Urwatul-Wusqaa - Ibrahim : 26
وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ اِ۟جْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ
وَمَثَلُ : اور مثال كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ : ناپاک بات كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ : مانند درخت ناپاک اجْتُثَّتْ : اکھاڑ دیا گیا مِنْ : سے فَوْقِ : اوپر الْاَرْضِ : زمین مَا لَهَا : نہیں اس کے لیے مِنْ قَرَارٍ : کچھ بھی قرار
اور نکمی بات کی مثال کیا ہے ؟ جیسے ایک نکما درخت ، زمین کی سطح پر اس کی جڑ کھوکھلی ، جب چاہا اکھاڑ پھینکا اس کے لیے جماؤ نہیں
کلمہ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت سے دی جاسکتی ہے اور دی گئی ہے 27 ؎ کلمہ خبیثہ کلمہ طیبہ کی ضد ہے اس لئے ضروری ہے کہ سمجھ لیا جائے کہ اس سے مراد کیا ہے ؟ بلاشبہ اس میں بھی مختلف رائیں قائم کی گئیں لیکن تفہیم میں اس سے مراد کفر ہے اور کفر ایک خبیث درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں نہیں ہوتیں یعنی زمین میں اس کی جڑیں نہیں ہوتیں اور یہ بھی کہ ہوا کا ایک جھونکا آیا تو اسے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیا۔ ایسے درخت کی شاخیں کہاں ہوں گی اور اس پر پھل کہاں لگے گا۔ اس سے مراد ہر وہ باطل عقیدہ ہے جس کو انسان اپنے نظام زندگی کیبنیاد بنائے عام اس سے کہ وہ شرک ‘ کفر ہو ‘ دہریت ہو ‘ الحادو زندقہ ہو ‘ شرک و بت پرستی ہو یا قبر پرستی یا کوئی اور ایسا تخیل جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واسطے سے نہ آیا ہو۔ یعنی ہر عقیدہ باطل اس سے مراد ہے چونکہ وہ حقیقت کے خلاف ہے اسی لئے قانون فطرت کہیں بھی اس سے موافقت نہیں کرتا۔ کائنات کا ہر ذرا اس کی تکذیب کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی تردید کرتی ہے زمین میں اس کا بیج بونے کی کوشش کی جائے تو وہ ہر وقت اس کو اگانے کیلئے تیار رہتی ہے ۔ آسمان کی طرف اس کی شاخیں بڑھنا چاہیں تو وہ انہیں نیچے دھکیلتا ہے۔ انسان کو اگر امتحان کی خاطر انتخاب کی آزادی اور عمل کی مہلت نہ دی گئی ہوتی تو یہ بدذات درخت کہیں اگنے ہی نہ پاتا مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کو اپنے رجحان کے مطابق کام کرنے کا موقع عطا کیا ہے اس لئے جو نادان لوگ قانون فطرت سے لڑ بھڑ کر یہ درخت لگانے یا اگانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ یقینا ان کی ایمان ہی کے درخت پر وہ قرار پا جاتا ہے اور اس قدر جلدی بڑھتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ان کے ایمان کے درخت کو باطل کھا کر صاف کردیتا ہے اور بالکل ٹنڈ منڈ ہو کر رہ جاتا ہے اور انجام کار ایک دن ایسا آتا ہے کہ اس کے ایمان کا درخت جڑوں تک سوکھ جاتا ہے۔ کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کے اس فرق کو ہر وہ شخص با آسانی محسوس کرسکتا ہے جو دنیا کی مذہبی ‘ اخلاقی فکری اور تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرے وہ دیکھے گا کہ آغاز تاریخ سے آج تک کلمہ طیبہ تو ایک ہی رہا ہے مگر کلمات خبیثہ بیشمار پیدا ہوچکے کلمہ طیبہ کبھی جڑ سے نہیں اکھڑ سکتا مگر کلمات خبہث کی فہرست ہزاروں مردہ کلمات کے ناموں سے بھی پڑی ہے اور تفصیل اس کی بہت لمبی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں تمثیل کے پیرایہ میں اس مضمون کو سمجھا یا گیا ہے جو اوپر آیت 18 میں اس طرح بیان ہوا تھا کہ ” اپنے رب سے کفر کرنے والوں کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا دیا ہو اور بالکل یہی مضمون اس سے قبل سورة الرعد کی آیت 17 میں ایک دوسرے انداز سے سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھاتوں کی تمثیل میں بیان ہوچکا ہے۔ ملاحظہ ہو سورة الرعد آیت 17 اسی جلد کے اندر پیچھے گزر چکا ہے گزشتہ دونوں آیتوں کے مضمون پر ایک نگاہ ڈال لیجئے فرمایا اس عجائب آباد ہستی کا کوئی گوشہ دیکھو تم کو دو طرح کی باتیں نظر آئیں گی۔ ایک کو قرار ہے دوسری کو قرار نہیں۔ ایک میں جمائو ہے دوسری میں جمائو نہیں۔ ایک اس لئے ہے کہ پھلے پھولے۔ دوسری اس لئے ہے کہ پامال ہو پہلی کلمہ طیبہ ہے دوسری کلمہ خبیثہ ہے یعنی پہلی اچھائی ہے ‘ پاکیزگی ہے ‘ نفع و فیضان ہے دوسری برائی ہے ‘ گندگی ہے ضرر و نقصان ہے۔ پہلی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھا درخت۔ اچھے درخت کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں ؟ جڑ کی مضبوطی کہ اکھڑنے والی نہیں ‘ شاخوں کی بلندی کہ جھکنے والی نہیں۔ دوسری کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نکما درخت زمین میں جگہ پکڑ نہیں سکتا ‘ ٹہنیاں معدوم ‘ پھل نابود جب چاہو پکڑ کر کھینچ لو تو ضمنی جڑ سمیت اکھڑ آئے۔ اس کے بعد فرمایا اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو ایمان لاتے ہیں وہ انہیں جمنے والی اور مضبوط باتوں کے ساتھ جمائو دے دیتا ہے ان کی یہ خصوصیت دنیا کی زندگی میں بھی نمایاں ہوتی ہے اور آخرت میں بھی نمایاں ہوگی لیکن جو لوگ ظلم و نافرمانی کی راہ اختیار کرتے ہیں انہیں یہ بات نہیں مل سکتی۔ ان پر جمائو اور استقرار کی راہ بند ہوجاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی ساری باتیں جمائو اور مضبوطی کی باتیں ہوتی ہیں ٹلنے والی ‘ اکھڑ جانے والی اور اپنی جگہ سے ہل جانے والی نہیں ہوتیں۔ ان کا اعتقاد ‘ ان کا عمل ‘ ان کا طور طریقہ ‘ ان کے دلائل و شواہد ‘ ان کے تمام کام القول الثابت ہوتے ہیں اور ان کی مثال شجرۃ طیبہ کی ہوتی ہے لیکن جو لوگ ایمان حق سے محروم ہیں ان کی کوئی بات بھی القول الثابت کی بات نہیں ہو سکتی ان کی مثال شجرہ خبیثہ کی ہوتی ہے کہ مالھا من قرار۔
Top