Urwatul-Wusqaa - Maryam : 35
مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُؕ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلّٰهِ : اللہ کیلئے اَنْ : کہ يَّتَّخِذَ : وہ بنائے مِنْ : کوئی وَّلَدٍ : بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے اِذَا قَضٰٓى : جب وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : پس وہ ہوجاتا ہے
اللہ کیلئے کبھی یہ بات نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے اس کے لیے پاکیزگی ہو ، اس کی شان تو یہ ہے کہ جب کوئی کام کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو بس حکم کرتا ہے کہ ہوجا ! وہ ہوجاتا ہے
اللہ تعالیٰ کی شان ہی کے خلاف ہے کہ وہ کبھی کسی کو اپنی اولاد قرار دے : 35۔ غور وفکر کرنا تمہارا کام ہے ہمارا کام بات پہنچانا ہے کسی انسان کو مجبور محض بنا کر کسی کام پر لگا دینا ہمارے قانون کے خلاف ہے اور قانون کے خلاف ہم نہیں کرتے تم نے اپنی ادہام پرستی کی بنا پر عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ ‘ اللہ کا بیٹا یا ثالث ثلثۃ تسلیم کا و ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان الوہیت کے بالکل منافی ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا قرار دے وہ ان عیوب ونقائص سے بالکل پاک ہے جن عیوب ونقائص کی بناء پر کسی کو اولاد جیسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر اس کے اولاد نہ ہو تو وہ کسی دوسرے کی اولاد کو لے کر اپنی اولاد قرار دے لیتا ہے اور اللہ کی ذات ایسے نقائص وعیوب سے بالکل منزہ ہے اس کی اولاد کی ضرورت نہیں اس کی شان کبریائی تو ایسی ہے کہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرے تو اس کے لئے اشارہ کی ضرورت ہے کہ ایسا ہو تو ویسا ہی معرض وجود میں آجاتا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں اور اس نے جو قوانین بنائے ہیں ان کی خلاف ورزی کا کبھی تم کو خیال بھی نہ پیدا ہو کیونکہ قانون کا خلاف کمزوری ہے اور کمزوری سے وہ پاک ہے تم اس ذات بےمثل وبے مثال کے متعلق کسی طرح کی سوچیں سوچتے رہتے ہو وہ تمہارے ادراک سے باہر ہے اس لئے جب وہ کوئی ارادہ کرتا ہے تو اس کے ارادہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی لہذا وہ ہو کر رہتا ہے اس کی مزید تشریح درکار ہو تو ” عروۃ الوثقی “ جلد 3 میں سورة مائدہ کی آیت 75 تا 77 کا مطالعہ کریں انشاء اللہ بہت وضاحت مل جائے گی ۔
Top