Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 16
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا
وَاِذَآ : اور جب اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اَنْ نُّهْلِكَ : کہ ہم ہلاک کریں قَرْيَةً : کوئی بستی اَمَرْنَا : ہم نے حکم بھیجا مُتْرَفِيْهَا : اس کے خوشحال لوگ فَفَسَقُوْا : تو انہوں نے نافرمانی کی فِيْهَا : اس میں فَحَقَّ : پھر پوری ہوگئی عَلَيْهَا : ان پر الْقَوْلُ : بات فَدَمَّرْنٰهَا : پھر ہم نے انہیں ہلاک کیا تَدْمِيْرًا : پوری طرح ہلاک
اور جب ہمیں منظور ہوتا ہے کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو تکوینی حکم (٭) دیتے ہیں پھر وہ نافرمانی میں سرگرم ہوجاتے ہیں ، پس ان پر عذاب کی بات ثابت ہوجاتی ہے اور انہیں برباد و ہلاک کر ڈالتے ہیں
قانون تکوینی پر حکم الہی کا اطلاق درست ہے : 22۔ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو برائی کا حکم دے یہ ممکن نہیں بلکہ ممتنع ہے ہاں ! اللہ تعالیٰ کے تکوینی اور فطری احکام بھی ہیں جن کو قرآن کریم نے بار بار بیان کیا ہے اور ان کے لئے یہی پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ہے جس کا مفہوم ومطلب یہ ہے کہ کسی معاشرہ کو آخر کار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے اور خوشحال لوگوں کا بگاڑ ہے ، جب کسی قوم کی ہلاکت کے دن قریب آتے ہیں تو اس کے دولت مند اور صاحب اقتدار لوگ فسق وفجور پر آتے ہیں ‘ وہ ظلم وستم اور بدکاریاں اور شرارتیں شروع کردیتے ہیں اور آخر کار یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے ۔ (امرنا) کے معنی حکم دینا ہی مراد لئے جائیں جو عام طور پر حکم دینے کے معنی ہیں تو (امرنا) کے بعد (طاعۃ اللہ) محذوف مانا جائے گا اور یہی معنی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بیان کئے جاتے ہیں اور (امرنا) کے معنی (اکثرنا) کے بھی کئے گئے ہیں۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ان لوگوں کا ہلاک کرنا ہی مقصود خداوندی تھا اس لئے ان کو اول بذریعہ انبیاء ایمان و اطاعت کا حکم دینا پھر اس کے فسق وفجور کو عذاب کا سبب بنانا یہ سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوا ہے تو وہ بیچارے تو مجبور ومعذور ٹھہرے ۔ حقیقت اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل واختیار دیا اور عذاب وثواب کے راستے متعین کردیئے پھر جب کوئی اپنے اختیار سے عذاب ہی کے کام کا عزم کرے تو عادت خداوندی اس طرح ہے کہ وہ اس عذاب کے اسباب ان کے لئے مہیا کردیتا ہے ، اس طرح گویا اصل سبب عذاب کا خود ان کا عزم وقصد ہے کفر ومعصیت کا نہ کہ محض ارادہ اس لئے وہ معذور نہیں ہو سکتے ۔ حاصل کلام دو باتیں ہوئیں ایک یہ کہ ایسے خوش عیش سرمایہ داروں کو قوم کا حاکم بنا دیا جاتا ہے اور دوسری بات یہ ہوئی کہ قوم میں ایسے لوگوں کی کثرت کردی جاتی ہے اور پھر دونوں کا ماحصل یہ ہوا کہ عیش پسند لوگوں کی حکومت یا ایسے لوگوں کی قوم میں کثرت کچھ خوشی کی چیز نہیں عذاب الہی کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس قوم کے حکم ورئیس ایسے لوگ بنا دیئے جاتے ہیں جو عیش پسند اور عیاش ہوں یا اگر وہ حاکم بھی نہ بنیں تو اس قوم کے افراد میں ایسے لوگوں کی کثرت کردی جاتی ہے دونوں صورتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ شہوات و خواہشات اور لذات میں مست ہو کر اللہ کی نافرمانیاں خود بھی کرتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی اس کی راہ ہموار کرتے ہیں اور بالاخر ان پر اللہ کا عذاب آجاتا ہے ۔ اس وقت اس ملک عزیز پاکستان کی حالت آپ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اگر اوپر بیان کردہ حالات ان پر صادق آتے ہیں تو نتیجہ آپ کے بالکل سامنے ہے وہ آج رونما ہو یا کل بہرحال ہوگا ایسا ہی جیسا کہ سنت الہی متعلق بیان گیا ، وقت متعین اللہ ہی جانتا ہے لیکن حالات بہرحال نہایت نازک صورت اختیار کرچکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اوپر کے طبقہ کو خصوصا اور متوسط طبقہ کو عموما اپنی حالت پر غور وفکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کوئی غیبی ہاتھ ان حالات کے سامنے بند باندھ دے ۔
Top