Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 26
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَاج
: تو ہم نے قبول کرلی
لَهٗ
: اس کی
فَكَشَفْنَا
: پس ہم نے کھول دی
مَا
: جو
بِهٖ
: اس کو
مِنْ ضُرٍّ
: تکلیف
وَّاٰتَيْنٰهُ
: اور ہم نے دئیے اسے
اَهْلَهٗ
: اس کے گھر والے
وَمِثْلَهُمْ
: اور ان جیسے
مَّعَهُمْ
: ان کے ساتھ
رَحْمَةً
: رحمت (فرما کر)
مِّنْ
: سے
عِنْدِنَا
: اپنے پاس
وَذِكْرٰي
: اور نصیحت
لِلْعٰبِدِيْنَ
: عبادت کرنے والوں کے لیے
پس ہم نے اس کی پکار سن لی اور جس دکھ میں پڑگیا تھا وہ دور کردیا ، ہم نے اس کا گھرانا (پھر سے) بسا دیا اور اس کے ساتھ ویسے ہی اور بھی دئیے ، یہ ہماری طرف سے اس کے لیے رحمت تھی اور یہ (قرآن) نصیحت ہے ان کے لیے جو اللہ کی بندگی کرنے والے ہیں
(آیت 82 کی بقیہ تفسیر) ان آیات کریمات کو قصہ اور کہانی کے طور پر نہیں بیان کیا گیا بلکہ اسلامی حکومتوں اور حکمرانوں کے لئے بطور سبق پیش کیا گیا ہے لیکن افسوس کہ اس طرف آج تک کسی نے بھی توجہ نہیں کی اور اس معجزانہ کلام سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا گیا اس وقت زیادہ بحث وتمحیث کی ضرورت نہیں بلکہ اختصار ہی سے سب کچھ بیان کیا جارہا ہے جو بیان کیا جا رہا ہے اس میں ہمارے حکمرانوں کے لئے یہ سبق بھی تھا کہ وہ باہر کے ممالک کا دورہ حتی الامکان کم کریں اور اپنے ہاں آنے کی دوسروں کو دعوت دیں اور ان کے آنے پر ان کی رہائش اور ان کے دوسرے سارے انتظامات کو بہتر سے بہتر پیش کرنے کے باوجود کوئی بات ایسی نہ ہونے دیں جو اسلام کی نگاہ میں ہونا صحیح نہ ہو اور اس طرح خاموشی کے ساتھ اسلام کی تعلیم ان تک پہنچا دیں ۔ لیکن افسوس کہ ہمارے حکمران اگر وہ عارضی وقت کے لئے مقرر ہوں تو بھی ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جتنے دورے باہر کے زیادہ سے زیادہ کرسکتے ہیں کریں اور ان لوگوں کی تہذیب کے مطابق بن کر ان کے پاس جائیں جو مسلم نہیں بلکہ یہودی ‘ عیسائی اور لادین ہیں اس کے لئے خواہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں ہی کیوں نہ خرچ کرنے پڑیں حالانکہ آنے والوں پر خرچ کرنا اور ان کی شان و شوکت کے مطابق ان کا انتظام کرنا اسلام کو پسند ہے اور دوسرے ممالک کے دورے کرکے ان دوروں پر خرچ کرنا اسلام کی نگاہ میں عیاشی وبدمعاشی ہے لیکن کون ہے جو ان حکمرانوں کو یہ بات سمجھاسکے ؟ بہرحال ان آیات کے نتیجہ میں ایک بار پھر غور کرلو جب تک ملکہ اپنے گھر میں موجود تھی اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا خط دیکھا تھا جس میں تحریر تھا کہ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجاؤ تو ملکہ نے فرمانبرداری کے معنی صحیح نہ سمجھے اور اپنے ایلچی وقاصد ہدایا دے کر روانہ کردیئے لیکن ان ہدایا کو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے قبول نہ کیا اور ان کو کہلا بھیجا کہ ہماری مراد یہ نہ تھی جو تم سمجھے اب سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اظہار مقصد کے لئے دوسرا لطیف طریقہ اختیار فرمایا اگرچہ اس پر کیا کچھ خرچ ہوا تو اس طرح اس کی ذکاوت وفطانت کو بھی آزما لیا اور اس کے لئے تخت تیار کروا کر اس پر بٹھا دیا اور اس کے اس عارضی دورے کی رہائش کے لئے ایک بہترین محل پیش کیا اور محل میں جانے سے پہلے ہی اس سے اس بات کا اعتراف کرایا کہ ہم اس وقت تک جو بھولے ہوئے تھے ہماری بھول ختم ہوگئی اور ہم سچے دل سے مسلمان ہوگئے اور اس کے اس اعتراف کے بعد اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی پوزیشن صاف کردی کہ آج تک جس چیز نے اس کو ایمان لانے سے روک رکھا تھا وہ ان معبودوں کی عبادت تھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی کیونکہ وہ ایک کافر قوم کی فرد تھی ۔ گویا بتا دیا گیا کہ اس میں ضد اور ہٹ دھرمی نہ تھی وہ اس وقت تک اگر کافر تھی تو محض اس لئے کافر تھی کہ اس کا تعلق کافر قوم سے تھا اور وہ اس قوم میں پیدا ہوئی اور ہوش سنبھالنے کے بعد اس کو جس چیز کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لئے کہا گیا یا جو کچھ اس نے دیکھا وہ کرتی رہی بس یہی اس کے راستے کی رکاوٹ تھی ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) سے ملاقات ہونے کے بعد اس کی آنکھیں کھل گئیں اور جو کچھ اس نے دیکھا اس سے اس کے دین و دنیا کے سارے پردے چھٹ گئے اور اس کو اسلام کا اعلان کرتے ہوئے ذرا بھی توقف نہ کرنا پڑا۔ آپ زیادہ حیران نہ ہوں کہ ہم نے مفسرین کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ ملکہ سبا کا تخت تو وہی منگایا گیا تھا لیکن ہم نے اس کے عرش تیار کرانے کا مفہوم کیسے بیان کردیا اور کہاں سے یہ تخیل پیدا کرلیا ۔ اس بارے میں عرض ہے کہ مفسرین نے جو کچھ کہا اور لکھا ہمارے علم میں ہے ہم نے اس کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ قرآن کریم کے الفاظ اس کی تصدیق نہیں کرتے اور یہ بھی کہ کسی کی چیز اس طرح اٹھا کرلے آنا کہ چیز والے کو علم بھی نہ ہو چوری اور ڈاکہ کے ضمن میں آتا ہے اور کوئی نبی بھی چوری اور ڈاکہ نہ کرتا ہے نہ کراتا ہے اور ہم نے کسی تفسیر میں یہ نہیں پڑھا کہ ملکہ سے تخت اٹھانے کے لئے اجازت طلب کی گئی تھی ؟ پھر یہ کیونکر تسلیم کرلیا جائے کہ یہ تخت وہی تھا جو ملکہ کا اپنا تخت اس کے ملک میں تھا اور یہ ہر زبان میں عام ہے کہ جب کسی مہمان کے لئے کرسی ‘ سٹیج ‘ صوفہ اور اسی طرح اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا ہے تو اس کی نسبت اس کی طرف کی جاتی ہے مثلا آپ میرے گھر مہمان آئیں اور میں کسی اپنے آدمی کو یہ کہوں محترم کا کھانا لے آؤ تو کیا آپ یہ سمجھیں گے کہ یہ کھانا میرے گھر سے لایا جائے گا یعنی جہاں سے آپ تشریف لائے ہیں کھانا وہاں سے لایاجائے گا ؟ کیا وہ آدمی جس کو کھانا لانے کے لئے کہوں گا وہ یہ سمجھے گا کہ مجھے آنے والے مہمان کے گھر سے کھانا لانے کا حکم دیا گیا ؟ آخر وہ کیا سمجھے گا ؟ یہی کہ جو آپ کی نیت سے آپ کی مہمانی کے لئے کھانا تیار ہوا ہے میرے ہاں یعنی میزبان کے ہاں اس کھانے کو لانے کے لئے حکم ہوا ہے ۔ اس طرح کھانا تیار کرنے کا حکم بھی دیا جائے گا تیار شدہ کھانے کے لانے کا حکم بھی دیا جائے گا کھانے کی نسبت آپ ہی سے ہوگی لیکن تیار کرایا جائے گا اپنے ہاں یعنی میزبان کے ہاں اور لایا جائے گا تو اپنے ہاں سے یعنی میزبان کے ہاں سے اور یہ بات ان آیات میں دہرائی گئی ہے مثلا جب آپ نے عرش تیار کرنے کا حکم دیا تو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ (آیت) ” ایکم یاتینی بعرشھا قبل ان یاتونی مسلمین “۔ تم میں سے کون ہے جو اس کے فرمانبردار ہو کر آنے پہلے اس کا تخت میرے پاس لے آئے ۔ “ یہ ” اس کا تخت “ کے الفاظ ہم نے دوسرے مترجمین کے ترجمہ کے لئے کئے ہیں ورنہ اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ” اس کے لئے تخت میرے پاس لے آئے “ جب عرش لا کر پیش کردیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” نکروالھا عرشھا “۔ کہ اس کے عرش میں کچھ رد وبدل کر دو کہ بالکل وہی نظر نہ آنے لگے ۔ تنکیر تعریف کا مخاطب ہے یعنی وہ پہلی دیکھی گئی شکل کی مانند نہ ہو اور اس طرح اس سے غیر شرعی چیزیں نکال دی جائیں جائیں تاکہ وہ حقیقت کو سمجھ جائے کہ بالکل ویسا کیوں نہیں بنایا گیا ۔ پھر جب وہ آگئی اور تخت پر بیٹھنے لگی تو اس سے تلمیحا پوچھا گیا کہ (اھکذا عرشک) ” کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے “ تو ان آیات میں جو لھا ‘ عرشھا ‘ اور عرشک کی ضمائر استعمال ہوئیں اس سے یہ سمجھ لیا گیا کہ یہ تخت وہی تخت منگوانے کے لئے کہا گیا تھا جو ملکہ سبا کے ملک میں اس کی ملکیت تھا اور اس بات کی طرف خیال نہ گیا کہ ان ضمائر سے کسی طرح یہ سمجھنا صحیح نہیں ہے اور لوگوں کو کرامت اور معجزے کے چکر میں لا کر کسی کی توجہ اس طرف مبذول نہیں ہونے دی کہ کسی کی چیز بغیر اس کی اجازت کے اٹھا لانا نہ معجزہ کہلا سکتا ہے اور نہ کرامت اگر اس طرح معجزہ اور کرامت ہو سکتی ہے تو اس طرح کے معجزات و کرامات تو روزانہ ہوتے رہتے ہیں کہ لوگ دوسروں کی اشیا اٹھا کرلے جاتے ہیں اور کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کون لے گیا اور کیسے لے گیا ؟ اور اس طرح اٹھا کرلے جانے والوں کو ساری دنیا چور اور ڈاکو کے نام ہی سے یاد کرتی ہے کوئی معجزہ قرار دیتا ہم نے نہیں دیکھا ۔ ہاں ! یہ زمرہ علماء ہی کہلاتے جو دوسروں کے ہاں بیٹھ کر انہی کے کھانوں پر ختم دے کر اپنے گھروں میں پہنچا دیتے ہیں اور گھر والوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ تمہارے مردوں کو ہم نے اس کھانے کا اجر اور ثواب پہنچا دیا ہے اور اس طرح انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر ایسی دھول جھونکی ہے کہ کھانا ‘ کپڑے ‘ پیسے خود لیتے ہیں اور ثواب واجر ان کے مردوں کو پہنچا دیتے ہیں اور کوئی بھی ان کو کچھ نہیں کہتا کہ چلو کھانے کا ثواب اور اجر تو ہمارے بزرگوں کو مل گیا لیکن کھانا تو بہرحال نہیں ملا اس کو ادھر ہی پڑا رہنے دیں اس کو گھر کیوں لے جا رہے ہو ؟ شاید انہوں نے یہ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اسی طرح کی آیات سے نکال لیا ہے کہ چیز بھی لے گئے اور چوری بھی نہ ہوئی غور کرو گے تو اس سے آپ کو بہت کچھ ملے گا بشرطیکہ آپ کو کسی نے غور کرنے دیا یا آپ نے ہمت کرلی اور غور شروع کردیا ۔ ہاں ! یہ بات اتنی صحیح اور سوفیصدی سچ ہے کہ اگر آپ نے غور کیا تو ان علمائے کرام کی نظر سے گر جائیں گے اور وہ اپنا فتوی تم پر داغ دیں گے کہ ” یہ کافر ہے ۔ “ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) سے اس الزام کو اتراوا کر اپنے اوپر لگوا لیں یا آپ بھی الزام لگانے والوں میں شامل ہوجائیں ۔ رہی ہماری بات تو ہم تو سیدنا سلیمان (علیہ السلام) سے یہ الزام اتروانے والوں میں ہیں خواہ ہمیں کوئی کافر کہے یا اس سے بھی آگے جو کچھ وہ کہہ سکتا ہے کہتا رہے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) اللہ کے نبی ہیں اور کوئی نبی چوری یا ڈاکہ زنی کرنے یا کرانے کے لئے نہیں آیا ۔ یہ ہمارا ایمان ہے اور اس ” ایمان “ کو اگر کوئی ” کفر “ کہتا ہے تو ہمیں سو بار قبول ہے وہ ایک بار نہیں سو بار کہے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کو ٹھہرانے کے لئے اپنے اس محل کی طرف لے جانا چاہا جس کو آپ نے نہایت ہی نفیس اور اعلی قسم کا بنوایا تھا جس کی چمک آبگینہ کی چمک تھی ۔ قصر اپنی رفعت شان اور عجیب و غریب صنعت کاری کے لحاظ سے بےنظیر تھا اور اس میں داخل ہونے کے لئے سامنے جو صحن پڑتا تھا اس کو بھی صاف و شفاف آبگینوں کے ٹکڑوں سے ایسا نفیس فرش بنایا گیا تھا کہ دیکھنے والے کی نگاہ خیرہ ہوجاتی تھی اور وہ نہ سمجھ سکتا تھا کہ وہ کس چیز سے اور کیونکر بنایا گیا ہے کیونکہ اس کی اصل بناوٹ کو وہی لوگ سمجھتے تھے جنہوں نے بنایا یا بنوایا تھا ۔ ملکہ سبا سے جب کہا گیا کہ وہ قصر شاہی میں قیام کرے اور وہ محل کے سامنے گئی تو اس کی حیرت گم ہوگئی اس کو محسوس ہوا کہ شاید یہ چاندی سے تیار کیا گیا ہے ‘ کیا اس ملک میں اس قدر چاندی کا ذخیرہ موجود ہے ۔ وہ بغیر توقف کئے پوچھ گئی کہ یہ کیونکر اور کیسے بنایا گیا ہے اور اس کی بنیادیں کس چیز سے رکھی گئی ہیں ؟ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے اس کو بتایا کہ یہ محل شیشے اور بلوریں پتھر سے تیار کیا گیا ہے وہ تو پہلے ہی سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت کی شان وشولت کا سکہ مان چکی تھی جب اس نے اس محل کو دیکھا تو اس کو مزید یقین آگیا کہ میں سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے مقابلہ میں دنیوی لحاظ سے بھی کمزور ہوں اور میری دینی پوزیشن بھی آج تک کمزور ہی رہی حالانکہ میں تو اپنے آپ کو ایک بہت طاقتور ملکہ سمجھی بیٹھی تھی اب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کتنے کتنے بڑے لوگ اور کتنی کتنی بڑی حکومتیں بنا دی ہوئی ہیں میری مثال تو کنوئیں کے مینڈ کی سی ہے جو کنوئیں کے گھیر ہی کو پوری دنیا سمجھتا ہے ۔ ملکہ سبا اس طرح کے خیالات میں گم رہی کچھ دیر توقف کے بعد جب اس کا خیال واپس لوٹا تو اس نے فورا سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے واضح اور صاف صاف الفاظ میں اس طرح اقرار کیا کہ اے اللہ ! اے میرے پروردگار آج تک ماسوی اللہ کی پرستش کرکے میں نے اپنے نفس پر بہت ظلم کیا مگر اب میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ ہو کر صرف ایک اللہ ہی پر ایمان لاتی ہوں جو تمام کائنات کا پروردگار ہے اور اس طرح اس نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے پہلے پیغام (واتونی مسلمین) کی حقیقی مراد تک پہنچ کر دین اسلام کو اختیار کرلیا اور اس طرح جو خوشی سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو حاصل ہوئی ہوگئی اس کا اندازہ میں اور آپ نہیں کرسکتے ۔ قرآن کریم نے ملکہ سبا کے اس واقعہ کو ایسے معجزانہ اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے کہ واقعہ کے بیان کرنے سے جو حقیقی مقصد ہے یہ یعنی ” تذکیر “ وہ بھی نمایاں رہے اور واقعہ کے اہم اور ضروری حصے بھی ذکر میں آجائیں اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے بندے اگر حکمران ہوجائیں تو بھی وہ اپنے اقتدار سے توحید الہی اور ربوبیت خداوندی کے سوا کچھ نہیں چاہتے انہوں نے کبھی اپنی ذات اور نفس کی بات نہیں کی وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے دین ہی کے لئے کرتے ہیں ۔ اب اس واقعہ کی جو آیات کریمات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں ایک بار ان کا مطالعہ کرلیں اس کے بعد اس کا ترجمہ پھر آگے پڑھیں گے ۔ انشاء اللہ ۔ (آیت) ” قَالَتْ یَا أَیُّہَا المَلَأُ أَفْتُونِیْ فِیْ أَمْرِیْ مَا کُنتُ قَاطِعَۃً أَمْراً حَتَّی تَشْہَدُونِ (32) قَالُوا نَحْنُ أُوْلُوا قُوَّۃٍ وَأُولُوا بَأْسٍ شَدِیْدٍ وَالْأَمْرُ إِلَیْْکِ فَانظُرِیْ مَاذَا تَأْمُرِیْنَ (33) قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوکَ إِذَا دَخَلُوا قَرْیَۃً أَفْسَدُوہَا وَجَعَلُوا أَعِزَّۃَ أَہْلِہَا أَذِلَّۃً وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ (34) وَإِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِم بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ (35) فَلَمَّا جاء سُلَیْْمَانَ قَالَ أَتُمِدُّونَنِ بِمَالٍ فَمَا آتَانِیَ اللَّہُ خَیْْرٌ مِّمَّا آتَاکُم بَلْ أَنتُم بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُونَ (36) ارْجِعْ إِلَیْْہِمْ فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُم مِّنْہَا أَذِلَّۃً وَہُمْ صَاغِرُونَ (37) قَالَ یَا أَیُّہَا المَلَأُ أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ أَن یَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ (38) قَالَ عِفْریْتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِیْکَ بِہِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِکَ وَإِنِّیْ عَلَیْْہِ لَقَوِیٌّ أَمِیْنٌ (39) قَالَ الَّذِیْ عِندَہُ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ أَنَا آتِیْکَ بِہِ قَبْلَ أَن یَرْتَدَّ إِلَیْْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَآہُ مُسْتَقِرّاً عِندَہُ قَالَ ہَذَا مِن فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْ أَأَشْکُرُ أَمْ أَکْفُرُ وَمَن شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہِ وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ (40) قَالَ نَکِّرُوا لَہَا عَرْشَہَا نَنظُرْ أَتَہْتَدِیْ أَمْ تَکُونُ مِنَ الَّذِیْنَ لَا یَہْتَدُونَ (41) فَلَمَّا جاء تْ قِیْلَ أَہَکَذَا عَرْشُکِ قَالَتْ کَأَنَّہُ ہُوَ وَأُوتِیْنَا الْعِلْمَ مِن قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ (42) وَصَدَّہَا مَا کَانَت تَّعْبُدُ مِن دُونِ اللَّہِ إِنَّہَا کَانَتْ مِن قَوْمٍ کَافِرِیْنَ (43) قِیْلَ لَہَا ادْخُلِیْ الصَّرْحَ فَلَمَّا رَأَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَکَشَفَتْ عَن سَاقَیْْہَا قَالَ إِنَّہُ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّن قَوَارِیْرَ قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ ( سورة النمل 27 : 32 تا 44) ” ملکہ نے کہا اے سردارو ! میرے معاملہ میں مجھے مشورہ دو میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی جب تک تم میرے پاس حاضرنہ ہو ۔ وہ بولے ہم بڑے زور آور ہیں اور جنگ جو بھی لیکن اختیار آپ کے پاس ہے ۔ پس آپ جو حکم دیں گی وہ غور وخوض کے بعد دیں (ہم حکم عدولی نہیں کریں گے) ۔ (ملکہ نے) کہا جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اس کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں اور اس کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے اور میں ان کے پاس ایک تحفہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ وہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں ۔ پھر جب ملکہ کا قاصد سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچا تو اس نے کہا کہ تم مال سے میری مدد کرنا چاہتے ہو مجھے جو اللہ نے دیا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تم کو دیا ہے بلکہ اپنے تحفہ سے تم ہی خوش رہو۔ تم واپس جاؤ ہم ان پر اپنے لشکر سے حملہ کریں گے کہ جن کا مقابلہ ان سے نہ ہو سکے گا اور ہم ان کو وہاں سے ذلیل کرکے نکال دیں گے اور وہ یقینا خوار ہوں گے ۔ سلیمان نے کہا اے سردارو ! تم میں کون ہے جو اس (ملکہ سبا) کے لئے تخت (بناکر) میرے سامنے لے آئے قبل اس کے کہ وہ فرمانبردار ہو کر میرے سامنے حاضر ہو۔ جنوں میں سے ایک طاقتور جن نے کہا کہ میں اس کو (بنا کر) حاضر کئے دیتا ہوں اس سے پہلے کہ آپ اپنی کسی جگہ سے اس کے استقبال کے لئے اٹھیں اور میں اس کام کے لئے طاقتور اور امانت دار ہوں ۔ (لیکن درباریوں میں سے ایک دوسرے نے) کہا جس کے پاس (باقاعدہ) کتاب کا علم تھا کہ میں آپ کی نظر دوبارہ اس طرف مبذول ہونے سے پہلے ہی اسے حاضر کرسکتا ہوں ۔ پھر جب ایسا ہوا کہ اس نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں اور جو شکر ادا کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لئے شکر ادا کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اپنے ہی لئے میرا پروردگار بےنیاز ‘ بزرگی والا ہے ۔ سلیمان نے کہا کہ اب تم اس کے اس تخت میں کچھ ردوبدل کر دو دیکھتے ہیں کہ وہ حقیقت حال کو پہچانتی ہے یا ان میں سے ہوتی ہے جو ہدایت (سمجھ بوجھ) پانے والے نہیں ہوتے ۔ پھر جب وہ اپنے وقت مقرر پر آپہنچی تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ کا تخت ایسا ہی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ گویا یہ ویسا ہی ہے اور ہم کو اس سے پہلے ہی علم ہوچکا ہے (کہ آپ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں) اور ہم فرمانبردار ہوچکے ہیں اور اس کو (ایمان لانے سے) جس چیز نے روک دیا تھا وہ ان معبودوں کی عبادت تھی جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتی تھی کیونکہ وہ ایک کافر قوم سے تھی ۔ (پھر) اس سے کہا گیا کہ اس محل میں داخل ہوجائیے جب اس نے اس کو دیکھا تو چاندی کا محل محسوس کیا ‘ اس نے اس کو بنیادوں کے متعلق سوال کر ہی دیا ‘ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ ایک محل ہے جس کو شیشے اور سنگ مرمر کی آمیزش سے بنایا گیا ہے (ملکہ) بول اٹھی کہ اے میرے رب ! بلاشبہ میں نے تو اپنے نفس پر ظلم کیا (جو یہاں آنے تک شرک میں مبتلا رہی) میں فرمانبردار ہوتی ہوں ساتھ سلیمان کے واسطے اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ “ ( سورة النمل 27 : 32 تا 44) عرش کے متعلق پیچھے بیان کیا جا چکا ہے اس کی بحث کو زیادہ طول دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہمارے مفسرین نے چونکہ ملکہ کے ملک سے اس کا عرش اٹھالانے کا حکم سمجھا تھا اس لئے انہوں نے اس کی بہت تفصیلات دی ہیں کہ وہ عرش لانے والا دراصل کون تھا اور پھر یہ کہ وہ عرش آنکھ جھپکنے سے پہلے کس طرح لایا گیا تھا پھر کسی نے کہا کہ جنوں نے اسے وہاں سے نکالا اور پھر ہوا کے سپرد کردیا وہ ہوا اس کو اٹھا لائی تھی ۔ کسی نے کہا کہ وہ اسم اعظم کے ذریعے آیا تھا ۔ کسی نے کہا زمین کے اندر اندر سے آیا اور جو چشم زدن میں سلیمان (علیہ السلام) کے بالکل قریب زمین سے اچانک نکل پڑا تھا ۔ کسی نے کہا کہ اس کے لانے والے جبریل (علیہ السلام) تھے کسی نے کہا نہیں دراصل اس کے لانے والے خود سیدنا سلیمان (علیہ السلام) ہی تھے ۔ ان اشارات کی تفصیلات بہت لمبی ہیں لیکن ہمیں ان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ملکہ کے اس عرش کے بعد دوسرا واقعہ ان آیات میں ملکہ کو محل میں ٹھہرانے کا اس کے متعلق بھی بہت لمبی بحث ہے حالانکہ قرآن کریم کی صرف ایک آیت میں اس کے اشارات دیئے گئے ہیں ۔ ہمارے مفسرین نے بتایا ہے کہ یہ محل کیوں تیار ہوا ؟ کیسے بنوایا گیا اور کس نے بنایا ؟ تحریر ہے کہ ملکہ سبا دراصل جن اور انسان کے ملاپ سے پیدا ہوئی تھی یعنی اس کے ماں باپ میں سے ایک جن تھا اور دوسرا انسان اس لئے اس میں دونوں طرح کے اوصاف پائے جاتے تھے اور شکل و صورت میں بھی قدرے فرق تھا ۔ جنوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ سلیمان کہیں بلقیس سے نکاح نہ کرلیں ‘ اگر ایسا کرلیا تو ملکہ جنوں نے سارے راز سلیمان (علیہ السلام) سے کہہ دے گی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس کی ماں پری تھی اور پری جن کی مؤنث ہی کو کہا جاتا ہے اس لئے وہ جنوں کی خفیہ باتوں کو جانتی تھی پھر اگر اس میں سے سلیمان کی اولاد بھی ہوگئی تو ہم کو تو اس کے حکم کے تحت رہنا پڑے گا اور بہ نسل سلیمان کی غلامی ہم پر ہمیشہ کے لئے لازم ہوجائے گی اس خطرہ کو ٹالنے کے لئے انہوں نے سلیمان سے بلقیس کی مذمت کی اور سلیمان (علیہ السلام) کو بتایا کہ اس کی عقل میں کچھ فتور ہے اور اس کے پاؤں بالکل گدھے کی طرح ہیں اور اس کی پنڈلیوں پر بہت بڑے بڑے بال ہیں یہ باتیں سن کر سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے ایک ایسا محل تیار کرایا اور اس کے صحن کے نیچے ایک بڑا حوض تیار کرکے اس میں پانی چھوڑ دیا اور اوپر سے اس کو بلوریں شیشہ سے بند کردیا اور اس پانی میں مچھلیاں اور مینڈک چھوڑ دیئے تاکہ ملکہ کو جب اس پر سے گزر کر محل میں جانا پڑے گا تو وہ اپنے پاؤں اور پنڈلیوں کو کھول دے گی اور ہم کو پتہ چل جائے گا کہ جنوں کی بات واقعی صحیح ہے یا نہیں ؟ لہذا یہی ہوا کہ جب ملکہ کو اس صحن سے گزر کر محل میں جانا پڑا تو اس نے اس کو پانی سمجھ کر اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے ان کی پنڈلیاں دیکھ لیں گویا آپ نے بلقیس کی پنڈلیاں دیکھنے کے لئے یہ شیش محل بنوایا تھا ۔ غیر محرم عورتوں کی پنڈلیوں کو ایک نبی کا دیکھنا اور اس کے لئے اتنا بڑا اہتمام استغفر اللہ ۔ مفسرین کو جب یہ بات محسوس ہوئی تو ان کے وجدان نے اس کے ازالہ کی شرعی صورت بیان کردی کہ جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو اس کو ایک نظر دیکھ سکتا ہے اس لئے چونکہ آپ کا ارادہ نکاح تھا لہذا آپ نے فقط ایک نظر دیکھ کر اپنی نظر ہٹالی تھی اس لئے یہ سارا معاملہ جائز اور درست تھا ۔ پھر انہوں نے لکھا کہ جنوں کی بات تو صحیح نکلی کہ بلقیس کی پنڈلیوں پر بہت بڑے بڑے بال تھے تاہم آپ نے اس سے نکاح کیا اور پھر پنڈلیوں کے بال تو بہت اوپر تک تھے اور یہ آپ کو پسند نہ آئے لوگوں سے بال صاف کرنے کی تدبیر دریافت کی تو لوگوں نے استرے کا استعمال بتایا لیکن ملکہ نے کہا کہ میرے جسم پر استرہ استعمال نہیں ہو سکتا اور خود سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے بھی اس کا استعمال اچھا نہ سمجھا لہذا آپ نے شیطانوں سے پوچھا تو انہوں نے بھی کوئی سیدھی بات نہ کی پھر جنوں سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا ہم آپ کے لئے ایسی تدبیر کریں گے کہ جلد سفید چاندی کی طرح چمک جائے گی انہوں نے آپ کی خاطر ایک نورہ (بال صفا پاؤڈر یا کریم) تیار کیا جس سے ملکہ کا جسم بالکل صاف ہوگیا اور بعض نے بال صاف کرانے کے بعد نکاح کرنے کا تحریر کیا ہے ۔ بہرحال نکاح کے بعد ملکہ کے ساتھ سلیمان (علیہ السلام) کو بہت ہی محبت ہوگئی اور پھر اس محبت کی داستان بہت طویل اور لچر تحریر کی اور انجام کار نکاح کرلینے کے بعد ملکہ کو دوبارہ سبا کو جانے کی اجازت ہوئی اور اس طرح چونکہ ہوا تابع تھی لہذا آپ دن یہاں اور رات وہاں بسر کرتے رہے اور دونوں اپنے اپنے ملک کے حکمران بھی رہے اور سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی بلقیس سے اولاد ہونا بھی بتائی گئی ہے ۔ رہی یہ بات کہ محل میں پانی کا تصور اور پنڈلیوں کو کھولنے کا ذکر کیسے آگیا تو خیال رہے کہ اس آخری آیت میں جو اوپر درج کی گئی ہے ارشاد الہی ہے کہ ملکہ کو جب محل میں داخل ہونے کے لئے کہا گیا تو (آیت) ” فلما راتہ حسبتہ لجۃ “۔ اس نے جب اس کو دیکھا تو گہرا پانی سمجھا چونکہ یہ لفظ قرآن کریم میں دوسری جگہ (بحر لجی یغشاہ موج من فوقہ موج) (24 : 40) میں استعمال ہوئے تھے اس لئے (لجۃ) کے معنی ” پانی کے حوض “ کے کر لئے گئے حالانکہ وہاں (بحر) کا لفظ موجود تھا جو یہاں پر نہیں ہے اور (بحر لجی) کے معنی بھی نہایت گہرے پانی کے ہیں جس میں داخل ہونے کے لئے پنڈلیاں ہی نہیں کھولنا پڑتیں بلکہ اگر کھولنا ہے تو سب کپڑے کھولنے پڑیں گے پھر بھی کوئی عورت خواہ کتنی ہی بہادر ہو داخل ہونے کے لئے تیار نہیں ہوگی اور اس جگہ تو لفظ بھی صرف (لجۃ) کا ہے جس کے معنی تلوار ‘ شیشہ اور چاندی کی چمک کے ہیں ۔ (قاموس) اور پانی جب نہایت گہرا ہو تو اس میں بھی اس طرح کی چمک آجاتی ہے لیکن پنڈلیوں تک آنے والے میں وہ چمک پیدا نہیں ہوتی اور سب سے بڑھ کر ایک نبی کے متعلق ایسا خیال کسی حال میں جائز اور درست نہیں ہے دراصل بات وہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے اس نے جب اس محل کی ساخت اور چمک دیکھی تو آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور اس نے اس محل کی ساق یعنی بنیادوں کے متعلق سوال کر رکے اس کی حقیقت کو کھلوا دینا چاہا کہ یہ کس چیز سے تعمیر ہوا اور کیسے تعمیر ہوا اور اس کی بنیادیں کیسے رکھی گئیں (ساق) کے معنی فقط انسان کی پنڈلی کے نہیں بلکہ ہرچیز جس پر کھڑی ہوتی ہے اس کو (ساق) کہتے ہیں جیسے (آیت) ” فاستوی علی سوقہ “۔ (48 : 29) میں دکھیتی اور زراعت کی ہرچیز کے تنے کو کہا گیا ہے اور ساق الشجرہ جذعھا میں درخت کے تنے کو اس کی ” ساق “ کہا گیا ہے اور (لجۃ) کے معنی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ” شیش محل “ کے ہیں اور ضمیر کا مرجع یہی (لجہ) ہے نہ کہ ملکہ اسی طرح (کشفت) اس لئے کہ اس ملکہ نے ہی اس محل کی ساق یعنی بنیادوں کی حیثیت کو کھولنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس کو اس کی اصلیت معلوم ہوجائے گویا ان چند لفظوں میں بہت بڑی عبارت رکھ دی گئی لیکن اس کو سمجھنے کی کوشش بہت کم کی گئی اور پھر جب اس طرح کی کہانی اسرائیلیات میں پائی جاتی تھی تو مفسرین نے اس کہانی کو اٹھا کر اس آیت کی تفسیر میں بیان کردیا اور یہ خیال نہ کیا کہ اگر یہ کہانی درست ہوتی تو قرآن کریم اس کو اسی طرح بیان کرسکتا تھا اس اشارات کی ضرورت کیا تھی ۔ بہرحال ہم نے جو سمجھا وہ بغیر کسی حیل وحجت کے بیان کردیا ۔ قارئین جس طرح چاہیں اس سے مفہوم سمجھیں ہم نے اگر دوسروں کے بیان کردہ مفہوم کو قبول نہیں کیا تو ہماری خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ دوسرے ضرور ہمارے بیان کردہ مفہوم کو پسند کریں اس لئے اگر قارئین کا دل مفسرین کے بیان کردہ مفہوم کو تسلیم کرتا ہے تو وہ بھی ہم نے بیان کردیا ہے اس کی مزید تفصیل بھی تفاسیر کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی ایک آزمائش کا ذکر قرآن کریم میں : قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” ولقد فتنا سلیمن والقینا علی کرسیہ جسدا ثم اناب ، قال رب اغفرلی وھب لی ملکالا ینبغی لا حد من بعدی انک انت الوھاب ، (ص 38 : 34 ‘ 35) ” ہم نے سلیمان کو ایک آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد ڈال دیا پھر اس نے رجوع کیا اور اس نے کہا اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے (اصلاح کردینے کے) بعد کسی کو (فساد کی) ہمت نہ ہو بلاشبہ تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے ۔ “ عربی میں اس تفسیر کو اس طرح بیان کیا جائے گا کہ ” لا ینبغی لاحد ان یفسد فیہ من بعدی اے من بعد اصلاحی “۔ ان دو آیات کریمات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو بلاشبہ کسی آزمائش میں ڈالا گیا لیکن وہ فورا ہی اپنی لغزش پر متنبہ ہوگئے اور اپنے پروردگار سے معافی طلب کرلی اور اپنی اس بات سے رجوع کرلیا جس کے باعث وہ فتنہ میں مبتلا ہوئے تھے اور اس کو ذکر اس لئے فرمایا کہ لوگوں کو یہ بات سمجھا دی جائے کہ لغزش کا ہوجانا انسانی خاصہ ہے اور وہ ہر انسان سے ہوجاتی ہے لیکن اللہ کے نیک بندوں کی نشانی یہ ہے کہ کہ وہ جب لغزش کر بیٹھتے ہیں تو متنبہ ہو کر اکڑتے نہیں ‘ اتراتے نہیں ‘ لغزش کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرتے بلکہ فورا عاجزی کے ساتھ اپنے پروردگار حقیقی کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کے اس رویہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی لغزش کو محض معاف ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ مزید الطاف وکرم سے نوازتا ہے اور ان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ رجوع الی اللہ کی ہوجاتی ہے اور یہی بات سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ ہوئی ۔ اس پر سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ وہ آزمائش کیا تھی جس میں سیدنا سلیمان (علیہ السلام) ڈالے گئے ؟ اور وہ جسد کیا جسد تھا جو آپ کی کرسی پر ڈالا گیا ؟ سیدھا ‘ صاف اور مختصر جواب تو یہ ہے کہ اس کا ذکر قرآن کریم میں نہیں کیا گیا اس لئے ہمیں اس کھوج کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ آزمائش کیا تھی ‘ جو بھی تھی انجام کار اس میں سلیمان (علیہ السلام) وکامیاب وکامران قرار پائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی لغزش کو معاف فرما دیا اور آپ پر مزید انعام واکرام کی بارش کی ۔ لیکن ہمارے مفسرین نے یہ راستہ اختیار نہ کیا بلکہ اسرائیلیات سے مختلف قصے اٹھا کر ان آیات کی تفسیر میں درج کردیئے حالانکہ ان قصص میں سے ہر ایک قصہ ایک سے بڑھ کر جھوٹا تھا اور صداقت کا ان میں نام تک بھی موجود نہ تھا اس لئے ان سب کا نہیں تو ان میں سے ایک دو کا ذکر کئے بغیر چارہ نہیں تاکہ ان کا جھوٹ ہونا واضح کیا جاسکے ۔ 1۔ بغوی نے لکھا ہے کہ محمد بن اسحاق نے وہب بن منبہ کی روایت سے بیان کیا ۔ وہب نے کہا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے سنا کہ سمندر میں کوئی جزیرہ ہے جس کا نام صیدون ہے ‘ وہاں کا ایک بڑا بادشاہ ہے جزیرہ کا محل وقوع چونکہ سمندر میں ہے اس لئے کوئی شخص صیدون تک نہیں پہنچتا (اور بادشاہ آزاد ہے کسی کا تابع نہیں) اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو وہ حکومت عطا کی تھی کہ انکی حکومت سے بحر وبر میں کوئی چیز باہر نہیں تھی ۔ آپ ہوا پر سوار ہو کر ہر جگہ پہنچ جاتے تھے ۔ یہ اطلاع ملنے کے بعد آپ ہوا پر سوار ہو کر اس شہر کی طرف روانہ ہوگئے اور جن وانس کے لشکر سمیت وہاں پہنچ کر اتر گئے ‘ بادشاہ کو قتل کیا اور جزیرہ میں جو کچھ تھا اس پر بطور مال غنیمت قبضہ کرلیا ‘ من جملہ دیگر اشیاء کے آپ کو وہاں بادشاہ کی ایک لڑکی بھی ملی جس کو جرادہ کہا جاتا تھا ۔ ایسی حسین و جمیل لڑکی کسی نے نہیں دیکھی ‘ آپ نے اپنے لئے اس کا انتخاب کرلیا ‘ اول اس کو دعوت اسلام دی ‘ وہ ناگواری خاطر کے ساتھ مسلمان ہوگئی ۔ آپ نے اس سے نکاح کرلیا ‘ آپ کو اس سے اتنی زیادہ محبت ہوگئی کہ اور کسی بیوی سے نہیں تھی وہ لڑکی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس اتنے مرتبہ پر پہنچنے کے بعد بھی ہمیشہ غمگین رہتی ‘ اس کا آنسو نہیں رکتا تھا ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے یہ بات تکلیف دہ تھی ‘ آپ نے اس سے فرمایا ‘ اس کی کیا وجہ کہ تیرا غم دور نہیں ہوتا اور آنسو نہیں تھمتے ‘ کہنے لگی مجھے اپنے باپ کی ‘ اس کی حکومت کی اور اس پر جو مصیبت پڑی اس کی یاد آتی ہے جو مجھے غمگین بنائے رکھتی ہے ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا ‘ اس کے عوض تو اللہ نے تجھے وہ ملک عطا کردیا جو اس کے ملک سے بڑا ہے اور ایسی حکومت عنایت کردی جو اس کی حکومت سے عظیم ہے اور مسلمان ہوجانے کی تجھے توفیق دی جو سب سے بہتر (نعمت) ہے ۔ وہ کہنے لگی ہاں یہ تو سب کچھ ہے ‘ پھر بھی مجھے جب باپ کی یاد آتی ہے تو وہ غم چھا جاتا ہے ‘ جو آپ دیکھتے ہی ہیں ‘ اگر آپ حکم دے کر جنات سے اس مکان کے اندر جس میں میں رہتی ہوں ‘ میرے باپ کی مورتی بنوا دیں اور میں صبح وشام اس کو دیکھتی رہوں تو امید ہے کہ میرا غم دور ہوجائے گا اور میرے دل کو کچھ تسلی ہوگی ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جنات کو حکم دیا کہ اس کے باپ کی ایک مورت اس کے گھر کے اندر بنا دو کوئی فرق نہ ہو ‘ جنات نے ایسی مورتی بنا دی ‘ اس عورت نے دیکھ لیا کہ بعینہ یہ اس کا باپ ہے ‘ فقط اتنی بات ہے کہ اس میں جان نہیں ہے ‘ پھر اس کو کرتہ پہنایا ‘ صافہ باندھا اور چادر اوڑھا دی اور ویسے ہی کپڑے پہنچا دیئے جو وہ (اپنی زندگی میں) پہنا کرتا تھا ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب اس کے گھر سے باہر نکل جاتے تو وہ صبح وشام اپنی لونڈیوں اور باندیوں کو ساتھ لے کر مورتی کے پاس جاتی اور جیسا باپ کی زندگی میں اس کا دستور تھا اسی کے مطابق مورتی کو خود بھی سجدہ کرتی اور باندیاں بھی اس کے ساتھ سجدہ کرتیں ‘ چالیس روز تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس کا کوئی علم نہ ہوا۔ آصف بن برخیا کو اس کی اطلاع مل گئی ۔ آپ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے گہرے دوست تھے ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دروازے آپ کے لئے ہر وقت کھلے رہتے تھے ‘ جس وقت چاہتے ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جس گھر میں چاہتے داخل ہوجاتے ‘ کوئی آپ کو لوٹا نہیں سکتا تھا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھر میں موجود ہوں یا نہ ہوں ۔ ایک روز حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی ! میں بوڑھا ہوگیا ہوں ‘ ہڈیاں ضعیف ہوگئیں ‘ عمر ختم ہونے کے قریب آگئی ‘ جانے کا وقت آگیا ‘ اب میں چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے کسی ایک جگہ کھڑا ہو کر اللہ کے پیغمبروں کا تذکرہ کروں اور اپنی معلومات کے مطابق کے مطابق ان کے اوصاف بیان کروں اور انبیاء کے متعلق جو بعض باتیں لوگ نہیں جانتے ہیں ان کو بتاؤں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا (جیسا چاہو) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے آصف کی تقریر سننے کے لئے لوگوں کو جمع کردیا ‘ آصف تقریر کرنے کھڑے ہوگئے ۔ گزشتہ انبیاء کا ذکر کیا ‘ ہر نبی کے خصوصی اوصاف جو اس میں تھے بیان کئے اور جو فضیلت اللہ نے اس کو (خاص طور پر) دی تھی وہ ظاہر کی تقریر کرتے کرتے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تذکرے پر آئے تو کہا آپ بچپن میں بڑے عقلمند ‘ حلیم ‘ بڑے پرہیزگار اور بڑے پر حکمت حکم دینے والے تھے اور چھوٹی عمر میں ہر امر مکروہ سے بہت دور تھے ‘ یہ کہہ کر تقریر ختم کردی ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا آصف تم نے گزشتہ انبیاء کا تذکرہ کیا اور ہر عمر کے ان کے اچھے اوصاف بیان کئے ‘ لیکن جب میرا تذکرہ کیا تو چھوٹی عمر کے میرے اچھے اوصاف تم نے بیان کئے اور بڑے ہونے کے بعد جو میرے اوصاف تھے ان کی طرف سے خاموشی اختیار کرلی ‘ آخر بڑا ہو کر میں نے کونسی نئی بات کرلی ‘ حقیقت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے آصف کی تقریر کو برا محسوس کیا ‘ اتنا کہ غصہ سے بھر گئے اور گھر جا کر آصف کو بلوا کر یہ بات کہی ‘ آصف نے جواب دیا ‘ ایک عورت کی محبت کی وجہ سے آپ کے گھر کے اندر چالیس روز سے صبح کو اللہ کے سوا دوسرے کی پوجا ہو رہی ہے ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کیا میرے گھر میں ؟ آصف نے کہا (ہاں ! ) آپ کے گھر میں ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا انا للہ وانا الیہ راجعون میں تو جانتا ہی تھا کہ تم نے جو کچھ کہا وہ بےوجہ نہیں کہا یقینا تم کو کوئی اطلاع ملی ہے ۔ پھر آپ اس عورت کے گھر میں گئے ‘ بت کو توڑا ‘ عورت کو سخت سزا دی اور اپنا لباس اتار کر دوسرے کپڑے پہنے ‘ جن کا سوت صرف دوشیزہ (نابالغ معصوم) لڑکیوں نے کا تا تھا اور دوزشیزہ لڑکیوں نے ہی بنا تھا ‘ کیس بالغہ نے چھوڑ بھی نہ تھا ‘ یہ لباس پہن کر تنا جنگل کو نکل گئے ‘ وہاں چولھے کی راکھ کا بستر بچھوایا ‘ پھر توبہ کرنے کے لئے اس خاکی بستر پر بیٹھے اور کپڑوں سمیٹ اس پر لوٹے ‘ اللہ کے سامنے گڑگڑائے اور زاری کی ‘ دعا کرتے رہے ‘ روتے رہے اور جو کچھ گھر میں ہوا ‘ اس کی معافی مانگتے رہے ‘ شام تک اسی میں مشغول رہے ‘ شام ہوگئی تو گھر واپس آگئے ۔ آپ کی ایک ام ولد (وہ باندی جو بچہ کی ماں ہوگئی ‘ آقا کی کوئی اولاد اس کے پیٹ سے ہوگئی) تھی ۔ جس کو امینہ کہا جاتا تھا ‘ آپ جب بیت الخلا جاتے یا کسی بی بی سے قربت صنفی کرنے کا ارادہ کرتے تو اپنی مہر امینہ کے پاس رکھ دیتے تھے اور جب تک ضرورت سے فراغت کے بعد بالکل پاک نہ ہوجاتے مہر کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے ‘ اسی مہر سے آپ کی حکومت وابستہ تھی ‘ ایک روز امینہ کے پاس مہر رکھ کر بیت الخلا کو چلے گئے ‘ آپ کے جانے کے بعد سمندری شیطان جس کا نام صخر تھا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شکل میں امینہ کے پاس آیا اور مہر طلب کی ‘ امینہ نے اس کی شکل میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شکل سے کوئی غیریت محسوس نہیں کی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) سمجھ کر مہر دے دی ‘ صنحر نے وہ مہر اپنے ہاتھ میں پہن لی اور باہر جا کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تخت پر بیٹھ گیا اور سارے پرندے ‘ جنات اور انسان اس کے پاس آکر (حسب معمول) جمع ہوگئے ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بیت الخلاء سے نکل کر امینہ کے پاس پہنچے اور کہا امینہ ! میری انگوٹھی لاؤ ‘ چونکہ ہر دیکھنے والے کو آپ کی حالت اور ہیت بدلی ہوئی دکھائی دیتی اس لئے امینہ بھی نہ پہچان سکی اور بولی تو کون ہے ؟ آپ نے فرمایا میں سلیمان بن داؤد ہوں ‘ امینہ نے کہا تو جھوٹا ہے ۔ ابھی سلیمان میرے پاس آکر مہر لے کر گئے ہیں اور تخت حکومت پر اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ یہ گناہ کا وبال آپہنچا آپ بنی اسرائیل کے گھروں پر جاتے اور خانہ بہ خانہ چکر لگاتے اور کہتے ‘ میں سلیمان بن داؤد ہوں لیکن لوگ (دیوانہ سمجھ کر) آپ کے اوپر مٹی ڈالتے اور گالیاں دیتے اور کہتے اس دیوانہ کو ذرا دیکھو ‘ کیا کہتا ہے ‘ اپنے کو سلیمان سمجھتا ہے ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ حالات دیکھے تو سمندر کی طرف چلے گئے اور دریا کے ٹھیکیداروں کی مچھلیاں اپنے اوپر لاد کر بازار تک پہنچاتے اور صاحب مال آپ کو روزانہ دو مچھلیاں مزدوری میں دے دیتا تھا ‘ شام ہوتی تو آپ ایک مچھلی فروخت کرکے روٹیاں لے لیتے اور دوسری مچھلی بھون لیتے ‘ چالیس روز اسی حالت میں رہے ‘ چالیس ہی دنوں تک آپ کے گھر کے اندر کی پوجا ہوئی تھی ۔ آصف اور دوسرے علماء بنی اسرائیل نے دشمن خدا کے احکام کو اس چلہ میں پہلے مقابلہ میں کچھ بدلا ہوا محسوس کیا ‘ اس لئے آصف نے کہا اے گروہ بنی اسرائیل کیا تم نے ابھی ابن داؤد کے احکام کو کچھ پہلے کے مقابلے میں بدلا ہوا محسوس کیا ‘ جیسا کہ میں محسوس کر رہا ہوں ۔ علماء نے کہا جی ہاں ! آصف نے کہا تو اتنا توقف کرو کہ میں سلیمان کی بیویوں سے جا کر پوچھ لوں کہ کیا انہوں نے بھی اندرونی حالت میں کچھ تغیر محسوس کیا ہے ‘ جیسا کہ ہم بیرونی عام حالات میں محسوس کر رہے ہیں ‘ چناچہ آصف عورتوں کے پاس گئے اور کہا کیا تم نے بھی ابن داؤد کے اندرونی حالات میں کچھ تغیر پایا ہے جیسا کہ ہم نے باہر محسوس کیا ہے ‘ عورتوں نے جواب دیا اس سے بھی زیادہ ‘ وہ تو ہم میں سے کسی عورت کو خون کی حالت میں بھی نہیں چھوڑتا اور غسل جنابت بھی نہیں کرتا۔ آصف نے کہا انا للہ وانا الیہ راجعون “۔ بلاشبہ یہ کھلی ہوئی سخت آزمائشی مصیبت ہے ‘ آصف نے واپس آکر بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ خاص احوال تو عام حالات سے بڑھ چڑھ کر ہیں ‘ چالیس روز گزر گئے تو شیطان مردود اپنی جگہ سے اٹھ کر دریا پر گیا اور دریا میں مہر پھینک دی ‘ جس کو ایک مچھلی نے نگل لیا اور کسی شکاری نے وہ مچھلی پکڑ لی ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور دوسری وہ مچھلی جس کے پیٹ میں مہر تھی دے دی ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) دونوں مچھلیاں لے کر آگئے ۔ معمولی مچھلی کے بدلے میں تو روٹیاں لے لیں اور جس مچھلی کے پیٹ میں مہر تھی ‘ اس کا بھوننے کے لئے پیٹ چاک کیا ۔ پیٹ کے اندر سے مہر نکلی ‘ آپ نے مہر لے ہاتھ میں پہن لی اور سجدہ میں گر گئے ‘ اس کے بعد پرندے اور جنات آپ کے پاس آکر جمع ہوگئے اور آدمی بھی آپ کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ یہ جو مصیبت ان پر آئی تھی یہ اسی بات کی پاداش میں تھی جو ان کے گھر کے اندر ہوئی تھی ۔ غرض آپ کو حکومت واپس مل گئی اور اپنے گناہ سے علی الاعلان توبہ کی اور جنات کو حکم دیا کہ صنحر کو پکڑ کر لاؤ ‘ شیاطین نے اس کو ڈھونڈھ نکالا اور پکڑ کر حاضر کردیا ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پتھر کی ایک چٹان میں شگاف کرکے صنحر کو اس میں بند کر کے اوپر سے ایک چٹان اور رکھ کر لوہے اور رانگ سے اس کی مضبوط بندش کردی ۔ پھر سمندر میں پھینک دینے کا حکم دے دیا ۔ یہ سارا وہب کا بیان ہے ۔ 2۔ سدی کا بیان ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سرگزشت کا سبب یہ تھا کہ آپ کی سو بیبیاں تھیں ان میں سے ایک کا نام جرادہ تھا ۔ جرادہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نظر میں سب سے زیادہ چہیتی اور سب سے پکی امانت دار تھی ‘ آپ جب ضرورت کو جاتے تو اسی کے پاس مہر رکھ دیا کرتے تھے ایک دن جرادہ نے آپ سے کہا ‘ میرے بھائی اور فلاں شخص کے درمیان کچھ جھگڑا ہے میں چاہتی ہوں کہ میرا بھائی جب آپ کے پاس آئے تو آپ اس کے حق میں ڈگری دے دیں ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا اچھا (آپ نے وعدہ تو کرلیا) لیکن کیا نہیں ۔ اس اس قول پر ہی آپ مبتلاء آزمائش کردیئے گئے ۔ غرض ایک روز مہر جرادہ کو دے کر بیت الخلا کو چلے گئے ‘ آپ کے پیچھے شیطان (یعنی کوئی جن) آپ کی صورت بنا کر آیا اور جرادہ سے مہر لے گیا اور جاکر سلیمان کے تخت پر بیٹھ گیا ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب بیت الخلاء سے آئے اور جرادہ سے مہر طلب کی تو اس نے کہا کیا آپ نے ابھی لے نہیں لی تھی ‘ آپ نے کہا نہیں ‘ پھر آپ یہاں سے نکل کر کہیں اپنے مقام پر چلے گئے اور چلیس روز تک شیطان لوگوں پر حکومت کرتا رہا لوگوں نے اس کے احکام کو (سلیمان (علیہ السلام) کے احکام سے) بدلا ہوا محسوس کیا تو بنی اسرائیل کے علماء اور قراء آپ کی بیویوں کے پاس گئے اور ان سے کہا ہم کو احکام سلیمانی سے اس کے احکام غیر نظر آتے ہیں ‘ اگر یہ سلیمان ہے تو یقینا اس کی عقل جاتی رہی ہے ۔ عورتیں رونے لگیں ‘ علماء اور قراء چلے آئے اور آکر توریت کھول کر اس کی تلاوت میں مشغول ہوگئے ، شیطان نے جو یہ دیکھا تو ان کے سامنے سے اڑ کر روشن دان میں جا پڑا ‘ مہر اس کے پاس ہی رہی ‘ پھر وہاں سے اڑ کر سمندر کی طرف چلا گیا مہر اس کے ہاتھ سے سمندر میں گر گئی ۔ جس کو ایک مچھلی نے نگل لیا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی شکاریوں کے پاس پہنچ گئے تھے اور تھے بہت سخت بھوکے ۔ اس لئے ایک شکاری سے اسکے شکار کی ایک مچھلی کھانے کے لئے مانگی اور کہا میں سلیمان ہوں ۔ یہ بات سن کر ایک شکاری نے اٹھ کر آپ کے لاٹھی ماری اور سر پھاڑ دیا ‘ آپ سمندر کے کنارے بیٹھے خون دھونے لگے ۔ دوسرے شکاریوں نے مارنے والے کو ملامت کی اور جو مچھلیاں پکڑی تھی ان میں سے دو مچھلیاں آپ کو دے دی ‘ آپ نے دونوں کا پیٹ چاک کیا اور دھونے لگے ‘ ایک مچھلی کے پیٹ کے اندر سے آپ کو اپنی مہر مل گئی اور آپ نے اس کو پہن لیا ۔ اسی طرح اللہ نے آپ کو حکومت اور شان و شوکت واپس دے دی اور پرندے آپ کے گرد گھومنے لگے اس وقت ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ سلیمان یہ ہیں اور لگے اپنی حرکت کی معذرت کرنے ‘ آپ نے فرمایا نہ میں تمہاری اس معذرت کی تعریف کرتا ہوں نہ تمہارے فعل پر تمہیں ملامت کرتا ہوں ۔ یہ تو ہونا ہی تھا اس کے بعد آپ اپنی حکومت پر آگئے اور جس شیطان نے مہر اڑائی تھی اس کی گرفتاری کا حکم دیا ۔ وہ گرفتار ہو کر آگیا تو آپ نے لوہے کے ایک صندوق کو بند کر کے صندوقت کو مقفل کر کے اس پر اپنی مہر لگا کر سمندر میں پھنکوا دیا ‘ آج تک وہ اسی حالت میں ہے اور زندہ بھی ہے ۔ 3۔ سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) تین روز تک لوگوں سے پردے میں رہے (کسی سے ملاقات کو نہیں آئے نہ سامنے آئے) اللہ نے وحی بھیجی اور فرمایا ‘ تم تین روز لوگوں سے پردے میں رہے اور میرے بندوں کے معاملات پر نظر نہیں کی (اس لغزش پر) اللہ نے آپ کو آزمائش میں ڈال دیا اس سے آگے سعید نے مہر کا قصہ اور شیطان کے اس پر قبضہ کرلینے کا ذکر کیا ہے ۔ حسن نے کہا اللہ ایسا نہ تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بیبیوں پر شیطان کو مسلط کردیتا۔ انتھی کلام البغوی۔ 4۔ عبد بن حمید اور نسائی اور ابن مردویہ نے وہب بن منبہ کے بیان کی طرح یہ قصہ بیان کیا اور روایت کی نسبت حضرت ابن عباس ؓ کی طرف کی ہے اور ابن جریر نے یہ قصہ بروایت سدی وہب بن منبہ کی طرح بیان کیا ہے ۔ مگر ان کے بعض طرق روایت میں آیا ہے کہ صنحر جنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تخت پر بیٹھ گیا تو اللہ نے سوائے سلیمان (علیہ السلام) کی ذات اور ان کی بیبیوں کے ہرچیز میں اس کے حکم کا نافذ کردیا ‘ بغوی کی روایت میں حسن کا بھی یہی قول آیا ہے کہ اللہ ایسا نہ تھا کہ شیطان کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بیبیوں پر مسلط کردیتا۔ 5۔ بغوی نے لکھا ہے کہ بعض روایات میں آیا ہے جب سلیمان فتنہ میں پڑگئے تو مہران کے ہاتھ سے نکل کر گر گئی ‘ آپ نے دوبارہ ہاتھ میں ہاتھ میں ڈالی ‘ تب بھی نکل کر گر گئی اور آپ کی حکومت انگوٹھی سے ہی وابستہ تھی اس لئے آپ کو مصیبت کا یقین ہوگیا ‘ اتنے میں آصف آگئے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کہنے لگے ‘ آپ اپنے قصور کی وجہ سے آزمائش میں پھنس گئے ‘ یہ مہر آصف کے ہاتھ میں 14 روز تک نہیں رکے گی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے تہ خانہ میں بھاگ کر چلے گئے ‘ اور آصف نے انگوٹھی اٹھا کر اپنی انگلی میں پہن لی تو انگوٹھی رک گئی ۔ (انگلی سے نکل کر نیچے نہیں گری) آیت (والقینا علی کرسیہ جسدا) میں جسد سے یہی مراد ہے (یعنی جسد سے مراد ہیں آصف) آصف 14 روز تک حکومت پر قائم رہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہی کے طریقہ پر حکومت کرتے رہے ‘ اس کے بعد اللہ نے سلیمان (علیہ السلام) کو حکومت لوٹا کر عطا فرما دی اور وہ اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور دوبارہ اپنی انگوٹھی ہاتھ میں پہن لی ۔ مندرجہ بالا عبارت کو آپ نے پڑھ لیا ہے ایمانداری سے کہئے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی ہے جو دیومالا کی کہانی سے زیادہ کوئی حیثیت رکھتی ہو جس کا تعلق اوپر مذکورہ دونوں آیات میں سے کسی کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہو ۔ تعجب ہے کہ آمین ورفع الیدین کی بات آئے تو ہمارے علمائے کرام ان کے راویوں کی چھان بین شروع کردیں اور پھر اس بحث کو بیسیویں صفحات میں پھیلا کر اپنے مکتب فکر کے صحیح ہونے کے لئے دلائل جمع کریں لیکن جب کسی نبی (علیہ السلام) کی زندگی کے کسی واقعہ کو ضبط کرنے لگیں تو اسرائیلیات میں سے جو کچھ ان کے ہاتھ میں آئے نقل کرتے چلے جائیں اس کے رد کرنے میں کسی راوی کے متعلق یہ دیکھنا بھی پسند نہ کریں کہ یہ کون ہے اور کیسا ہے ؟ حالانکہ ان راویوں میں ایک بھی ایسا نہیں جس پر انحصار کرتے ہوئے ہم ان سارے قصص میں سے کسی پر غور کرنے کی کوشش کریں بلکہ ہم بغیر کسی بحث و تمحیث کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب کے سب خرافات کا پلندہ ہیں رہے ہمارے مفسرین جنہوں نے ان بےسروپا قصوں کو تفسیروں میں بھر دیا تو بلاشبہ ان کی نیت نیک تھی اور وہ سب کے سب یہ دکھانا چاہتے تھے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق ان کے ماننے والوں نے اس طرح کا ظلم روا رکھا ہے اور وہ اس طرح کی خرافات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق بیان کرتے رہے ہیں چناچہ بعض مفسرین نے ایسے قصے نقل کرنے کے بعد ان کی تردید بھی کردی ہے اور بعض نے ان کے راویوں کے ناموں پر ہی اکتفا کیا ہے تاکہ ان کا نام دیکھتے ہیں خود فیصلہ کرلیں کہ ان کے بیان میں کوئی خیر کا پہلو موجود نہیں۔ اوپر درج کردہ ساری روایات میں ایک انگوٹھی کا ذکر آیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کا سارا راز اس انگوٹھی میں بند تھا جس کے ہاتھ پر وہ انگوٹھی جاتی وہ سلیمان بن جاتا اور سلیمان کی اپنی شکل و صورت بھی بدل جاتی اور حکومت بھی ختم ہوجاتی اور جس کے ہاتھ پر انگوٹھی جاتی اس کی شکل و صورت بھی سلیمان کی سی ہوجاتی اور حکومت کے تخت پر بھی وہ براجمان ہوجاتا اور سارے پرندے درندے ‘ جن ‘ شیاطین اور انسان اس کی اطاعت شروع کردیتے اس بات کو سنتے ہی یہ کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ ” ھذا بھتان عظیم “۔ اس کے بعد ہم ایک روایت ایسی بھی پاتے ہیں جو صحیح بخاری اور مسلم میں ہے جس کا ذکر صاحب مشکوۃ نے بھی کیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کا مفہوم بیان کرنے میں بھی ہمارے مترجمین صحاح نے اس کا ترجمہ اس طرح کردیا ہے کہ اس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی لغزش قرار دے کر اس سے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ وہ جسد جو آپ کی کرسی پر ڈالا گیا تھا وہ آپ کا نوزائیدہ بچہ تھا جو دایہ نے لا کر آپ کی کرسی پر رکھ دیا تھا ۔ ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اس روایت کو نقل کریں اور پھر اس کا صحیح ترجمہ بھی اور مفہوم بھی تاکہ اس بات کی وضاحت بھی ہوجائے ۔ چناچہ وہ روایت درج ذیل ہے : عن ابی ہریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ قال سلیمان لاطوفن اللیلۃ علی تسعین امراۃ فی روایہ بمائہ امراۃ کلھن تاتی بفارس یجاھد فی سبیل اللہ فقال لہ الملک قل انشاء اللہ فلم یقل ونسی فطاف علیھن فلم تحمل منھن الا امراۃ واحدۃ جاءت بشق رجل وایم الذی نفس محمد بیدہ لو قال انشاء اللہ لجاھدوا فی سبیل اللہ فرسانا اجمعون (متفق علیہ) وفی روایہ البخاری قال لہ صاحبہ ۔ قال الحافظ صاحبہ بالملک لیس بمرفوع (فتح الباری پارہ 3 ص 266) اوپر درج شدہ حدیث کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے کہ ” ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک مرتبہ سلیمان کہنے لگے میں آج رات اپنی 90 بیویوں سے صحبت کروں گا اور ایک روایت میں ہے کہ سو بیویوں سے صحبت کروں گا ‘ ہر ایک کے ہاں ایک ایک لڑکا پیدا ہوگا جو اللہ کی راہ میں سوار ہو کر جہاد کرے گا ۔ فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ لیجئے انہوں نے انشاء اللہ نہ کہا اور وہ بھول گئے پھر آپ نے ان سے جماع کیا لیکن ان میں سے صرف ایک حاملہ ہوئی اس کے ہاں بھی آدھا مرد پیدا ہوا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر وہ انشاء اللہ کہہ لیتے تو سب کے ہاں بچے پیدا ہوتے جو سوار ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ۔ “ (متفق علیہ) ایک روایت میں فرشتہ کی بجائے ” ایک ساتھی “ کے الفاظ آئے ہیں اور پھر حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری پارہ 3 ص 266 میں نقل کیا ہے کہ ” ملک “ والی روایت مرفوع نہیں ہے ۔ حالانکہ اس اوپر درج شدہ حدیث کا صحیح ترجمہ اور مفہوم اس طرح ہے کہ : ” ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک دفعہ سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ میری قوم 90 عورتیں اور بعض روایات میں سو عورتیں ایسی ہیں جو نکاح کرنے کے لئے تیار نہیں میں نے ان کو کہلا بھیجا ہے کہ آج رات کسی مکان میں وہ سب مستورات جمع ہوں تاکہ میں ان کو اللہ کا حکم سناؤں کہ ’ نوجوان عورتوں کو نکاح کرنا چاہئے (24 : 32) اور ان میں جو بوڑھی ہیں ان کو چھوڑ کر (24 : 60) سب نوجوان عورتوں کو نکاح پر آمادہ کروں کہ فوج میں دوسروں کی بجائے میری قوم کے اپنے لوگ ہی بھرتی ہوں کہ اس میں ایک بڑی کامیابی کا راز مضمر ہے اس پر آپ کے کسی صحابی نے عرض کیا کہ انشاء اللہ پر بھی کچھ روشنی ڈال دیں اور یہ کہ ان عورتوں سے بھی انشاء اللہ کہلوائیں کیونکہ اس معاملہ میں عورتیں بہت تساہل کرتی ہیں آپ نے ان کو اکٹھا کر کے ایک شاندار وعظ کیا لیکن انشاء اللہ پر کچھ کہنا اور ان عورتوں سے کہلوانا آپ کو بالکل یاد نہ آیا اور عین وقت پر وہ ذہن سے اتر گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے جنہوں نے نکاح کیا ایک کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو کامل مرد بھی نہ ہوا ۔ اگر سلیمان انشاء اللہ پر بھی بات کرتے تو یقینا اس معاملہ میں کامیاب ہوتے اور وہ سب عورتیں نکاح کرتیں اور ان کے ہاں مجاہد بچے پیدا ہوتے لیکن ہوتا وہی ہے جو مشیت میں ہو۔ کیونکہ اصل حدیث کے الفاظ میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کا ترجمہ لازما ” بیوی “ ہی کے لفظ سے کیا جائے اور نہ ہی کوئی ایسا لفظ موجود ہے جس سے آپ کا ” جماع “ کرنا ثابت ہوتا ہو ” امراۃ “ کا لفظ ہر عورت پر بولا جاتا ہے وہ بیوی کے لئے خاص نہیں اور ” لاطوفن “ سے آمد ورفت ہے نہ جماع کرنا ۔ چناچہ قرآن کریم (آیت) ” ووجد من دونھم امرتن تذودان “۔ (28 : 23) اور اسی طرح (آیت) ” وامراۃ مؤمنۃ “۔ (33 : 50) اور اسی طرح (آیت) ” طوافون علیکم بعضکم علی بعض “۔ (24 : 58) (آیت) ” یطوف علیھم ولدان “۔ (56 : 17) اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ بیان کرنے والوں نے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ایک ہزار تک عورتیں بتائی ہیں جن میں تین سو منکوحہ اور باقی لونڈیاں کہی گئی ہیں اور اسی طرح 90 اور 100 بھی لیکن یہ بات کسی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوئی اور اس میں یہ اشکال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ایک سو عورتوں سے ایک رات میں صحبت کرنے کے لئے بڑی سے بڑی رات میں بھی 6 یا 7 منٹ میسر آتے ہیں ۔ اس لئے اگر ان سب عورتوں کو ایک جگہ جمع کرلیا گیا ہو تو بھی ممکن نہیں اور پھر کسی عام انسان کی اخلاقی حالت بھی اس کی اجازت نہیں دیتی چہ جائیکہ کہ کسی نبی اللہ کے متعلق ایسی بات کہی جائے جب کہ ہر نبی عبادت گزار اور تہجد کا ادا کرنے والا تھا جس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے لہذا ہم پورے وثوق اور نہایت عزم وجزم سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے ایسی بات قطعا نہیں فرمائی جو ہمارے مترجمین نے ترجمہ میں اور شارحین نے شروح میں بیان کردی ہے ۔ اس لئے سارے مترجمین اور شارحین کا احترام کرتے ہوئے ان کی اس بات سے متفق نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ان کی کہی ہوئی بات کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف ماننے کے لئے تیار ہیں اور کوئی ہمیں جو کہتا ہے وہ کہتا رہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے مترجمین نے اور اسی طرح شارحین نے انکی شروح میں خود نبی اعظم وآخر ﷺ کے متعلق بھی بعض ایسی باتیں منسوب کی ہیں جس میں ساری امہات المومنین سے ایک ہی رات میں ازدواجی تعلقات قائم کرنا بیان کیا اگرچہ ان کی تعداد 9 ‘ 10 سے زائد نہ تھی لیکن اس طرح وہ ترجمے اور ان کی تشریحات بھی صحیح نہیں ہیں لیکن اس وقت اس بحث کو چھیڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اسی طرح بہت سے مختصر مضمون پر مشتمل احادیث کا ترجمہ کرتے وقت ان کو کچھ سے کچھ بنا کردیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور ہم ان تراجم کو اندھے بہرے ہو کر نہ دیکھیں بلکہ عقل وفکر سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔ بہرحال مذکورہ حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث سے جو مفہوم سمجھا گیا ہے وہ کسی حال میں بھی درست نہیں ہے بلکہ حقیقت کی روشنی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بات وہی ہے جو ہم نے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کرنے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہہ دی ہے ۔ رہی یہ بات کہ سورة ص کی مذکورہ دو آیات کا مفہوم کیا ہوا جس کی یہ تفسیر بیان کی گئی تھی جس کی ہم نے تردید کردی اور اس کو تفسیر ماننے سے صاف انکار کردیا تو اس سلسلہ میں ایک بات تو انہی دونوں آیات کے بعد بتا دی گئی تھی کہ اس بحث میں الجھنے کی ہمیں ضرورت نہیں تاہم ہمیں تاریخ کی روشنی میں جو کچھ نظر آتا ہے اس کو مختصر بیان کردیتے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو داؤد (علیہ السلام) سے حکومت ملی تھی اور داؤد (علیہ السلام) نے طالوت کی معیت میں جہاد کرکے ایک بہت بڑی فوج کو نہایت بری طرح شکست دی تھی حالانکہ ان لوگوں کی طاقت وقوت ضرب المثل تھی اس کا بیان سورة البقرہ کی آیت 246 ‘ 247 میں گزر چکا ہے ۔ وہی لوگ جن کے ہاتھ سے نکل کر حکومت داؤد (علیہ السلام) اور پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملی تھی وہ اندر اندر کوشش کرتے رہے اور کئی بار انہوں نے آپ کے خلاف تحریک چلانا چاہی جو دبا دی جاتی رہی لیکن جس طرح اس کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے نہ کیا گیا یا نہ ہوسکا انجام کار ایک سیاسی لیڈر ایسا بھی اٹھا جس نے حالات کا رخ بدل دیا اور آپ کو اس وقت معلوم ہوا جب حالات پر قابو پانا نہایت ہی مشکل ہوگیا ۔ آپ نے جہاں ان حالات پر قابو پانے کے لئے اپنی افواج کو متحرک کیا اور اپنے اعوان وانصار سے مشورہ کیا کہ اس اندرونی بغاوت کو کس طرح دبایا جائے وہاں اپنی اس سستی کے ازالہ کے لئے خصوصا اللہ رب العزت کے سامنے سجدہ ریز بھی ہوئے اور راتوں کو جاگ جاگ کر اللہ سے مغفرت چاہی کہ اے میرے اللہ ! میری مدد فرما اور اس تحریک کو ناکام کرنے کے لئے میری مدد فرما جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اندرون ملک حالت خراب ہوتے ہوتے پھر درست ہوگئی اور اس تحریک کا مکمل طور پر آپ نے خاتمہ کردیا اور اس آدمی کو جو آپ کی کرسی یعنی حکومت پر قبضہ کرنے ہی والا تھا کو ناکام ونامراد بنا کر رکھ دیا ۔ اس تحریک کے خاتمہ کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس ملک الملک رب ذوالجلال والاکرام کی طرف مزید رجوع کیا اور اپنی دعاؤں میں اس سے بار بار اپیل کی کہ اے مالک الملک اور اے صاحب عزت و جلال آئندہ کبھی ایسا نہ ہو کہ اس طرح کا کوئی واقعہ میری حکومت میں رونما ہو یہ جو حکومت تو نے مجھے عطا فرمائی ہے یہ تیرے خاص فضل و کرم ہی کا نتیجہ ہے میرا اس میں کوئی کمال نہیں انک انت الوھاب یہ سب کچھ تو ہی عطا کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ان دعاؤں کو پذیرائی بخشی اور بحمد اللہ آپ کی زندگی میں پھر کبھی اس طرح کا واقعہ رونما نہ ہوا اور سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بھی جب تک چاہا اس حکومت کو اس نہج پر چلایا لیکن اس دنیا میں نہ کسی انسان کے لئے ہمیشگی ہے اور نہ ہی کسی نظام کے لئے ۔ حق بلاشبہ حق ہے اور باطل باطل لیکن کبھی باطل کا دور دورہ ہوجاتا اور حق اس کے نیچے چھپ کر رہ جاتا ہے اور کبھی حق سرنکالتا ہے اور باطل نابود ہو کر رہ جاتا ہے اور اس طرح انسانوں کی آزمائش ہوتی رہتی ہے اور ہر آنے والا اپنا اپنا حصہ حاصل کرتا جاتا ہے اور اس دنیا کی کسی چیز کے لئے ہمیشگی نہیں ہے اسی طرح وہ وقت بھی آیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اس دنیا سے ابدی دنیا کی طرف منتقل کردیا گیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ آپ کی تشکیل دادہ حکومت کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور تعمیر بیت المقدس : ہیکل سلیمانی کی تعمیر بھی آپ کے کارہائے نمایاں میں سے ایک بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ ہیکل سلیمانی کیا ہے ؟ وہی جس کو بیت المقدس کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے گویا بیت المقدس ہی کا دوسرا نام ہیکل سلیمانی بھی ہے ۔ بیت المقدس دراصل سیدنا یعقوب (علیہ السلام) نے تعمیر کرایا تھا جس طرح بیت اللہ کی تعمیر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے کی تھی اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ بیت اللہ کو اللہ تعالیٰ نے مقام حج بنا دیا اور یہی قبلہ اول بھی تھا اور آج تک وہ مقام حج ہے اور انشاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک مقام رہے گا ۔ دنیا کے عبادت خانوں میں پہلا عبادت خانہ بلاشبہ بیت اللہ ہی ہے اور اس کے بعد عبادت خانوں میں دوسرا نمبر بیت المقدس ہی کو حاصل ہے ۔ جس طرح بیت اللہ کئی بار منہدم ہوتا اور تعمیر ہوتا رہا اسی طرح بیت المقدس بھی منہدم اور تعمیر ہوتا رہا ہے پھر اس بیت المقدس کو سلیمان (علیہ السلام) کے دور میں بہت وسعت نصیب ہوئی اور وہ ایک بہت بڑی عمارت کے طور پر معرض وجود میں آگیا ۔ سلیمان (علیہ السلام) نے بیت المقدس کی تعمیر سے پہلے جہاں یہ مسجد تعمیر تھی اس کے رقبہ کو وسعت دی اور وسعت دیئے گئے رقبہ کو چھوڑ کر اس کے اردگرد شہر تعمیر کرانا شروع کیا اور اس طرح ایک بہت بڑا شہر تعمیر کرا دیا اور شہر تعمیر کرانے کے بعد اس مسجد کی طرف متوجہ ہوئے تو اس کی از سر نو تعمیر شروع کردی اور انہوں نے شہر کو خوبصورت بنانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی لیکن مسجد کی تعمیر پر تو بہت ہی زور لگایا ۔ قوی ہیکل اور نہایت ہی مضبوط اور باہمت مزدور اس پر لگائے اور ان سب کے خورد ونوش کا بندوبست کیا اور ایک لمبے عرصے تک اس کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس مسجد بیت المقدس میں بہت قیمتی پتھر استعمال کئے اور اس میں استعمال کرنے کے لئے بہت دور دور سے ماہرین اکٹھے کئے گئے جو اپنے فن میں اس وقت کے ماہر کاریگر سمجھے جاتے تھے سب اکٹھے کر لئے اور ان کو اس کی تعمیر پر لگا دیا گیا ۔ اکثر مفسرین نے انکی اس کاریگری اور ہمت و طاقت اور ان کی کارکردگی کے باعث ان کو ” جن “ مانا اور تسلیم کیا ہے اور ہم اس بات کی تفصیل پہلے کرچکے ہیں ۔ سلیمان (علیہ السلام) کی تعمیر بیت المقدس اور اس شہر کی دوسری تعمیرات ایک مدت تک لوگوں کو حیران کرتی رہیں اور اس کے حسن وزیبائش نے لوگوں کو مدت تک محو حیرت رکھا کہ ایسے دور میں یہ تعمیرات کیسے بنوا دی گئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی سلیمان (علیہ السلام) کے دور کی ترقیوں کو اشارات ہی اشارات میں کافی حد تک بیان کردیا اور خصاصا لوہے ‘ تانبے اور پتھر کی تیار کردہ چیزوں کی طرف توجہ دلائی جس کا ذکر پیچھے کیا جا چکا ہے لوگوں نے اس میں اور بھی بہت سی زائد باتیں ذکر کی ہیں جن کو ہم بیان نہیں کر رہے ۔ کہا گیا ہے کہ اس تعمیر میں سلیمان (علیہ السلام) کو بیس سال کی مدت لگی اور یہ سب کچھ سلیمان (علیہ السلام) کی زندگی میں تعمیر ہوچکا تھا یہ صحیح نہیں ہے کہ بیت المقدس کی تعمیر جاری تھی کہ آپ کی وفات ہوگئی ۔ یہ بات صرف قصہ گوؤں نے اپنے قصہ میں چاشنی بھرنے کے لئے بیان کی ۔ سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق جادو یعنی سحر کی نسبت سے بھی بہت کچھ بیان کیا گیا اور اس کی تفصیلات بھی بہت لمبی ہیں اور ان میں قابل ذکر باتیں ہم اس سے پہلے سورة البقرہ کی آیت 102 میں بیان کر آئے ہیں اس لئے اس جگہ اس کو دوبارہ بیان کرنے کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ عروۃ الوثقی جلد اول میں ملاحظہ کرلیں وہاں سے بہت کچھ آپ کو مل جائے گا ۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی وفات اور آپ کے جانشینوں کے آپس میں جھگڑے : قرآن کریم نے سورة سبا میں آپ کی وفات کے متعلق اس طرح بیان دیا ہے کہ : (آیت) ” فَلَمَّا قَضَیْْنَا عَلَیْْہِ الْمَوْتَ مَا دَلَّہُمْ عَلَی مَوْتِہِ إِلَّا دَابَّۃُ الْأَرْضِ تَأْکُلُ مِنسَأَتَہُ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ الْغَیْْبَ مَا لَبِثُوا فِیْ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ (سبا 34 : 14) ” پھر جب ہم نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے لئے موت کا حکم صادر کیا تو انہیں اس کی موت کا پتہ کسی چیز نے نہ دیا مگر (دآبۃ الارض) نے جو اس کی عصاء (حکومت) کو کھا گیا پھر جب وہ گر گیا (اس کا ترتیب دیا گیا نظام بدل گیا) تو جنوں پر واضح ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو رسوا کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے ۔ “ (سلیمان کی حکومت کو بحال رکھنے کی سخت کاوش نہ کرتے) یہ بات معلوم ہوگئی کہ مذکورہ آیت میں سلیمان (علیہ السلام) کی موت ‘ وفات کا ذکر ہے لیکن جس طرح آپ کے سارے قصے میں بہت کچھ مبالغہ کیا گیا اور بےسروپا باتیں بیان کی گئیں اس طرح آپ کی وفات میں بھی بہت کچھ کہا گیا ۔ بعض مفسرین نے تو یہ کہا کہ سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے جنوں کی ایک بہت بڑی جماعت عظیم الشان عمارت بنانے میں مصروف تھی کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کا پیغام اجل آپہنچا مگر جنوں کو آپ کی موت کی خبر نہ ہوئی اور وہ ان تعمیرات میں مصروف رہے ۔ وہ عمارات کونسی عمارات تھیں ؟ تو اس کا جواب بڑی سادگی کے ساتھ یہ دے دیا گیا کہ وہ بیت المقدس کی عالیشان عمارت تھی جو بیس سال تک بنتی رہی تھی ۔ اور بعض مفسرین نے یہ کہا کہ ” اہل علم کا بیان ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) مسجد بیت المقدس کے اندر مہینہ دو مہینہ ‘ سال دو سال یا اس سے کم وبیش مدت تک گوشہ نشین ہوجاتے تھے وہیں آپ کا کھانا پانی پہنچا دیا جاتا تھا ۔ ایک بار حسب معمول بیت المقدس کے اندر ہی تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی جس کے قصہ کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ روزانہ صبح کے وقت بیت المقدس کی محراب میں ایک بوٹی نمودار ہوتی تھی آپ اس سے اس کا نام دریافت کرتے تھے وہ اپنا نام بتا دیتی تھی پھر آپ اس سے اس کے خواص دریافت کرتے تھے وہ اپنے فائدے بیان کردیتی تھی ۔ آپ اس کو کٹوا لیتے تھے پھر اگر وہ کسی پودے کی شاخ ہوتی تو اس کو کسی باغ میں لگوا دیتے تھے اور اگر وہ دوا کی بوٹی ہوتی تو لکھ لیتے تھے ۔ ایک روز درخت خروبہ محراب میں اگا حضرت نے اس سے دریافت کیا تو کون ہے ؟ اس نے جواب دیا خروبہ ‘ آپ نے فرمایا تو کس لئے اگا ہے ؟ اس نے کہا آپ کی مسجد کو برباد کرنے کے لئے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا یہ بات تو ہوگی نہیں کہ میری زندگی میں اللہ اس مسجد کو برباد کر دے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے میری موت اور پھر بیت المقدس کی بربادی تیری وجہ سے ہوگی ۔ پھر آپ نے اس کو ایک اچھے باغ میں لگوا دیا اور دعا کی کہ اے اللہ میری موت کو جنات سے پوشیدہ رکھنا تاکہ انسانوں کو معلوم ہوجائے کہ غیب دان جنات نہیں ہوتے ۔ جنات آدمیوں سے کہا کرتے تھے کہ ہم غیب کی باتیں جانتے ہیں اور آنے والے دن میں جو کچھ ہوگا اس سے بھی ہم اچھی طرح واقف ہیں ۔ اس کے بعد سیدنا سلیمان (علیہ السلام) محراب میں چلے گئے اور لاٹھی پر سہارا لگائے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اس حالت میں کھڑے کھڑے آپ کی وفات ہوگئی محراب کے اندر آگے پیچھے کچھ روشن دان تھے جن میں سے جنات آپ کو کھڑا دیکھ کر خیال کرتے تھے کہ آپ نماز میں مشغول ہیں اس لئے جو سخت محنت کا کام آپ کی زندگی میں وہ کرتے تھے ان میں آپ کی وفات کے بھی سرگرم رہے اور چونکہ آپ کی عادت ہی تھی کہ نماز میں مشغول ہونے کے بعد باہر نہیں نکلتے تھے اس لئے آپ کے برآمد نہ ہونے سے جنات کو آپ کی وفات کا کوئی شبہ بھی نہ ہوا اس طرح وفات کے بعد ایک سال گزر گیا اور جنات برابر کام میں مشغول رہے آخر دیمک نے لاٹھی کو کھالیا اور آپ کی میت نیچے گر پڑی اور جنات کو آپ کی وفات کا علم ہوگیا ۔ “ (بغوی بحوالہ مظہری) بعض مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان یا کہ ” سیدنا سلیمان (علیہ السلام) نے ملک الموت سے کہہ دیا تھا کہ جب آپ کو میرے متعلق حکم دیا جائے تو مجھے اطلاع دے دینا ۔ ایک روز ملک الموت نے آکر کہہ دیا تھا کہ اب مجھے آپ کی بابت بتایا گیا ہے کہ آپ کی زندگی کا ذرا توقف باقی رہ گیا ہے ، آپ نے جنات کو طلب فرما کر اپنے گرداگرد اور اوپر ایک شیشے کا گھر تعمیر کرا لیا اور اسی حالت میں ملک الموت نے آپ کی روح قبض کرلی اور وفات کے بعد بھی آپ یوں ہی کھڑے رہے آخر گھن نے لاٹھی کو کھالیا اور آپ گر پڑے اس کے بعد لوگوں نے شیشہ گھر میں ایک دروازہ بنا لیا اور اندر داخل ہوگئے اور یہ جاننے کے لئے کہ آپ کی وفات کو کتنا عرصہ ہوگیا گھن کو لاٹھی پر اٹھالیا گھن ایک رات دن لاٹھی کو کھاتا رہا اس طرح لوگوں نے حساب لگا لیا کہ آپ کی وفات کو ایک سال ہوگیا ۔ “ یہیں بس نہیں اس کے لئے اور بھی بہت کچھ بیان کیا گیا اور ان باتوں کو پڑھ کر اور سمجھ کر دکھ ہوتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ کس طرح کی باتیں روا رکھی گئیں تو مولانا مودوی (رح) کی اس بات کو دل مانتا اور یقین کرتا ہے کہ ” یہودیوں کے متعلق معلوم ہے کہ انہوں نے خود اپنی قوم کے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ناپاک الزام لگانے اور ان کی سیرتوں کو داغ دار کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا ہے ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) ‘ حضرت اسحاق (علیہ السلام) ‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) ‘ حضرت یوسف (علیہ السلام) ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ‘ حضرت ہارون (علیہ السلام) ‘ غرض کوئی بھی ان کی بدگوئیوں سے نہ بچ سکا لیکن سب سے زیادہ ظلم انہوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سیدنا سلیمان (علیہ السلام) پر کیا کہ ان کو انبیاء کرام (علیہ السلام) کی صف سے نکال کر معمولی بادشاہوں کی صف میں اتار لائے اور ان کو اسی حیثیت سے پیش کیا کہ وہ ڈپلومیٹ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زنا اور حضرت سیدنا سلیمان (علیہ السلام) پر شرک کا الزام لگانے میں بھی باک نہیں کیا ۔ یہ اس قوم کا برتاؤ اپنے بزرگوں کے ساتھ جنہوں نے ان کو ذلت کی خاک سے اٹھا کر عزت کے آسمان پر پہنچایا ۔ آج جس تاریخی ومذہبی مفاخر پر یہ لوگ ناز کرتے ہیں وہ سب انہی بزرگوں کی بدولت نصیب ہوئے ہیں اور انہی کی پاک سیرتوں پر انہوں نے سیاہی کے چھینٹے پھینکے ہیں ۔ “ (تفہیمات) لیکن افسوس کہ جب تفہیم القرآن کا وقت آیا تو اس وقت تک خود مولانا بہت حد تک ان کے ہم نوا ہوچکے تھے ۔ وہ کیا حالات تھے جنہوں نے موصوف کا رخ پیچھے کو پھیر دیا اللہ ہی اس بات کو جانتا ہے یا مولانا کے حواریوں کو علم ہوگا اور ہم اس قابل بھی نہیں کہ ان کے حواریوں سے پوچھ سکیں ۔ اس بات کا اثر تھا کہ جہاں انہوں نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے دوسرے واقعات زندگی میں بہت سی اسرائیلیات کا خود تتبع کیا وہاں آپ کی اسی موت کی کہانی کے متعلق بھی تحریر فرمایا کہ : قرآن کے الفاظ جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) پر ایسی حالت میں موت جاری ہوئی جب کہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے اس عصا کی وجہ سے ان کا بےجان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جن پر سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے ۔ “ (تفہیم القرآن جلد 4 س 160) مولانا کو محسوس ہوا کہ مردہ کا لاٹھی کے سہارے کھڑا رہنا محال ہے تو انہوں نے اس کے ساتھ بیٹھنے کا لاحقہ لگا دیا لیکن اس بات کی کوئی توجیہ ارشاد نہ فرمائی کہ آکر گھر والوں نے آپ کا اتنا پتا کیوں نہ لیا ؟ کیا ان کو بتا کر مرے تھے کہ میں اس طرح مروں گا اور تم میرا پتہ نہ لینا ؟ یا اس میں کوئی اور راز تھا ؟ اگر جنوں کو کام پر لگائے رکھنا مقصود تھا تو چلو ان کو اس وقت معلوم نہ ہوا تو ایک سال بعد معلوم ہوگیا اور وہ سب بھاگ بھی گئے پھر اس کا آخر نتیجہ کیا نکلا جو کام ایک سال بعد ہوا اگر وہ ایک پہلے ہوجاتا تو اس میں کیا قیامت تھی ؟ مولانا خود کسی خاص مصلحت کے تحت پہیلیوں کی زبان استعمال کرتے رہے اور قرآن کریم کو دیو پری کی کہانی بنانے میں اکثر جگہوں پر وہی کام کیا جو پہلے مفسرین نے کیا تھا اور اس طرح اسرائیلیات کو درج کرتے رہے جس طرح سابق لوگوں نے ان کو درج کیا تھا اور اس طرح وہی کام کر گئے جو یہود نے اپنے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے متعلق کیا تھا کیونکہ وہی نبی ورسول اسلام کے بھی تھے جو یہود کے مانے اور سمجھے جاتے تھے ۔ تفہیم میں ان سارے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے قصص نکال کر دیکھو جن کا ذکر مولانا مرحوم ومغفور نے تفہیمات میں کیا ہے یعنی نوح (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک تو آپ دیکھیں گے کہ سوائے چند معدودے واقعات کے باقی سب جگہوں پر مولانا نے وہی کچھ بیان فرمایا جو یہود نے تورات میں یا تورات کے شارحین نے اپنی شروح میں بیان کیا ہے ۔ زیر نظر آیت میں دو الفاظ ایسے استعمال ہوئے ہیں جن کے باعث کسی نے آیت کے معنی کچھ سمجھے اور کسی نے کچھ ان میں سے ایک لفظ (دآبۃ الارض) اور دوسرا ہے (منساتہ) دابہ کیا ہے دابہ کی اصل دب ب ہے اور یہ لفظ عام ہے اور ہر جانور ‘ جاندار ‘ چلنے والے ‘ پاؤں دھرنے والے ‘ رینگنے والے کو داب کہا جاتا ہے جس کی جمع دواب یعنی ہر رینگنے والا اور پاؤں چلنے والا جاندار ۔ اسم فاعل کا صیغہ مذکر اور مؤنث دونوں کے لئے مستعمل ہے اور اس میں ۃ وحدت کی ہے ۔ یہ لفظ گھوڑے کے لئے مخصوص ہے مگر سب جانداروں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں جہاں بھی یہ لفظ آیا ہے اس میں ہر ایک جاندار داخل ہے وہ انسان ہو یا زندگی رکھنے والا کوئی کیڑا مکوڑا اور یہ بھی کہ وہ آسمان میں ہو یا زمین میں جب کہ وہ مخلوق ہو۔ گویا تخلیق کی گئی ہرچیز پر یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو جاندار بھی ہو اور پھر جب اس کے ساتھ الارض کا لفظ بھی لگایا گیا اور وہ (دآبۃ الارض) ہوگیا تو اس سے مراد گھٹیا انسان لیا گیا جو زمین کی طرف جھک جانے والا ہو اور آخرت کو بھلا دینے والا ہو خواہ وہ کون ہو جس کو دوسری جگہ قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے کہ : (آیت) ” ولو شئنا لرفعنہ بھا ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ھوہ فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تتر کہ یلھث ذلک مثل القوم الذین کذبوا بایتنا فاقصص القصص لعلھم یتفکرون “۔ (الاعراف 7 : 176) ” اور اگر ہم چاہتے تو ان نشانیوں کے ذریعہ اس کا مرتبہ بلند کرتے مگر وہ پستی کی طرف جھک گیا اور ہواء نفسی کی پیروی کی تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اس کو مشقت میں ڈالا جب بھی ہاپنے اور زبان لٹکائے چھوڑ دو تب بھی ایسا ہی کرے ایسی ہی مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں تو اے پیغمبر ! یہ حکایتیں لوگوں کو سناؤ تاکہ ان میں غور وفکر کریں ۔ اسی طرح (دآبۃ الارض) سے مراد وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے آپ کے اسلامی نظام کو بدل کر شیطانی نظام کو جاری کردیا ۔ اس آیت میں دوسرا لفظ (منساتہ) کا آیا ہے جس کا اصل مادہ ن سء ہے جس کے معنی پیچھے چھوڑنے کے ہیں چونکہ لاٹھی پر سہارا دے کر قدم آگے بڑھائے جاتے ہیں اور زمین کو پیچھے چھوڑا جاتا ہے اس لئے لاٹھی کو بھی ” منساۃ “ کہا گیا ہے اور اس جگہ سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت کا پورا نظام مراد ہے جس کو اس (دآبۃ الارض) زمین کی طرف جھک جانے والے انسان نے بدل دیا اس طرح گویا اس نے آہستہ آہستہ پہلے نظام کو کھالیا اور اس کی جگہ دوسرا نظام قائم کردیا ۔ قرآن کریم نے اس بڑی تبدیلی کو جو سالہا سال میں ہوئی تھی اور ان سارے واقعات کو جو ان سالوں میں رونما ہوئے تھے چند الفاظ میں بیان کردیا اور ایسے بہترین الفاظ میں بیان کیا جن کی دلالت فطری طور پر ان سارے حالات کے ساتھ وابستہ تھی لیکن ہمارے بعض مفسرین نے اس کو دیو پری کی کہانی بنا کر رکھ دیا جس سے اس قصہ کی ساری حیثیت ختم ہو کر رہ گئی ۔ اور بدقسمتی سے آج سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر زبان پر آتے ہی جادو اور سحر کے الفاظ نکل آتے ہیں اور ہم مسلمانوں کے ہاں نقش سلیمانی نام کی کتابیں بکتی نظر آتی ہیں جن میں تعویذ ‘ گنڈے اور جنوں کو تسخیر کرنے اور جن ڈالنے اور نکالنے کے عمل بتائے گئے ہیں ، اس کے لئے جتنا افسوس کیا جائے اتنا ہی کم ہے ۔ اس طرح زیر نظر آیت میں وہی شخص یا اس کا کوئی دوسرا ہمنوا مراد ہو سکتا ہے جس نے سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے وقت میں بھی ایک تحریک اٹھائی اور آپ گھبرا گئے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں گڑ گڑائے جیسا کہ پیچھے اس کا ذکر گزر چکا اور اس کا پوری قوت کے ساتھ دفاع کیا اور اللہ نے آپ کو اس آزمائش سے نکال بھی دیا اور کامیابی آپ کے حصہ میں آئی اور آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! آئندہ میری زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے اور یہی ہوا کہ حصہ میں آئی اور آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! آئندہ میری زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آئے اور یہی ہوا کہ آپ کی زندگی میں دوبارہ کسی کو ایسی ہمت نہ ہوئی لیکن آپ کی وفات کے بعد جب تک اللہ نے چاہا حالات درست ہی رہے اور کام اسی طرح چلتا رہا جیسا کہ آپ کی زندگی میں چلتا رہا لیکن کچھ عرصہ کے بعد جس کی مدت ذکر نہیں کی گئی دوبارہ تحریک جاگ اٹھی اور اس دفعہ آپ کے جانشین اس کو دبانے میں کامیاب نہ ہوئے اور ناکام ہوگئے اور اس ناکامی کے باعث دراصل وہ جانشین خود ہی تھے ۔ اس لئے ان کی ناکامی کے بعد ان لوگوں کو افسوس ہوا جنہوں نے ان کی جانشینی کے لئے بہت دوڑ بھاگ کی تھی اور اس طرح اب وہ ہاتھ ملتے رہے اور کہتے رہے کہ ہمیں معلوم ہوتا کہ یہ لوگ ایسے نکمے ہیں تو ہم ان کی جانشینی کے لئے اتنی دوڑ بھاگ کیوں کرتے ؟ اب زیر نظر آیت کے مضمون کو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ جب سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو ہم نے وفات دے دی تو کچھ عرصہ تک ملک کا انتظام وانصرام ان ہی کے طریقہ کے مطابق بدستور چلتا رہا پھر جب آہستہ آہستہ نیا قانون بنا کر مکمل طور پر نافذ کردیا گیا اور جدید طریقہ کے انتظامات شروع ہوگئے تو ملک کے لوگ چونک اٹھے کہ یہ کیا ہوا ؟ اگرچہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کو وفات پائے ایک عرصہ گزر گیا لیکن ہمارے لئے تو گویا انہوں نے آج ہی وفات پائی کہ ہم موجودہ حکومت کے ظالمانہ رویہ سے مصیبت میں مبتلا ہوگئے ۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ آپ کے جانشین ایسے ناکارہ ہیں تو ہم اس وقت ان کے جانشین بنانے میں ان کو قطعا حمایت نہ کرتے بلکہ ان کو کبھی جانشین نہ ہونے دیتے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے بعد میں آنے والے حکمرانوں کے لئے اس میں یہ ہدایت بیان کردی کہ وہ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی طرح اپنی رعایا سے احسان و سلوک کیا کریں اور اگر کوئی تحریک غیر اسلامی سرنکالے تو اس کی طرف فورا توجہ دے کر اس کا سرکچل دیں اور اس میں ذرہ بھی سستی سے کام نہ لیں اور کسی بڑے سے بڑے کی بڑائی کا قطعا خیال نہ کریں ۔ پھر اس کے متعلق ہمارے نبی اعظم وآخر ﷺ نے ہمیں بہت اہم ہدایات دی ہیں لیکن اس جگہ ان کے ذکر کی ضرورت نہیں آخر میں اس آخری آیت کی عربی تفسیر بھی ملاحظہ فرما لیں اور محظوظ ہوں : (آیت) ” فلما قضینا علیہ الموت وتوفینا ہ بقی الملک علی سنتہ قلیلا اطمان بہ اھلہ ما دلھم علی موتہ الا دآبۃ الارض الحکومہ الظالمہ تاکل منساتہ تشق عصاہ وتنسخ سنتہ بما ظالم غیر عدیدہ فلما خرالملک وسقط النظام السابق تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب الجرر والطریق الذی ظھر الان مالبثوا فی ال عذاب المھین ، ماسعوا فی اقام تھا سعیا ولا عملوا لھا فی محاکمھا اعمالا اسی عبارت پر ہم سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کے تذکرہ پر ختم کرتے ہیں ۔
Top