Tafseer-e-Usmani - Al-Ahzaab : 29
وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ : تم چاہتی ہو اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ : اور آخرت کا گھر فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ اَعَدَّ : تیار کیا ہے لِلْمُحْسِنٰتِ : نیکی کرنے والوں کے لیے مِنْكُنَّ : تم میں سے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
اور اگر تم چاہتی ہو اللہ کو اور اس کے رسول کو اور پچھلے گھر کو تو اللہ نے رکھ چھوڑا ہے ان کے لیے جو تم میں نیکی پر ہیں بڑا ثواب6 
6  حضرت کی ازواج نے دیکھا کہ لوگ آسودہ ہوگئے چاہا کہ ہم بھی آسودہ ہوں۔ ان میں سے بعض نے آنحضرت ﷺ سے گفتگو کی کہ ہم کو مزید نفقہ اور سامان دیا جائے جس سے عیش و ترفہ کی زندگی بسر کرسکیں حضرت کو یہ باتیں شاق گزریں۔ قسم کھالی کہ ایک مہینہ گھر میں نہ جائیں گے۔ مسجد کے قریب ایک بالا خانہ میں علیحدہ فروکش ہوگئے۔ صحابہ مضطرب تھے۔ ابوبکر و عمر اس فکر میں ہوئے کہ کسی طرح یہ گتھی سلجھ جائے۔ انھیں زیادہ فکر اپنی اپنی صاحبزادیوں (عائشہ اور حفصہ) کی تھی کہ پیغمبر کو ملول کر کے اپنی عاقبت نہ خراب کر بیٹھیں۔ دونوں نے دونوں کو دھمکایا اور سمجھایا۔ پھر حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کچھ انس اور بےتکلفی کی باتیں کیں۔ آپ منشرح ہوئے ایک ماہ بعد یہ آیت تخییر اتری۔ یعنی اپنی ازواج سے صاف صاف کہہ دو کہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرلیں۔ اگر دنیا کی عیش و بہار اور امیرانہ ٹھاٹھ چاہتی ہیں تو کہہ دو کہ میرے ساتھ تمہارا نباہ نہیں ہوسکتا۔ آؤ کہ میں کچھ دے دلا کر (یعنی کپڑوں کا جوڑا جو مطلقہ کو دیا جاتا تھا) تم کو خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دوں (یعنی شرعی طریقہ سے طلاق دے دوں) اور اگر اللہ رسول ﷺ کی خوشنودی اور آخرت کے اعلیٰ مراتب کی طلب ہے تو پیغمبر کے پاس رہنے میں اس کی کمی نہیں۔ جو آپ کی خدمت میں صلاحیت سے رہے گی اللہ کے یہاں اس کے لئے بہت بڑا اجر تیار ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ جنت کے سب سے اعلیٰ مقام میں پیغمبر (علیہ السلام) کے ساتھ رہیں۔ نزول آیت کے بعد آنحضرت ﷺ گھر میں تشریف لائے اول عائشہ کو حکم سنایا۔ انہوں نے اللہ و رسول ﷺ کی مرضی اختیار کی پھر سب ازواج نے ایسا ہی کیا۔ دنیا کے عیش و عشرت کا تصور دلوں سے نکال ڈالا۔ حضرت ﷺ کی ازواج سب نیک ہی رہیں۔ الطیبات للطیبین۔ مگر حق تعالیٰ قرآن میں صاف خوشخبری کسی کو نہیں دیتا تاکہ نڈر نہ ہوجائے۔ خاتمہ کا ڈر لگا رہے یہی بہتر ہے۔ آگے ان عورتوں کو خطاب ہے جو نبی کی معیت اختیار کرلیں کہ انکا درجہ اس نسبت کی وجہ سے بہت بلند ہے چاہیے کہ ان کی اخلاقی اور روحانی زندگی اس معیار پر ہو جو اس مقام رفیع کے مناسب ہے کیونکہ علاوہ ان کی ذاتی بزرگی کے وہ امہات المومنین ہیں۔ مائیں اپنی اولاد کی بڑی حد تک ذمہ دار ہوتی ہیں۔ لازم ہے کہ ان کے اعمال و اخلاق امت کے لئے اسوہ حسنہ بنیں۔
Top