Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 107
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ : اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اِلَّا : مگر رَحْمَةً : رحمت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ تمام دنیا کے لیے رحمت کا ظہور ہو
اے پیغمبر اسلام ! ﷺ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ۔ 107۔ زیر نظر آیت مبارکہ کے آتے ہی ذہن اس طرح منتقل ہوا کہ قرآن کریم میں دیکھنا چاہئے (للعلمین) کن کن جگہوں پر آیا ہے اور کس کس چیز کے لئے بیان کیا گیا ہے یوں سرسر نظر مندرجہ ذیل دس جگہوں پر پڑی جو علاوہ (آیت) ” وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین “۔ (الانبیاء 21 : 107) کے ہے جس کی تفصیل یہ ہے : 1۔ (آیت) ” ان ھو الا ذکری للعلمین “۔ (الانعام 6 : 90) 2۔ (آیت) ” ان ھو الا ذکری للعلمین “۔ (یوسف 12 : 104) 3۔ (آیت) ” وما ھو الا ذکری للعلمین “۔ (القلم 68 : 52) 4۔ (آیت) ” اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعلمین) (3 : 96) 5۔ (آیت) ” الا الارض التی بارکنا فیھا للعلمین “۔ (الانبیائ 21 : 71) 6۔ (آیت) ” وما اللہ یرید ظلما للعلمین “۔ (ال عمران 3 : 108) 7۔ (آیت) ” فانجینہ واصحب السفینۃ وجعلنھا ایۃ للعلمین “۔ (العنکبوت 29 : 15) 8۔ (آیت) ” وجعلنھا وابنھا ایۃ للعلمین “۔ (الانبیائ 21 : 91) 9۔ (آیت) ” ان فی ذلک لایت للعلمین “۔ (الروم 30 : 22) 10۔ (آیت) ” لیکون للعلمین نذیرا “۔ (الفرقان 25 : 1) آیات مذکورہ پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ آیت 1 ‘ 2 ‘ 3 ‘ میں قرآن کریم کو (ذکر للعلمین) فرمایا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کلام الہی ہے جو جملہ عالمین کے لئے ” ذکر “ ہے اور نبی اعظم وآخر ﷺ کا اسم مبارک تو اسی مصدر کے ساتھ مذکر ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ (فذکر انما انت مذکر “۔ (88 : 21) آیت 4 اور 5 میں اللہ تعالیٰ نے لفظ برکت کا استعمال کیا ہے آیت 4 میں بیت اللہ کے لئے اور آیت 5 میں بیت المقدس کے لئے اور مسلمان دونوں مسجدوں کو اسی ادب واحترام کا مستحق سمجھتے ہیں جو کلام الہی میں ان کے لئے ظاہر فرمائے گئے ہیں اور چونکہ لفظ برکت ہر دو کے لئے مشترک ہے اور لفظ (ھدی) بیت الحرام کے لئے خاص ہے اس لئے بیت الحرام کا درجہ بھی بیت المقدس سے بلاشبہ زیادہ ہے اور یہی قبلہ اول وآخر ہے ۔ آیت 6 میں اللہ تعالیٰ نے ظلم کی نفی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر ظلم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہاں ! لوگ اگر ظلم سے باز نہیں آئیں گے تو وہ خود اپنے اوپر ظلم کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم کرنے والا نہیں نہ ہی اس کے لئے ظلم کرنا روا ہے ۔ آیت 7 ‘ 8 ‘ 9 ‘ میں لفظ آیت کا استعمال ہوا ہے اور اس کا مصداق ان مختلف آیات میں مقصود ہے ‘ آیت 7 میں سیدنا نوح (علیہ السلام) کی کشتی کو یا اہل کشتی کو آیت فرمایا ہے اور آیت 8 میں سیدہ مریم (علیہ السلام) اور اس کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آیت بتایا گیا ہے مریم منذورہ کے نکاح نہ کرنے کی رسم بد کو توڑنے کے لئے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا مبشر بیٹا ہونے کے لئے جس کے پیدا ہونے سے بہت پہلے اس کی خوشخبری دی گئی اور اس کے اوصاف بھی سیدہ مریم کو بتا دیئے گئے اور آیت 9 میں نوع انسانی کی مختلف زبانوں اور متلون رنگتوں کے اختلاف کو آیت بیان کیا گیا ہے ۔ آیت دس میں قرآن کریم یا صاحب قرآن نبی اعظم وآخر ﷺ کی ذات گرامی کو تمام جہانوں کو ڈرانے والا بیان کیا گیا ہے اور ان سب کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ (ذکر للعلمین) قرآن کریم ہے (مبارک للعلمین) بیت اللہ اور بیت المقدس ہے (ایت للعلمین) اصحاب نوح اور کشتی نوح (علیہ السلام) سیدہ مریم اور سیدنا مسیح ابن مریم اور اقوام عالم کا اختلاف الوان اور تباین السنہ ہیں اور (للعلمین نذیرا) سے مراد قرآن کریم یا صاحب قرآن کریم یعنی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور آپ ﷺ ہی کی ذات گرامی کو (رحمۃ للعالمین) ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ لفظ رحمت ایسا لفظ ہے جس کا استعمال نبی اعظم وآخر ﷺ ہی کے لئے ہوا آپ ﷺ کے سوا کسی دوسرے انسان ‘ نبی اور رسول کے لئے نہیں ہوا اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ بھی ہے کہ (ورحمتی وسعت کل شیئ) (الاعراف) ” میری رحمت ہر ایک سے زیادہ وسیع ہے “ پس جیسا نبی کریم ﷺ کو جملہ عالمین کے لئے رحمت بنایا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ آپ کی نبوت بھی جملہ عالمین کے لئے ہے اور اس طرح یاد رہے کہ (رحمۃ للعلمین) وہی وجود متر کی ٹھہرے گا ۔ جس کے اہل عالم بلکہ عالم درعالم کی بہبود وسود ‘ رفاہ و فلاح ‘ خیر وصلاح ‘ عروج وارتقاء ‘ صفاوبہا کے لئے بلاشائبہ غرض اور بلا آمیزش طمع اپنی مقدس زندگی کو صرف کیا ہو ‘ جس نے بندوں کو خدا سے ملایا ہو۔ جس نے الہی جلوہ انسانوں کو دکھایا ہو ‘ جس نے دل کو پاک ‘ روح کو روشن ‘ دماغ کو درست ‘ طبع کو ہموار بنایا ہو۔ جس کی تعلیم نے امن عامہ کو مستحکم اور مصلحت عامہ کو استوار کیا ہو ۔ جو غریبی وامیری ‘ جوانی وپیری ‘ امن وجنگ ‘ امید اور ترنگ ‘ گدائی و بادشاہی ‘ مستی وپارسائی ‘ رنج و راحت ‘ حزن ومسرت کے ہر درجہ ‘ ہر پایہ اور ہر مقام پر انسان کی رہبری کرتا ہو۔ جس نے فلک کی بلندی ‘ زمین کی پستی ‘ رات کی تاریکی ‘ دن کی روشنی ‘ سورج کی چمک ‘ جگنو کی دمک ‘ ذرہ کی پرواز قطرہ کی تراوت میں عرفان ربانی کی سیر کرائی ہو ۔ جس کی تعلیم نے درندوں کو چوبانی ‘ بھیڑوں کو گلہ بانی رہزنوں کو جہاں بانی ‘ غلاموں کو سلطانی ‘ شاہوں کو اخوانی سکھائی ہو ۔ جس نے خشک میدانوں میں علم ومعرفت کے دریا بہائے ہوں ۔ جس نے سنگلاخ زمینوں سے کتاب و حکمت کے چشمے چلائے ہوں ‘ جس نے خود غرضوں کو محبت قومی کا درد مند بنایا ہو اور جس نے دشمنوں کو اپنا جگر بند ٹھہرایا ہو ۔ وہ (رحمۃ للعالمین) ﷺ غریب کا محب ‘ مسکین کا ساتھی ‘ شاہوں کا تاج ‘ آقاؤں کا آقا ‘ غلاموں کا محسن ‘ یتیموں کا سہارا ‘ بےآسروں کو آسرا ‘ بےخانمانوں کا ماوی ‘ درمندوں کی دوا ‘ چارہ گروں کا درد مند ‘ مساوات کا حامی ‘ اخوت کا بانی ‘ محبت کا جوہری ‘ اخلاص کا مشتری ‘ صدق کا منبع ‘ صبر کا معدن ‘ خاکسانی کا نمونہ ‘ رحمت ربانی کا پتلا ‘ اولین انسان اور آخرین رسول ﷺ اگر (رحمۃ للعالمین) کے لقب سے ملقب نہ ہوگا تو پھر ان جملہ صفات کے جامع کا اور کیا نام ہوگا ؟ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جس نے ملکوں کی دوری ‘ اقوام کی بیگانگی ‘ رنگتوں کا اختلاف ‘ زبانوں کا تباین دور کر کے سب کے دلوں میں ایک ہی ولولہ ‘ سب کے دماغوں مین ایک ہی تصور ‘ سب کی زبانوں پر ایک ہی کلمہ جاری کردیا ۔ ہاں ! (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جو یہودیوں کی طرح نذرومنت کی قبولیت کے واسطے کسی نبی یا غیر نبی کا واسطہ ضروری نہیں ٹھہراتا ، جو عیسائیوں کی طرح آسمان کی کنجیاں شخص واحد کے ہاتھ میں نہیں دیتا ۔ جو روح کو سرگ یا نرگ میں دھکیل دینے کی طاقت صرف برہمنوں ہی کو عطا نہیں کرتا ۔ جو خاص رقبہ کے بندوں کو آسمانی بادشاہت کے فرزند نہیں ٹھہراتا ، جو نسل واحد کے افراد ہی کو خدا کی برگزیدہ قوم نہیں قرار دیتا ۔ جو یہودیوں عیسائیوں ‘ زردشتیوں ‘ برہمنوں ‘ جنیوں اور لاماؤں کی طرح اپنے سوا باقی سب پر رحمت و افضال کے بھر پور خزانے بند نہیں کرتا ۔ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جو بندہ کو خدا کی حضور تک لے جاتا ہے اور اسے (ادعونی استجب لکم) کی قدسی آواز سے آشنا بناتا ہے اور خدا وبندہ کے درمیان کسی تیسرے کے لئے کوئی رخنہ باقی نہیں چھوڑتا ۔ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جس کے دربار میں عد اس نینوائی ‘ بلال حبشی ‘ سلمان فارسی صہیب رومی ‘ ضماد ازدی ‘ طفیل دوسی ‘ ذوالکلاع حمیدی ‘ عدی طائی ‘ اثامہ نجدی ‘ ابو سفیان اموی ‘ ابوذر غفاری ‘ ابو عامر اشعری ‘ کر زفہری ‘ ابو حارث مصطلقی ‘ سراقہ مدلجی پہلو بہ پہلو بیٹھے نظر آتے ہیں ‘ اتنی قوموں اور اتنے مختلف الدعاوی سرداروں کا مجمع کسی اور جگہ بھی نظر آتا ہے ؟ ۔ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جس کے دربار میں عثمان طلحہ بھی موجود ہے جو کعبہ کا کلید بردار ہونے سے حجازی قوموں میں اس اعزاز کا مالک سمجھا جاتا تھا جو عزت کلیسائے روما کے مسند نشین کو آسمان کے کلید بردار ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے ۔ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جس کے دربار میں عبداللہ بن سلام بھی موجود ہے جس کے نسب عالی کے سلسلہ کو دیکھو تو یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) تک منتہی ہوتا ہے ، قومی وجاہت پر نظر کرو تو یہود ان بنو قریظہ وبنو قینقاع وبنو نضیر اور خیبر وفدک کا بچہ بچہ انہیں خیرنا وابن خیرنا کہہ کر یاد کرتا ہے فضیلت علمی اور امامت قومی کی بزرگی کا اندازہ کرنا ہو تو سن لو کہ ربیوں اور احبار تک سارے لوگ سیدنا وابن سیدنا کہہ کر ان کو مخاطب کرتے ہیں ‘ یہی بزرگوار دربار محمدی کی صف فعال میں جاگزیں ہے اور دل ہی دل میں یہ کہہ کر خوش ہے کہ ع تیری مجلس میں جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے ۔ اسی دربار میں صرمہ بن انس بھی حاضر ہے جو صحف انبیاء کا عالم ہے جو سوریا اور یروشلم کے متواتر سفر کرچکا ہے اور جس نے تورات وانجیل کو قدیم زبانوں میں پڑھا ہے ‘ دربار ہرقل میں اس کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے اور دربار حبش میں اس کی کرامتوں کا خوب چرچا ہے ‘ عیسائیان حجاز کا گویا سب سے بڑا بشپ یہی ہے اب وہی (ما المسیح ابن مریم الا رسول) کو بار بار پڑھ رہا ہے اور توحید خالص کے بحر بیکراں میں مستغرق ہے ۔ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جس کے دربار میں مسلمان بھی موجود ہے جو فارس کے ایک بڑے زمیندار کا اکلوتا بیٹا ہے جو رزدشتی میں مذہب چھوڑ کر کا ثولی کی عیسائی بنا پھر اطمینان قلب نہ پا کر دین حقہ کی طلب میں ایران سے شام ‘ شام سے عراق ‘ عراق سے حجاز پہنچا تھا اور اب دل وجان کو نبی اعظم وآخر ﷺ کے قدموں کا فرش بنا چکا ہے ۔ کوئی شخص اگر اس سے باپ دادا کا نام پوچھتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ سلمان بن اسلام بن اسلام سبعین مرۃ اس طرح ستربار کہتے چلے جاؤ ۔ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جس کے دربار میں انجام کار خالد بن ولید بھی حاضر ہے جو بت پرستی کی تائید اور بتوں کی حمایت میں شجاعت و مردانگی کے جوہر دکھا چکا ہے احد کے میدان میں اسلامی لشکر کو فاش شکست دے چکا ہے ۔ کوئی شخص اگر غور کرے تو وہ ضرور کہے گا کہ نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ فتح کا غرور اور غلبہ کا سرور اس کے ازدیاد و غفلت اور ترقی و رعونت کا سبب بن جائے لیکن رحمت عالم ﷺ کی خاکساری نے اس فاتح کے دل کو بھی فتح کرلیا ہے اور خود ہی کھچا کھچا آتا ہے اور لات وعزی کے توڑنے کی خدمت حاصل کرنے کی التجا کر رہا ہے ۔ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہی ہے جس کے دربار میں شاہ حبش کا عریضہ پیش ہو رہا ہے جو سلطنت چھوڑنے اور حاضر خدمت ہوجانے کی اجازت کا خواستگار ہے اور اسی دربار میں ذوالبجادین موجود ہے جو گھر بار ‘ اہل و عیال چھوڑ کر آیا ہے کمبل کا تہہ بند ‘ کمبل کا کرتہ جس پر ببول کے کانٹوں سے بخیہ گری کی ہے زیب تن ہے فرط شوق اور جوش انبساط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آج شاہ کج کلاہ سے اپنے آپ کو برتر سمجھ رہا ہے ۔ بلاشبہ (رحمۃ للعالمین) وہ ہے جو دین و مذہب کے متعلق کل دنیا کو یہ اصول سکھلاتا ہے کہ (آیت) ” لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی “۔ ” دین کے معاملہ میں کسی پر بوجھ نہیں ہے تحقیق ہدایت اور گمراہی میں ظاہر و بارہ امتیاز ہوگیا ہے ۔ “ پھر اسی سلسلہ میں اپنی حیثیت کو کھلے لفظوں میں ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ (ما علی الرسول الا البلغ) ” رسول کا کام لوگوں کو احکام الہی کا سنا دینا ہے اور بس “۔ اور یہ باب اتنا وسیع ہے کہ اس کے لئے بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں صفحات درکار ہیں اس جگہ اس پر اکتفا کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس نبی اعظم وآخر ﷺ کی رحمت اور رافت سے استقاضہ کرتے ہیں ۔
Top