Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 137
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ١ۙ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ
قَدْ خَلَتْ : گزر چکی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے سُنَنٌ : واقعات فَسِيْرُوْا : تو چلو پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَانْظُرُوْا : پھر دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُكَذِّبِيْنَ : جھٹلانے والے
تم سے پہلے بہت سے واقعات (اللہ کی سنت جاریہ کے مطابق) گزر چکے ہیں۔ لہذا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے 123 والوں کا کیا انجام ہوا تھا
123 یہ مضمون قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر آیا ہے اور ایسی آیات میں لوگوں کو عام دعوت دی گئی ہے کہ ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جن لوگوں نے انبیاء کو اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا تھا۔ ان کا کیا انجام ہوا تھا اور اس انجام کی تفصیل بھی قرآن میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے۔ مثلاً قوم عاد کا کیا حشر ہوا۔ قوم ثمود کا کیا، اور قوم نوح، اصحاب مدین، اصحاب الحجر، قوم سبا وغیرہ وغیرہ کا کیا حشر ہوا۔ اسی طرح بعض اشخاص کا بھی ذکر آتا ہے۔ مثلاً فرعون اور آل فرعون، کا کیا حشر ہوا۔ اس مضمون کو شرعی اصطلاح میں تذکیر بایام اللہ کہتے ہیں۔ یعنی جن لوگوں یا قوموں پر انبیاء اور آیات الٰہی کو جھٹلانے کی وجہ سے عذاب آیا تھا۔ اس سے عبرت حاصل کرنا ایسے سب واقعات سے اللہ تعالیٰ کی جو عادت جاریہ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی میں انتہاء کو پہنچ جاتی ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر ایسا عذاب نازل کرتا ہے جو اسے تباہ و برباد کردیتا ہے اور اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے اور یہ اللہ کی ایسی سنت ہے جو پوری ہو کے رہتی ہے۔ یقین نہ آئے تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو۔ لہذا تمہیں بھی اس معاملہ میں محتاط رہنا چاہئے۔
Top