Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 59
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى١ؕ آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ   ۧ
قُلِ : فرما دیں الْحَمْدُ لِلّٰهِ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلٰي عِبَادِهِ : اس کے بندوں پر الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفٰى : چن لیا آٰللّٰهُ : کیا اللہ خَيْرٌ : بہتر اَمَّا : یا جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک ٹھہراتے ہیں
کہہ دو کہ سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے اور اسکے بندوں پر سلام ہے جن کو اس نے منتخب فرمایا بھلا خدا بہتر ہے یا وہ جن کو یہ اسکا شریک ٹھہراتے ہیں
59: قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَسَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (آپ کہہ دیں الحمد للہ اور اس کے ان بندوں پر سلام ہو جو چنے ہوئے ہیں) ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اپنی حمد و ستائش کا اولاً حکم فرمایا۔ پھر چنے ہوئے بندوں پر سلام کا حکم دیا اور یہ اللہ تعالیٰ کی توحید و وحدانیت پر بعد میں آنے والی دلالت کے لئے بطور تمہید حکم فرمایا۔ اس میں ہر اچھا عمل کرتے ہوئے ان دونوں سے تبرک حاصل کرنا چاہیے۔ اور دونوں کے وجود مرتبہ سے خوب پختگی حاصل کرے۔ نمبر 2۔ یہ لوط (علیہ السلام) کو خطاب فرمایا کہ وہ اپنی قوم کی ہلاکت پر یہ دعا کیا کریں۔ کہ اے اللہ کفار کی ہلاکت اور پسندیدہ بندوں کے محفوظ رہنے پر تیرا شکر ہے اور اس ہلاکت سے ہمیں بچایا اور گناہوں سے معصوم بنایا۔ اللّٰہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَ (کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں) ۔ قراءت : بصری ٗ عاصم نے یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ جن کو انہوں نے شریک ٹھہرایا ہے ان میں اس وقت کوئی خیر نہیں یہاں تک کہ ان کے اور اس ذات کے درمیان موازنہ نہ کیا جائے جو کہ ہر چیز کا خالق ہے۔ یہ در حقیقت ان کو الزام دیا جا رہا ہے اور ان کی حماقت و سبک سری کا اظہار ہے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بتوں کی عبادت کو اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ترجیح دی ہے۔ اور کوئی عقل مند کسی چیز کو دوسری پر ترجیح دیتا ہے۔ تو اس کے لئے کوئی نہ کوئی داعیہ ضرور ہوتا ہے مثلاً اس میں خیر و بھلائی کی کثرت ہے اور منافع زیادہ ہیں۔ اس میں ان کو کہا جا رہا ہے۔ تم جانتے ہو کہ جن کو تم نے اللہ تعالیٰ کے بالمقابل ترجیح دی ہے ان میں خیر کا شائبہ بھی نہیں۔ اور انہوں نے ترجیح بھی زیادتی خیر کی وجہ سے نہیں دی ہے۔ بلکہ ہوائے نفسانی اور لغو محض ہے۔ کفار کو خطا ٔ مفرط پر متنبہ کرنا ٗ حیران کن جہالت پر خبردار کرنا ہے۔ تاکہ وہ معلوم کرلیں کہ ترجیح کے لئے خیر کا زائد ہونا ضروری ہے۔ اور وہ ان کے معبودوں میں مفقود ہے۔ عمل نبوت : آپ ﷺ جب یہ آیت پڑھتے تو آخر میں فرماتے : بل اللّٰہ خیر وابقٰی واجل واکرم۔ (اخرجہ الثعلبی)
Top