Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 41
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنٰهُمْ غُثَآءً١ۚ فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَاَخَذَتْهُمُ : پس انہیں آپکڑا الصَّيْحَةُ : چنگھاڑ بِالْحَقِّ : (وعدہ) حق کے مطابق فَجَعَلْنٰهُمْ : سو ہم نے انہیں کردیا غُثَآءً : خس و خاشاک فَبُعْدًا : دوری (مار) لِّلْقَوْمِ : قوم کے لیے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
چناچہ ایک ہولناک آواز نے انہیں آپکڑا اور ہم نے خس و خاشاک کی طرح ان کو پامال کردیا ، محرومی ہو اس گروہ کے لیے کہ ظلم کرنے والا ہے !
ایک سخت چیخ نے انکو ایسا آلیا کہ خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا : 41۔ ایک ہولناک آواز اٹھی اور ان لوگوں کو اس نے اس طرح لپیٹ میں لے لیا کہ اس کا نام ونشان مٹا کر رکھ دیا ۔ (صیحۃ) صاح یصیح صیاحا کے معنی زور سے چیخنے کے ہیں لیکن حقیقت اس کی یہ ہے کہ لکڑی کے چرنے یا کپڑے کے پھٹنے سے جو زور سے جھراٹے کی آواز پیدا ہوتی ہے اس آواز کے نکلنے کو (الصیاح) کہتے اور (صیحۃ) کا لفظ اس سے ہے اور چونکہ زور کی آواز سے اور وہ بھی جب اچانک آئے تو آدمی گھبرا اٹھتا ہے اس لئے یہ لفظ بمعنی گھبراہٹ اور سخت عذاب کے بھی استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم میں یہ لفظ تقریبا تیرہ بار استعمال ہوا ہے (بالحق) سے مراد یہاں وہ وعدہ حق ہے جو تکذیب کی صورت میں بشکل عذاب لازما ظاہر ہونے والا تھا اور جس کی وقت کے رسول نے ان کو یعنی اپنی قوم کے لوگوں کو خبر دی تھی ۔ (غشائ) کا لفظ اس جگہ پہلی بار استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی سیلاب کا کوڑا اور جھاگ کے ہیں اور اس طرح ہانڈی کے جھاگ کو بھی کہا جاتا ہے ۔ سوکھے ‘ سڑے ‘ گلے پتے وغیرہ چیزوں پر بھی بولا جاتا ہے اور اس سے مراد بےسود چیز ہے چونکہ خس و خاشاک بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے اس لئے ہم نے اس کے معنی خس و خاشاک کے کردیئے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کی اس دعا کے بعد ان پر اللہ کا عذاب اس امر واقعی کے ساتھ آدھمکا جس کو لوگ محض دھمکی سمجھ رہے تھے اور ہم نے ان کو ایسے عذاب میں مبتلا کر کے رکھ دیا کہ وہ خس و خاشاک کی طرح ہو کر رہ گئے ” محرومی ہو اس گروہ کے لئے کہ ظلم کرنے والا ہے ۔ “ یہ گویا لعنت و پھٹکار کا جملہ ہے یعنی ایسے ناسمجھوں پر اللہ کی پھٹکار ہو کہ اس کی لعنت کے وہ مستحق ٹھہرے ۔
Top