Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 66
قَدْ كَانَتْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَۙ
قَدْ كَانَتْ : البتہ تھیں اٰيٰتِيْ : میری آیتیں تُتْلٰى : پڑھی جاتی تھیں عَلَيْكُمْ : تم پر فَكُنْتُمْ : تو تم تھے عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ : اپنی ایڑیوں کے بل تَنْكِصُوْنَ : پھرجاتے
میری آیتیں تمہارے آگے پڑھی جاتی تھیں اور تم الٹے پاؤں بھاگنے لگے تھے
تمہارے سامنے تو میری آیات پڑھی گئی تھیں لیکن تم دھیان دینے کے لئے تیار ہی نہ تھے : 66۔ ہماری ہر بات جو ہم کہہ دیتے ہیں بلاشبہ وہ بطور وعدہ ہی ہوتی ہے غور کرو کہ ہم نے فرعون کو کتنی مدت تک ڈھیل دی اور اس کو سمجھانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا گیا لیکن وہ ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہوا ؟ وقت گزرتا رہا اور وہ اپنے تکبر و غرور میں بڑھتا ہی چلا گیا پھر وہ وقت مقرر آگیا جس کا ہم نے اعلان کردیا ہوا تھا اس کا نتیجہ کیا رہا ؟ یہی کہ اس کی پکڑ کا وقت آیا تو وہ لگا گڑگڑانے اور چلا چلا کر کہنے کہ میں بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لایا اور ہم نے اس کو صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ اب ایمان لانے کا وقت جاتا رہا جب ایمان لانے کا وقت تھا تم نے ایک نہ سنی اور نافرمانی پر نافرمانی کرتے چلے گئے اور جب پکڑ کر وقت آیا تو تم نے ایمان کا اعلان کرنا شروع کردیا لیکن اب ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے اور تیرا ہلاک کردینا جو مقرر کردیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا اور یہی حال اس وقت کے متکبرین کا ہوگا کیونکہ یہی ہماری سنت ہے اور ہم کسی کے لئے بھی اپنی سنت کو بدلنے والے نہیں ۔ نکص ینکص کے معنی ایک امر سے پھرنے کے ہیں بلکہ خصوصیت کے ساتھ بھلائی سے پھرنے کو (نکص) کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے مطلب یہ ہے کہ تم کو بھلائی کی طرف بلایا جاتا تھا لیکن تم اس وقت بھلائی سے الٹے پاؤں پھرجاتے تھے ۔
Top