Urwatul-Wusqaa - Al-Anbiyaa : 106
اِنَّ فِیْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَؕ
اِنَّ : بیشک فِيْ ھٰذَا : اس میں لَبَلٰغًا : پہنچا دینا لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے عٰبِدِيْنَ : عبادت گزار (جمع)
اسبات میں ان لوگوں کے لیے جو عبادت گزار ہیں ایک بڑا ہی پیام ہے
عبادت گزار بندوں کے لئے اس میں ایک بڑا ہی پیام موجود ہے : 106۔ گزشتہ آیت کے مضمون میں عبادت گزار بندوں کے لئے خصوصا بہت بڑی بشارت رکھی گئی ہے کہ وہ دنیوی زندگی میں بااصول رہے اور کبھی بےاصولی کے قریب نہیں گئے اس لئے آخروی زندگی کی ساری وراثت اللہ نے ان ہی کی عطا کردینے کا وعدہ کیا ہے اور یہ ایسا وعدہ ہے جس کی خوشخبری کا اعلان اس دنیوی زندگی میں ان کو سنا دیا گیا ہے کہ یہ رزلٹ ہوگا ان کی ثابت قدمی کا کہ انہوں نے دنیوی وراثت کے حاصل کرنے کے لئے ناجائز اور حرام ذرائع کبھی اختیار نہیں کئے جیسا کہ آج کل ہمارے علمائے کرام کی اکثریت کو اس دنیوی اقتدار کی ہوس نے تباہ وبرباد کر رکھا ہے کہ اسلام کا نام لے کر وہی دغا ‘ فریب ‘ جھوٹ ‘ مکاریاں کر رہے ہیں جو مغربی جمہوریت کا لازمہ ہے ۔ تف ہے ان پر کہ انہوں نے اس ناجائز ذریعہ سے اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے دین و دنیا سب کچھ اس کے لئے قربان کردیا ہے اور وہ اس ناپاک کنوئیں سے پانی نکال کر قوم کو پاک کر دکھانا چاہتے ہیں جو یقینا سعی لاحاصل کے مترادف ہے جس میں انہوں نے ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھا ہے اور انشاء اللہ جب تک یہ نظام قائم ہے وہ ناکامی ہی کا منہ دیکھیں گے اور ساتھ ہی انہوں نے اپنی آخرت کو بھی تباہ وبرباد کرلیا ہے اور ان کی حالت وہی ہے جس حالت کا بیان اس طرح دیا جانا عام ہے کہ ع نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔ مختصر یہ کہ اس آیت میں ان لوگوں کو بشارت سنائی جاری ہے جو اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے ہیں اور اس دنیوی زندگی کے اقتدار کی ہوس نے ان کو اندھا بہرا نہیں کردیا وہ حق اور ناحق کی تمیز رکھتے ہیں اور حق کا ساتھ دیتے ہیں ناحق سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں اور اس دنیوی زندگی کی ہر آسائش کو آخروی زندگی کی آسائش و آرام حاصل کرنے کے لئے قربان کردینے کے لئے تیار رہتے ہیں وہ ہمیشہ دنیا کے صلہ میں آخرت کے متلاشی ہیں اور آخرت کو قربان کر کے دنیوی زندگی کی آسائش وآلام حاصل کرنے کی انہوں نے کبھی کوشش تو درکنار ارادہ تک بھی نہیں کیا ۔ ایسے لوگوں کے لئے ان کی اس دنیوی زندگی ہی میں اس عظیم بشارت کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ آخرت کی زمین کی وراثت انہیں لوگوں کے حصہ میں آئے گی اس لئے اب وقت ہے کہ جس کو یہ بازی لگانی ہو وہ میدان میں آئے اور اپنی دنیوی زندگی کے آسائش و آرام کو اخروی زندگی پر قربان کرکے دکھا دے تاکہ کل وہ اس ابدی زندگی کی وراثت کا مستحق قرار پائے ۔ اس آیت سے مضمون نبی اعظم وآخر ﷺ کی طرف پھر رہا ہے جنہوں نے اس کام کو سب سے بہتر سرانجام دیا اور دنیا وآخرت میں سب نبیوں سے زیادہ کامیابی حاصل کی ۔
Top