Urwatul-Wusqaa - Yunus : 89
قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا قَدْ اُجِيْبَتْ : قبول ہوچکی دَّعْوَتُكُمَا : تمہاری دعا فَاسْتَقِيْمَا : سو تم دونوں ثابت قدم رہو وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ : اور نہ چلنا سَبِيْلَ : راہ الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی جو لَايَعْلَمُوْنَ : ناواقف ہیں
فرمایا میں نے تم دونوں کی دعا قبول کی تو اب تم جم کر کھڑے ہوجاؤ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو نہیں جانتے
موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے ان کو اطلاع کردی گئی 122 ؎ اب اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو خبر دی جا رہی ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوچکی ہے اور مشیت ایزدی میں ان کی ہلاکت کا وقت طے ہوچکا ہے اور تم دونوں یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اپنے موقف پر جمے رہو اور حکم الٰہی کا انتظار کرو اور جونہی حکم تم کو دیا جائے اس کی پیرو اختیار کرو اور ان مفسدین کی پیروی مت کرو۔ چناچہ حدیث میں آتا کہ موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے تھے اور ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے تھے اس لئے یہ مسئلہ اسلام میں طے ہے کہ دعا کرنے والا آمین کہنے والا سب دعا میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ دعا پر آمین کہنا بھی دعا ہے اور یہ بھی کہ دعا مانگنے والا اگر دعا آہستہ مانگ رہا ہے تو آمین بھی آہستہ کہو اور اگر دل میں وہ مانگ رہا ہے تو آمین بھی دل میں کہنا درست ہے اور یہ بھی ساتھ بتا دیا کہ دعا کی قبولیت کا وقت عند اللہ مقرر ہوچکا ہے تم دونوں جلد بازی سے کام نہ لینا بلکہ آنے والے وقت کے منتظر رہنا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ حقیقت کا علم نہیں رکھتے اور اللہ کی مصلحتوں کو نہیں سمجھتے وہ باطل کے مقابلہ میں حق کی کمزوری اور اقامت حق کیلئے سعی کرنے والوں کی مسلسل ناکامیاں اور ائمہ باطل کے ٹھاٹھ باٹھ اور ان کی دنیوی سرفرازیاں دیکھ کر یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ اس کے باغی دنیا میں چھائے ہیں اور پھر وہ حقیقت سے بیخبر لوگ اپنی بد گمانیوں کی بناء پر خود ہی نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں کہ اقامت حق کی سعی لا حاصل ہے اور اب مناسب یہی ہے کہ اس ذرا سی دینداری پر راضی ہو کر بیٹھ رہا جائے جس کی اجازت کفر و فسق کی سلطانی میں مل رہی ہو ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی غلطی کیلئے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے پیروئوں کو اس غلطی سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور فرمایا کہ دیکھو تم انہی ناموافق حالات میں کام کئے جائو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں بھی وہی غلط فہمی ہوجائے جو ایسے حالات میں جاہلوں اور نا دانوں کو عموماً لا حق ہوجایا کرتی ہے ۔ پس ان دونوں انبیائے کرام (علیہ السلام) کو اپنی جگہ کام کئے جانے کا حکم دیا اور فرما دیا کہ جب تم کو جیسی اطلاع ملے اس کی پیروی تم پر لازم ہے اور نہ جاننے والوں کی راہ نہ اختیار کی جائے۔
Top