عائشہ ؓ کی حدیث اثبات پر دلالت کر رہی ہے لہٰذا حضرت عائشہ ؓ کی حدیث کو ترجیح دی جائے گی۔ یا یوں کہا جائے گا کہ حضرت ابن عمر ؓ نے جو فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو رکعت پر اضافہ نہیں کیا۔ اس سے مراد ہے اکثر اوقات دو رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھی (کبھی زیادہ بھی پڑھ لی) پھر خود ہی حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنی خلافت کے شروع میں دو رکعتیں پڑھیں پھر چار پڑھیں۔ اس میں لوگوں کے اعتراض کرنے کا ذکر نہیں ہے اس سے بجائے خود ثابت ہوتا ہے کہ دو یا چار رکعت پڑھنے کا اختیار ہے (دو کا وجوب نہیں) رہی آیت لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌجو حضرت ابن عمر ؓ نے ذکر کی تھی تو یہ وجوب پر دلالت نہیں کرتی۔ اوّلیٰ ہونا بتاتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ پر لوگوں کا اعتراض اور آپ کی معذرت صرف ترک اوّلیٰ کی وجہ سے ہو (ترک واجب کی وجہ سے نہ ہو) امام ابوحنیفہ (رح) نے ایک عقلی استدلال بھی کیا ہے کہ قصر کی نماز کے آخری شفعہ (آخری دو رکعتوں) کی قضا کا حکم نہیں اور نہ ان کو ترک کرنے سے گناہ گار ہوگا (معلوم ہوا کہ پہلی دو رکعتیں ہی فرض ہیں اور) آخری شفعہ نفل ہے ‘ روزہ کی یہ حالت نہیں ہے۔ اس کی قضا واجب ہے اور فقیر کے حج کی حالت بھی اس سے جدا ہے (فقیر پر حج اگرچہ فرض نہیں لیکن اگر میقات میں داخل ہوجائے تو فرض ہوجاتا ہے) ۔ تخییر (کرنے نہ کرنے کا اختیار) کا حکم تو اس وقت ہوتا ہے جب فعل اور ترک دونوں میں کسی خاص قسم کی سہولت ہو جیسے مسافر کے لئے رمضان کا روزہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ایسی سہولت سے گزر جاتا ہے جو تنہا روزہ رکھنے میں مفقود ہے دو تین کے ساتھ روزہ رکھنے میں آسانی ہے۔ رہا مسافر کا جمعہ اور اس کے ظہر کی نماز تو یہ دونوں الگ الگ جنس کی نمازیں ہیں اور ہر ایک میں وہ سہولت ہے جو دوسرے میں نہیں ہے جمعہ میں (باوجود دو رکعت کی سہولت حاصل ہونے کے) ایسی شرطیں بھی ہیں جو ظہر میں نہیں ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اگر مکلف کی سہولت کی رعایت نہ ہو تو ایسی صورت میں تخییر شان عبودیت کے منافی ہے (عبودیت کا تقاضا وجوب ہے نہ کہ اپنی مرضی پر چلنا) ۔ امام صاحب کے اس استدلال کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ اگر قلیل و کثیر میں تخییر دی جاتی ہے تو دونوں صورتوں کی وجہ الگ الگ ہوتی ہے ‘ قلیل میں تو سہولت ہوتی ہے اور کثیر میں ثواب کی زیادتی اور کثیر میں اجر کے زیادہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قلیل میں (معیار مقرر کے درجہ سے) ثواب کم ہے ‘ دیکھو نماز میں مقدار قراءت کم سے کم اتنی کہ جس سے نماز ہوجائے (کامل ثواب کے لئے کافی ہے) اور پورے قرآن کی ایک رکعت میں قراءت جو (زیادتی ثواب کی موجب ہے) دونوں کا اختیار ہے اوّل الذکر کی نماز میں کوئی نقصان نہیں آتا اور نہ پورا قرآن پڑھنے والا فرض سے زائد (بطور نفل) پڑھتا ہے کیونکہ حکم قراءت قرآن کا ہے اور جس طرح مقدار ادنیٰ مایجوزبہ الصلوٰۃ ماموبہ کا فرد ہے اسی طرح پورا قرآن بھی فرد ہے۔ اِس پر شبہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ تقریر تو اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ اگر مسافر پوری نماز پڑھے تو ثواب زیادہ ہوگا اور قصر سے پڑھنے میں اتنا ثواب نہ ہوگا (گو فرض ادا ہوجائے گا) جیسے نماز میں قرأت کی زیادتی سے بالاجماع ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ سنت سے زیادہ قراءت امام کے لئے اس وقت مکروہ ہے جب مقتدی پسند نہ کرتے ہوں۔ تنہا نماز پڑھنے میں زیادتی قراءت افضل ہے اور اگر قوم راغب ہو تو امام کے لئے بھی زیادہ قرآن پڑھنا زیادتی ثواب کا باعث ہے لیکن بالاجماع سفر میں قصر کرنا پوری نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ امام شافعی (رح) کا ایک قول ضرور آیا ہے کہ سفر میں پوری نماز پڑھنی افضل ہے مگر آپ نے اس سے رجوع کرلیا تھا۔ رہا امام شافعی (رح) کا لفظ جناح سے تخییر کا استنباط کرنا تو یہ غلط ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لوگ پوری نماز پڑھنے کے عادی تھے اور اسی سے مانوس تھے۔ قصر کے حکم سے ان کے دلوں میں یہ خطرہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس سے نماز میں کمی آجائے گی اس خیال کو دفع کرنے کے لئے گناہ کی نفی کی تاکہ لوگ قصر سے کوئی خطرہ محسوس نہ کریں اور اطمینان قلب سے قصر کے ساتھ نمازیں پڑھیں جیسے دوسری آیت میں آیا ہے : اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَاءِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا (جاہلیت کے زمانہ میں لوگ صفا ومروہ کے درمیان چکر لگاتے تھے اور دونوں پہاڑیوں پر اس زمانہ میں دو بت رکھے تھے جب اسلام کا دور آیا اور صفا ومروہ کے درمیان طواف کا وجوبی حکم دینا مقصود ہوا لیکن اس طور پر کہ لوگوں کو یہ خیال نہ ہو کہ یہ تو بت پرستی اور جاہلیت کی رسم ہے اس لئے لفظ لاَجُنَاحَاستعمال کیا) ۔ اس کے رد میں شافعیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ تو خواہ مخواہ بےوجہ ظاہر آیت کا ترک ہے۔ واللہ اعلم۔ بحث (3): آیت کے عموم کے پیش نظر امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک گناہ کے سفر میں بھی قصر کیا جائے گا۔ باقی تینوں اماموں کے نزدیک سفر معصیت میں قصر جائز نہیں مگر ان کے پاس کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں (کہ آیت کے عموم کے مقابل اس کو تسلیم کیا جائے) بحث (4) : مسافر جب شہر کی آبادی سے نکل جائے تو قصر کرے یہ فیصلہ چاروں اماموں کے نزدیک بالاتفاق ہے البتہ ایک روایت میں امام مالک (رح) : کا قول آیا ہے کہ جب آبادی سے تین میل پر پہنچ جائے تو قصر کرے۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جب حارث ؓ بن ربیعہ نے سفر کا ارادہ کیا تو اپنی فردوگاہ میں ہی انہوں نے دو رکعتیں پڑھائیں۔ حاضرین میں اسود اور حضرت عبداللہ ؓ کے متعدد شاگرد موجود تھے۔ مجاہد کا قول آیا ہے کہ دن کو سفر کو نکلے تو رات آنے تک قصر نہ کرے اور رات کو نکلے تو دن شروع ہونے سے پہلے قصر نہ کرے۔ ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ حضرت علی ؓ جب بصرہ سے نکلنے لگے تو ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں یعنی آبادی چھوڑنے سے پہلے پھر فرمایا اگر ہم اس چھاؤنی سے آگے نکل جاتے تو دو رکعت پڑھتے۔ اسی طرح جب آپ سفر سے واپس آتے اور شہر میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے تو جب تک آبادی میں داخل نہ ہوجاتے دو رکعت پڑھتے۔ آبادی میں داخل ہوجائے تو چار رکعت پڑھے یہ اجتماعی فیصلہ ہے۔ بخاری نے تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے آبادی سے نکل کر قصر کیا آبادی کے گھر سامنے نظر آ رہے تھے جب واپس آئے تو لوگوں نے کہا یہ کوفہ آگیا ہے آپ نے فرمایا نہیں۔ جب تک اندر داخل نہ ہوجائیں مراد یہ کہ دو رکعتیں پڑھیں حالانکہ کوفہ نظر کے سامنے تھا۔ عبدالرزاق نے بروایت ثوری (رح) وفا بن ایاس اسدی کا قول نقل کیا ہے۔ وفا نے کہا ہم حضرت علی ؓ کے ساتھ (کوفہ) سے نکلے ‘ کوفہ ہم کو دکھائی دے رہا تھا مگر حضرت علی ؓ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر لوٹے تب بھی دو رکعتیں پڑھیں حالانکہ آبادی ان کو نظر آرہی تھی ہم نے عرض کیا۔ کیا ہم چار نہ پڑھیں فرمایا نہیں تاوقتیکہ اندر داخل نہ ہوجائیں۔ بحث (5) : دوران سفر میں اگر کسی شہر یا گاؤں میں چار روز قیام کی نیت کرلے تو امام مالک و شافعی (رح) کے نزدیک چار رکعت پڑھے ‘ داخل ہونے اور نکلنے کے دن ان چار کی گنتی میں نہیں آئیں گے۔ امام احمد کا قول مروی ہے کہ اگر کہیں ٹھہر کر 20 نمازوں سے زائد پڑھنے کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھے۔ امام ابوحنیفہ (رح) عدم قصر کے لئے کسی شہر یا گاؤں میں پندرہ روز کے قیام کی نیت کو ضروری قرار دیتے ہیں اور جنگل میں یا (بدویوں کے) خیموں میں ٹھہرنے کی نیت کا اعتبار نہیں کرتے۔ حنفیہ کی دلیل یہ ہے کہ حج وداع میں 4 ذی الحجہ کی صبح کو اتوار کے دن رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے۔ روز نرویہ یعنی 8 ذی الحجہ کو جمعرات کے دن منیٰ کو گئے۔ بروز عرفہ یعنی 9 ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سے کوفہ کو تشریف لے گئے پھر حج سے فارغ ہو کر چہار شنبہ کی رات محصب میں گزاری اور صبح سے پہلے پہلے تڑکے میں طواف وداع کرلیا اور 14 کی صبح کو (مکہ سے) نکل گئے اس طرح دس راتیں پوری ہوگئیں۔ یوم الترویہ تک چار شبانہ روز مکہ میں قیام فرمایا۔ اس تفصیل سے امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا قول باطل ہوگیا (کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے چار شبانہ روز مکہ میں قیام رکھنے کے باوجود اور کل دس روز کی مجموعی مدت گزارنے کے باجود قصر کیا۔ لیکن امام احمد (رح) کا قول اس سے باطل نہیں ہوتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں کل 20 نماز ادا کیں اس سے زیادہ نہیں پڑھیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے آثار کو بھی دلیل میں پیش کیا ہے۔ طحاوی (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ کا قول لکھا ہے کہ جب تم حالت سفر میں کسی شہر میں جاؤ اور وہاں پندرہ روز ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو نماز پوری پڑھو اور اگر تم کو علم نہ ہو کہ وہاں سے کب کوچ کر جانا پڑے گا تو (پھر کتنی ہی مدت گزر جائے) قصر کرو۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد کی روایت سے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ اگر پندرہ روز کے قیام کا پختہ ارادہ کرلیتے تھے تو پوری نماز پڑھتے تھے۔ امام محمد (رح) نے کتاب الآثار میں لکھا ہے کہ ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہم سے موسیٰ بن مسلم نے مجاہد کی روایت بیان کی کہ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا اگر تم مسافر ہو اور (کہیں) پندرہ روزہ قیام کرنے پر تمہارا دل جم جائے تو نماز پوری پڑھو اور اگر تم کو معلوم نہ ہو کہ کب کوچ کرنا پڑے گا تو قصر کرو۔ مسئلہ : اگر کسی شہر میں داخل ہوا اور اقامت کی نیت نہیں کی اور آج کل پرسوں وہاں سے جانے کا ارادہ کرتا رہا یا یہ ارادہ کیا کہ جب کام پورا ہوجائے گا تو چلا جاؤں گا۔ اس طرح برسوں تک وہاں رہتا رہا تو جمہور کے نزدیک ہمیشہ قصر کرے گا۔ ایک قول امام شافعی (رح) کا بھی یہی ہے دوسرا قول امام شافعی (رح) کا یہ ہے کہ 14 روز قصر کرے اور (پندرہویں روز پوری نماز پڑھے) امام شافعی (رح) کا قویٰ قول یہ ہے کہ 17 روز قصر کرے اور اٹھارویں روز پوری نماز پڑھے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ کے بیان میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تشریف لے گئے اور آپ نے سترہ روز دو دو رکعتیں پڑھیں اس لئے ہم بھی سترہ روز تک دو دو رکعت پڑھتے ہیں اور اس سے زیادہ قیام کرتے ہیں تو پوری نماز پڑھتے ہیں۔ رواہ الترمذی۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے لیکن اس حدیث میں سترہ روز قصر کرنے اور اٹھارہویں روز پوری نماز پڑھنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اتفاق سے سترہ روز قیام فرمایا تھا بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر زیادہ قیام فرماتے تب بھی قصر کرتے۔ امام احمد (رح) اور ابوداؤد نے حضرت جابر کی روایت سے لکھا ہے کہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ نے بیس روز قیام فرمایا اور قصر کرتے رہے۔ عبدالرزاق نے اپنی سند سے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے آذربائیجان میں چھ ماہ قیام کیا اور نماز میں قصر کرتے رہے۔ یہ واقعہ بیہقی نے بھی صحیح سند سے بیان کیا ہے۔ بیہقی نے اپنی سند سے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا ہم آذربائیجان میں مجاہدین کے ساتھ چھ مہینے رہے ‘ برف نے ہمارا راستہ بند کر رکھا تھا (اس مدت میں) ہم دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ اسی روایت میں اتنا اور بھی آیا ہے کہ اس زمانہ میں آپ کے ساتھ دوسرے صحابی بھی تھے اور سب یہی کرتے تھے۔ عبدالرزاق نے حسن کا قول بیان کیا ہے کہ ہم حضرت عبدالرحمن ؓ بن سمرہ کے ساتھ چند سال ملک فارس میں رہے آپ دو نمازوں کو جمع نہیں کرتے تھے اور نہ دو رکعت سے زائد پڑھتے تھے۔ عبدالرزاق نے حضرت انس بن مالک کا بیان نقل کیا ہے کہ ہم عبدالملک بن مروان کے ساتھ شام میں دو ماہ رہے اور دو دو رکعت پڑھتے رہے۔ مسئلہ : جو ملاح بیوی بچوں اور مال و متاع کے ساتھ جہاز میں سفر کرتا رہتا ہو یا جو مزدور ہمیشہ سفر میں رہتا ہو وہ تین اماموں کے نزدیک قصر کرتا رہے گا کیونکہ نص مطلق ہے صرف امام احمد (رح) کے نزدیک قصر نہیں کرے گا۔ مسئلہ : خانہ بدوش صحرائیوں کی نیت اقامت بعض کے نزدیک صحیح نہیں لیکن صحیح قول یہ ہے کہ ان کو مقیم کہا جائے گا کیونکہ اقامت اصل ہے ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ کی طرف منتقل ہونے سے باطل نہیں ہوسکتی۔ مسئلہ : اگر مسافر کسی مقیم امام کی نماز کے کسی حصہ میں اقتدا کرے تو جمہور کے نزدیک اس کو چار رکعتیں پوری کرنی چاہئے۔ امام مالک (رح) نے فرمایا اگر اس کو ایک رکعت مل گئی ہو تو چار پوری کرے گا ورنہ نہیں۔ اسحاق بن راہویہ نے کہا مقیم کے پیچھے مسافر قصر کرے گا۔ امام احمد نے موسیٰ بن سلمہ کا بیان نقل کیا ہے کہ ہم حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ مکہ میں تھے۔ میں نے کہا جب ہم آپ لوگوں کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں تو چار پڑھتے ہیں اور جب لوٹ کر جاتے ہیں تو دو رکعت پڑھتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کا یہی طریقہ ہے۔ مسئلہ : اقامت کی حالت میں جو نماز فوت ہوجائے اور سفر میں اس کو ادا کرے تو پوری ادا کرے گا۔ ابن المنذر نے کہا ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس میں اختلاف کیا ہو ہاں حسن اور مزنی کا قول ایک روایت میں ہے کہ (صلوٰۃ حضر کی نماز) سفر میں قصر کے ساتھ ادا کرے گا اور اگر سفر میں کوئی نماز قضا ہوگئی ہو تو امام ابوحنیفہ (رح) اور امام مالک (رح) کے نزدیک حضر میں قصر کے ساتھ ادا کرے گا۔ امام شافعی (رح) کا بھی ایک قول یہی ہے امام احمد کے نزدیک پوری ادا کرے گا امام شافعی (رح) کا بھی صحیح قول یہی ہے۔ مسئلہ : اگر مسافر امام ہو اور مقیم مقتدی تو امام دو رکعتیں پڑھے گا اور مقیم اپنی نماز پوری کریں گے ‘ اجماعی فیصلہ یہی ہے ‘ حضرت عمران بن حصین کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب جہاد کیا اور فتح مکہ کے وقت بھی آپ کے ساتھ موجود تھا۔ آپ ﷺ نے مکہ میں آٹھ رات قیام کیا اس مدت میں ہم بس دو رکعتیں پڑھتے رہے حضور ﷺ فرمایا کرتے تھے اے اہل مکہ تم چار رکعت پڑھو ہم تو مسافر لوگ ہیں۔ رواہ الترمذی وصححہ۔ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا . اگر تم کو اندیشہ ہو کہ کافر تم کو دکھ پہنچائیں گے یعنی قتل کرنے یا زخمی کرنے یا قید کرنے یا مال لوٹنے کا۔ اس شرط کو جزاء کی ضرورت نہیں کیونکہ سابق کلام اس پر دلالت کر رہا ہے یعنی اگر دشمن کی ایذا رسانی کا تم کو اندیشہ ہو تو نماز میں قصر کرلیا کرو۔ بظاہر آیت میں خوف عدو کو قصر کی شرط قرار دیا ہے۔ خارجی اسی کے قائل ہیں لیکن اجماع علماء ہے کہ خوف شرط نہیں بلکہ عادۃً چونکہ ایسا ہوتا تھا رسول اللہ ﷺ کے اکثر سفروں میں دشمن کا خوف لگا رہتا تھا اس لئے ایک واقعہ کا اظہار کردیا ورنہ اس شرط پر کوئی حکم متفرع نہیں ہے (کہ اگر شرط ہو تو وہ حکم بھی نہ ہو) جیسے دوسری آیت ہے : وَلاَ تُکْرِہُوْ فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًاتم اپنی باندیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو اگر وہ پاکدامنی کی خواہاں ہوں (ظاہر ہے کہ پاکدامنی کی خواہش کا ذکر اکثریت کے لحاظ سے بےباندیاں اور وہ مسلمان باندیاں زنا کی خواہشمند نہیں تھیں پاکدامنی کی خواہش کی شرط ایسی نہیں کہ اس حکم پر موقوف ہو اور اگر باندیاں پاکدامنی کی خواہش مند نہ ہوں تو ان کو زنا پر مجبور کرنا جائز ہو) امن کی حالت میں قصر صلوٰۃ کے متعلق بکثرت احادیث باہم مؤید ہیں جیسے یعلی بن امیہ نے حضرت عمر ؓ کی حدیث بیان کی تھی (جس کا ذکر ادھر آچکا ہے) امام شافعی (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ و مدینہ کے درمیان امن کی حالت میں سفر کیا کہ آپ کو سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ تھا اور آپ دو رکعت پڑھتے رہے۔ حضرت حارثہ ؓ بن وہب خزاعی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں ہم کو دو رکعتیں پڑھائیں اس وقت کثرت اور امن کے لحاظ سے ہم ہر گزشتہ زمانہ سے بڑھ چڑھ کر تھے۔ متفق علیہ۔ بعض اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ ان خفتمکا تعلق سابق کلام سے نہیں ہے بلکہ آگے جو صلوٰۃ خوف کا بیان ہے اس سے اس کا تعلق ہے ‘ یہ تعلق اگرچہ الفاظ کے لحاظ سے بعید ہے مگر معنوی ربط کے لحاظ سے قریب ہے کیونکہ صلوٰۃ خوف میں دشمن کا خوف ہونا بالاجماع شرط ہے اور اس کے آگے کہیں اس شرط کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی تائید بغوی کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابو ایوب ؓ انصاری نے فرمایا آیت فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تُقَصَرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِفقط یہیں تک نازل ہوئی تھی پھر ایک سال کے بعد لوگوں نے صلوٰۃ خوف کے متعلق دریافت کیا تو نازل ہوا : اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنَّ الْکَافِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ الخبغوی نے کہا ایسی عبارتیں قرآن میں بکثرت آئی ہیں۔ پہلے پوری خبر ذکر کردی جاتی ہے پھر ترتیب کلام میں ایک اور خبر لائی جاتی ہے جو بظاہر ماقبل سے مربوط ہوتی ہے مگر حقیقت میں جدا ہوتی ہے جیسے (سورۂ یوسف میں آیا ہے) : اَلْاٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ وَاِنَّہٗ لَمِنَ الصَّدِقِیْنَ ۔ ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اِنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ بالْغَیْبِ الصَّدِقِیْنَتک عزیز کی بیوی کے قول کی نقل ہے اور ذٰلک سے حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے قول کی حکایت ہے۔ ابن جریر نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا ‘ بنی نجار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ہم ملک میں سفر کرتے رہتے ہیں۔ نماز کس طرح پڑھیں اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا : وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصَرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ ۔ پھر وحی بند رہی ایک سال کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک جہاد کیا اور وہاں ظہر کی نماز پڑھی مشرکوں نے کہا محمد ﷺ اور اس کے ساتھیوں نے اپنی پشت کی جانب سے (حملہ کرنے کا) موقع تو دے دیا تھا تم نے حملہ کیوں نہیں کیا۔ ایک آدمی بولا ان کی ایک نماز اور بھی ایسی ہی اس کے پیچھے آئے گی (اس وقت حملہ کردینا) اس پر اللہ نے دونوں نمازوں (یعنی ظہر و عصر) کے درمیان نازل فرمایا : اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔۔ عَذَابًا مُّہِیْنًاتک۔ میں کہتا ہوں اس شان نزول پر ان خفتم کی جزا محذوف ہوگی جس پر بعد والا کلام دلالت کر رہا ہے یعنی کافروں کی ایذا رسانی کا اگر تم کو اندیشہ ہو تو نماز کی حالت میں بھی احتیاط اور جہاد کو نہ چھوڑو۔ ان الکافرین کانوا لکم عدوا مبینا . یقیناً کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ امام احمدنے دلائل میں بیہقی نے اور حاکم نے (مستدرک میں) حضرت ابو عیاش زرقی کا بیان نقل کیا ہے کہ ہم عسفان میں رسول اللہ ﷺ کے ہم رکاب تھے۔ سامنے سے مشرک آگئے جن کے سردار خالد بن ولید تھے یہ لوگ ہمارے اور قبلہ کے درمیان حائل تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ظہر کی نماز پڑھائی تو مشرک کہنے لگے ‘ تھے تو یہ بڑے موقع پر اگر ہم غفلت میں ان پر حملہ کردیتے پھر خود ہی بولے (اب تو موقع نکل گیا خیر) ابھی ان کی ایک اور نماز آرہی ہے جو ان کو اپنی جان و اوّلاد سے بھی زیادہ پیاری ہے (اس وقت حملہ کریں گے) اس پر جبرئیل ( علیہ السلام) ظہر و عصر کے درمیان یہ آیت لے کر آئے : وَاِذَا کُنْتَ فِیْہِمْ فَاقَمْتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ الخغرض نماز کا وقت آیا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا (اپنے ہتھیار ساتھ رکھو) حسب الحکم لوگوں نے اسلحہ لے لئے ہم نے آپ ﷺ کے پیچھے دو صفیں بنائیں آپ نے رکوع کیا تو ہم سب نے رکوع کیا پھر آپ نے سر اٹھایا تو ہم سب نے سر اٹھائے پھر آپ ﷺ نے اس صف کے ساتھ سجدہ کیا جو آپ سے متصل تھی (یعنی پہلی صف) اور دوسرے لوگ کھڑے حفاظت کرتے رہے جب پہلی صف والے سجدہ کرچکے اور کھڑے ہوگئے تو پچھلی صف والے بیٹھ گئے اور انہوں نے اوّل صف والوں کی جگہ سجدہ کیا۔ پھر ایک جماعت دوسری جماعت کی جگہ اور دوسری جماعت اوّل جماعت کی جگہ آگئی اور (قرآت کے بعد) سب نے ساتھ مل کر رکوع کیا پھر سب نے رکوع سے سر اٹھایا پھر رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کیا اور سلام پھیر دیا۔ صلوٰۃ خوف رسول اللہ ﷺ نے دو بارہ پڑھی تھی ایک بار عسفان میں اور ایک بار قبیلۂ بنی سلیم کی سرزمین میں۔ مسلم نے حضرت جابر ؓ کی روایت سے رسول اللہ ﷺ کا صلوٰۃ خوف پڑھنا اسی طرح نقل کیا ہے۔
Top