Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 9
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ جو
هُمْ
: وہ
عَلٰي
: پر۔ کی
صَلَوٰتِهِمْ
: اپنی نمازیں
يُحَافِظُوْنَ
: حفاظت کرنے والے ہیں
اور اپنی نمازوں کی حفاظت میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے
ایمان والوں کی چھٹی نشانی نمازوں کی حفاظت قرار دی گئی : 9۔ مومنوں کی فلاح و کامیابی کی صفات کا آغاز خشوع نماز کے ذکر سے کیا تھا اور اختیام بھی اس جگہ نماز ہی کی محافظت و مداومت پر کیا ہے ۔ مقام عبرت ہے کہ جس امت کو انفرادی واجتماعی ہر حیثیت سے فلاح و کامیابی کے لئے نماز کی اس قدر تاکید ہو رہی ہے وہ نماز ہی کی طرف سے اس غفلت میں پڑجائے جس طرح آج قوم مسلم غفلت میں پڑچکی ہے ، نماز کے متعلق ذرا تفصیلی بیان پیش کرنے کا ہم نے وعدہ کیا تھا اس لئے اس جگہ اس کو بیان کرنا بھلا معلوم ہوتا ہے ۔ نماز کے حقیقی معنی کیا ہیں اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ نماز کے لئے اصلی عربی لفظ ” صلوۃ “ ہے صلوۃ کے معنی عربی اور عبرانی زبانوں میں ” دعا “ کے ہیں اس لئے نماز کی لفظی حقیقت اللہ تعالیٰ سے درخواست اور التجا ہے اور اس کی معنوی حقیقت بھی یہی ہے ۔ نبی اعظم وآخر ﷺ نے بھی نماز کی یہی تشریح فرمائی ہے ، معاویہ بن حکم سلمی ایک نومسلم صحابی تھے ان کو اسلام کے جو آداب بتائے گئے ان میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ جب کبھی کسی مسلمان کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اس کے جواب میں تم ” یرحمک اللہ “ کہو۔ ۔ اتفاق سے ایک دفعہ نماز باجماعت ہو رہی تھی ‘ معاویہ بھی اس میں شریک تھے ان کے پاس کسی صحابی کو چھینک آئی انہوں نے نماز کی حالت میں ” یرحمک اللہ “ کہا تو کچھ لوگوں نے ان کو گھورنا شروع کردیا ۔ معاویہ نے نماز ہی میں کہا کہ تم سب مجھے کیوں گھور رہے ہو ۔ صحابہ نے زانو پر ہاتھ مارے اور سبحان اللہ کہا اب وہ سمجھے کہ بولنے سے منع کیا جا رہا ہے ۔ نماز ہوچکی تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ نماز میں کون باتیں کرتا تھا ؟ لوگوں نے معاویہ ؓ کی طرف اشارہ کیا ۔ آپ ﷺ نے ان کو پاس بلا کر نہایت نرمی سے سمجھایا کہ نماز میں قرآن کریم پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے اور اس کی پاکیزگی اور بڑائی بیان کرنے کا نام ہے اس میں انسان کو باتیں کرنا مناسب نہیں (سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ بات تشمیت العاطس فی الصلوۃ) دراصل یہ دو حدیثیں ہیں جن کو یہاں جمع کیا گیا ہے ۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” الدعاء مخ العبادہ “ دعا عبادت کا مغز ہے ۔ اور حضرت نعمان بن بشیر انصاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” الدعا ھو العبادۃ “ دعا ہی اصلی عبادت ہے ۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ کہہ کر کہ تمہارا پروردگار فرماتا ہے ۔ (آیت) ” ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین “۔ (ال مومن 40 : 60) ” مجھ سے دعا مانگو میں قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب جہنم میں داخل کئے جائیں گے ذلیل کرکے “ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بہترین عبادت دعا ہے “ اور اس کے بعد آپ ﷺ نے مذکورہ آیت تلاوت فرمائی ۔ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کے ضمن میں نماز کی حقیقت صرف ایک لفظ میں ظاہر کی گئی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے موسوم کیا گیا ہے چناچہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” اقم الصلوۃ لذکری “۔ (طہ 30 : 14) ” اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ کامیابی اس کے لئے ہے جو اللہ کی یاد کرکے نماز ادا کرتا ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا (آیت) ” قدافلح من تزکی ، وذکر اسم ربہ فصلی “۔ (الاعلی 87 : 14 ‘ 15) ” کامیاب ہوا وہ جس نے پاکیزگی حاصل کی اور اللہ کا نام یاد کیا ‘ پس نماز پڑھی ۔ “ انسان کو اپنی روحانی تڑپ ‘ دلی بےچینی ‘ قلبی اضطراب اور ذہنی شورش کے عالم میں جب دنیا اور دنیا کی ہرچیز فانی ‘ عقل کی ہر تدبیر درماندہ ‘ جسم کی ہر قوت عاجز اور سلامتی کا ہر راستہ بند نظر آتا ہے تو سکون و اطمینان کی راحت اس کو صرف اسی ایک قادر مطلق کی پکار ‘ دعا اور التجاء میں ملتی ہے ، وحی الہی نے اس نکتہ کو ان الفاظ میں ادا کیا : (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “۔ (الرعد 13 : 28) ” ہاں ! اللہ ہی کی یاد سے دل تسکین پاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مصیبتوں کے ہجوم اور تکلیفوں کی شدت کے وقت ثابت قدم اور دعاء ہی چارہ کار بنتے ہیں ۔ (آیت) ” واستعینوا بالصبر والصلوۃ “۔ (البقرہ 2 : 45) ثابت قدمی اور نماز (یا دعائ) کے ذریعہ سے اپنی مصیبتوں میں مدد چاہو۔ زمین سے لے کر آسمان تک کائنات کا ذرہ ذرہ خدائے قادر و توانا کے سامنے سرنگوں ہے ‘ آسمان ‘ زمین ‘ چاند ستارے ‘ دریا ‘ پہاڑ ‘ جنگل ‘ جھاڑ ‘ چرند ‘ پرند سب اس کے آگے سربسجود ہیں اور اس کے مقررہ کردہ احکام وقوانین کی بےچون وچرا اطاعت کر رہے ہیں ‘ یہی ان کی تسبیح و نماز ہے ۔ (آیت) ” وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن الا تفقھون تسبیحھم “۔ (بنی اسرائیل 17 : 44) اور (دنیا میں) کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ وہ اس (اللہ) کی حمد کی تسبیح پڑھتی ہے البتہ تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ (آیت) ” أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَسْجُدُ لَہُ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَن فِیْ الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْْہِ الْعَذَابُ (الحج 22 : 18) ” کیا تو نہیں دیکھتا کہ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور سورج ‘ چاند ‘ ستارے ‘ پہاڑ ‘ درخت ‘ جانور اور بہت سے آدمی اس کو سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے آدمیوں پر اس کا عذاب ثابت ہوچکا (کیونکہ وہ اس کو سجدہ نہیں کرتے تھے) غور کرو کائنات کا ذرہ ذرہ بلا استثناء اللہ کے سامنے سرنگوں ہے لیکن استثناء ہے تو صرف انسان میں کہ بہ تیرے اس کو سجدہ کرتے ہیں اور بہ تیرے اس سے روگرداں ہیں اسی لئے وہ عذاب کے مستحق ہوچکے ‘ انسان کے علاوہ تمام مخلوقات بلا استثناء اطاعت گزار ہے کیونکہ وہ ذاتی ارادہ اور اختیار سے سرفراز نہیں اللہ کے حکم کے مطابق وہ ازل سے اپنے کام میں مصروف ہے اور قیامت تک مصروف رہے گی لیکن انسان ذاتی ارادہ واختیار کا ایک ذرہ پاکر سرکشی اور بغاوت پر آمادہ ہے ‘ اسلام کی نماز انہی سرکش اور باغی انسانوں کو دوسری مطیع وفرمانبردار مخلوقات کی طرح اطاعت وانقیاد اور بندگی اور سرافگندگی کی دعوت دیتی ہے جب دنیا کی تمام مخلوقات اپنی اپنی طرز اور اپنی اپنی بولیوں میں اللہ کی حمد وثنا اور تسبیح وتہلیل میں مصروف ہے تو انسان کیوں نہ اپنے اللہ کی تقدیس کا ترانہ گا کر اپنی اطاعت کا ثبوت پیش کرے اور یہی نماز ہے ۔ نماز کی روحانی غرض وغایت : نماز کی روحانی غرض وغایت یہ ہے کہ اس خالق سے ادا کریں تاکہ نفس وروح اور دل و دماغ پر اس کی عظمت وکبریائی اور اپنی عاجزی وبیچارگی کا نقش بیٹھ جائے ‘ اس کی محبت کا نشہ رگ رگ میں سرایت کر جائے اس کے حاضر وناظر ہونے کا تصور ناقابل زوال یقین کی صورت میں اس طرح قائم ہوجائے کہ ہم اپنے ہر دلی ارادہ ونیت اور ہر جسمانی فعل وعمل کے وقت اس کی ہوشیار اور بیدار آنکھوں کو اپنی طرف اٹھا ہوا دیکھیں ‘ جس سے اپنے برے ارادوں پر شرمائیں اور ناپاک کاموں کو کرتے ہوئے جھجھکیں اور بالآخر ان سے بالکل باز آئیں ‘ صحیحین کی کتاب ال ایمان میں ہے کہ ایک روز آنحضرت ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مجمع میں تشریف فرما تھے ‘ ایک شخص نے سائل کی صورت میں نماز کی حقیقت دریافت کی ’ آپ ﷺ نے اس کی تشریح فرمائی ‘ پھر پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ احسان کیا ہے ؟ فرمایا یہ کہ ” تم اپنے پروردگار کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو ، کیونکہ اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تو تم کو دیکھ رہا ہے “ اسی طرح ایک اور شخص کو نماز کے آداب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ ” نماز کی حالت میں کوئی شخص سامنے نہ تھوے کیونکہ اس وقت وہ اپنے رب کے ساتھ رازونیاز کی باتوں میں مصروف ہوتا ہے ۔ “ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک راجت جب آپ ﷺ اعتکاف میں بیٹھے تھے اور شاید لوگ الگ الگ تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے تو آپ ﷺ نے سر مبارک باہر نکال کر فرمایا لوگو ! نمازی جب نماز پڑھتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے ، اس کو جاننا چاہئے کہ وہ کیا عرض معروض کر رہا ہے ‘ نماز میں ایک دوسرے کی آواز کو مت دباؤ ۔ “ (مسنداحمد ج 2 ص 67 ص 129) ان تعلیمات سے اندازہ ہوگا کہ نماز کی عادت سے ایک مخلص نمازی کی دل و دماغ پر کیسے نفسیاتی اثرات طاری ہوسکتے ہیں اور اس کے اخلاق و عادات پر کتنا گہرا اثر پڑ سکتا ہے ‘ اسی لئے نماز قرآن پاک میں اس نکتہ کی شرح اس طرح کی گئی : (آیت) ” اقم الصلوۃ ان الصلوۃ تنہی عن الفحشآء والمنکر ولذکر اللہ اکبر “۔ (العنکبوت 29 : 45) ” اور نماز کھڑی کیا کر کہ نماز بےحیائی اور برائی کی باتوں سے روکتی ہے اور البتہ اللہ کی یاد سب سے بڑی چیز ہے ۔ اس آیت میں نماز کی دو حکمتیں بیان کی گئی ہیں ‘ ایک تو یہ کہ نماز برائیوں اور بےحیائیوں سے روکتی ہے اور دوسری اس سے بڑھ کر یہ کہ نماز اللہ کی یاد ہے اور اللہ کی یاد سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ‘ بےحیائی اور برائی کی باتوں سے بچنے کا نام تزکیہ اور صفائی ہے یعنی اس سلبی حالت کی ہر ایجابی صورت ہے جس کا حصول انسان کی منزل مقصود اور حقیقی کامیابی ہے ۔ چناچہ فرمایا : (آیت) ” قدافلح من تزکی وذکر اسم ربہ فصلی “۔ (الاعلی 87 : 14 ‘ 15) ” کامیاب ہوا وہ جس نے صفائی حاصل کی اور اپنے پروردگار کا نام لیا پس نماز پڑھی ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کی فلاح اور پاکیزگی کے حصول کی تدبیر یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کا نام لے یعنی نماز پڑھے ‘ اس سے زیادہ واضح یہ آیت پاک ہے ۔ (آیت) ” انما تنذر الذین یخشون ربھم بالغیب واقاموا الصلوۃ ومن تزکی فانما یتزکی لنفسہ والی اللہ المصیر “۔ (فاطر 35 : 18) ” تو انہیں کو ہوشیار کرسکتا ہے جو بن دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور نماز کھڑی کیا کرتے ہیں اور جو تزکیہ اور دل کی صفائی حاصل کرتا ہے ‘ وہ اپنے ہی لئے حاصل کرتا ہے اور (آخر) اللہ ہی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ انسان کو اس کی اخلاقی کمزوریوں سے بچاتی ‘ نفسانی برائیوں سے ہٹاتی اور اس کی روحانی ترقیوں کے درجہ کو بلند کرتی ہے ۔ فرمایا : (آیت) ” ان الانسان خلق ھلوعا ، اذا مسہ الشر جزوعا ، واذا مسہ الخیر منوعا ، الا المصلین ، الذین ھم علی صلاتھم دآئمون “۔ (المعارج 19 : تا 23) ” بیشک انسان بےصبرا بنا ہے جب اس پر مصیبت آئے تو گھبراتا ہے اور جب کوئی دولت ملے تو بخیل ‘ لیکن وہ نمازی (ان باتوں سے پاک ہیں) جو اپنی نماز ہمیشہ ادا کرتے ہیں ۔ آپ نے دیکھا کہ پابندی سے نماز ادا کرنے والے کے لئے قرآن نے کن اخلاقی برکتوں کی بشارت سنائی ہے نماز کے انہی ثمرات اور برکات کی بنا پر ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک تمثیل میں صحابہ کرام سے فرمایا کہ ” اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے ایک صاف و شفاف نہر بہتی ہو جس میں وہ دن میں پانچ دفعہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر میل رہ سکتا ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی نہیں یا رسول اللہ ﷺ ارشاد ہوا کہ ” نماز بھی اسی طرح گناہوں کو دھو دیتی ہے جس طرح پانی میل کو ۔ “ (کنزالعمال ج 4 : ص 67 ‘ 68) ایک دفعہ ایک بدوی مسلمان نے آکر اپنے ایک گناہ کی معافی کی تدبیر پوچھی ‘ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ تفسیر سورة ہود) (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل ان الحسنت یذھبن السیئات ذالک ذکری للذاکرین “۔ (ہود 11 : 114) اور دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ ٹکڑوں میں نماز کھڑی کیا کرو ‘ بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں ‘ یہ نصیحت ہے یاد رکھنے والوں کو ۔ “ اس تفصیل سے ظاہر ہوگیا کہ مذہب اپنے پیروؤں میں جس قسم کے جذبات اور محرکات پیدا کرنا چاہتا ہے ان کا اصلی سر چشمہ یہی نماز ہے جو اپنے صحیح آداب و شرائط کے ساتھ بجا لائی گئی ہو ‘ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نماز کو دین کی عمارت کا اصلی ستون قرار دیا ہے جس کے گر جانے سے پوری عمارت کا گر جانا یقینی ہے ۔ نماز کے لئے کچھ آداب و شرائط کی ضرورت : جس طرح مادی عالم کے کچھ قانون ہیں جن کی پابندی اور رعایت سے ہمارے اعمال کے صحیح نتائج پیدا ہوتے ہیں اسی طرح انسانی کی اندرونی دنیا جس کو مذہب ” قلب کا عالم “ اور فلسفہ نفسیات یا ” دماغی کیفیات “ کہتا ہے اس کے لئے بھی کچھ قانون اور اسباب ہیں جن کی پابندی اور رعایت سے قلب و دماغ اور نفس وروح کے مطالبہ اعمال وافعال سامنے آتے اور ان کے صحیح نتیجے مرتب ہوتے ہیں ‘ سائیکالوجی (علم نفسیات) کے انکشاف اور ترقی نے اب اس گرہ کو بالکل کھول دیا ہے اس نے بتایا ہے کہ ہم اپنے یا دوسروں کے اندر جس قسم کے جذبات اور ولولے پیدا اس گرہ کو بالکل کھول دیا ہے اس نے بتایا ہے کہ ہم اپنے یا دوسروں کے اندر جس قسم کے جذبات اور ولولے پیدا کرنا چاہیں اور ان کو مناسب شکل و صورت اور ماحول (گردپیش) نہ اختیار کریں ‘ تو ہم کو ان کے پیدا کرنے میں کرنا چاہیں اور ان کو مناسب شکل و صورت اور ماحول (گردوپیش) نہ اختیار کریں ‘ تو ہم کو ان کے پیدا کرنے میں کامیابی نہیں ہو سکتی ہمارے تمدنی اور معاشرتی قوانین اسی اصول کے تحت وضع ہوئے ہیں اور اسی اصول کی بنا پر ہر قسم کے مذہبی ‘ سیاسی اور اجتماعی مقاصد کے حصول کے لئے رواجی رسوم وآداب اور قواعد و ضوابط مقرر ہیں ‘ معبدوں ‘ ہیکلوں اور گرجوں میں جہاں مذہبی عظمت و تقدس پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے بچاریوں اور کاہنوں کے خاص لباس ‘ خاص رسوم وآداب ‘ سکون وخاموشی ‘ ادب ولحاظ ‘ گھنٹوں کی پر شکوہ آواز اور نشست وبرخاست کے خاص طریقے ضروری سمجھے گئے ہیں ‘ شاہانہ رعب وداب کے اثرات پیدا کرنے کے لئے شاہی جلوسوں اور سلطانی درباروں میں فوجوں کے پرے قوی ہیکل چوب دار ‘ عصا بردار نقیب وچاؤش ‘ خدام کی زرق برق پوشاکیں ‘ ننگی تلواریں ‘ بلند نیزے ‘ تخت وتاج ‘ علم وپرچم ‘ ماہی مراتب ‘ نوبت ونقارہ اور دمبدم دورباش اور نگاہ روبرو کی پر رعب صدائیں ضروری ہیں ‘ کسی تعلیمی یا علمی میلان پیدا کرنے کے لئے فضا کا سکون وخاموشی مقام کی سادگی وصفائی ‘ شور وغوغا اور شہر وبازار سے دوری ضروری چیزیں ہیں ‘ بزم عروسی کے لئے رنگ وبو ‘ نور و سرور ‘ گانا بجانا اور عیش ونشاط کا اظہار طبعی ہے ۔ انہی طبعی ونفسی اصول کی بنا پر مذہبی اعمال میں بھی ان محرکات وآداب وقوانین کی رعایت رکھی گئی ہے ‘ نماز سے مقصود دل کے خضوع وخشوع ‘ توبہ وانابت ‘ پشیمانی و شرمندگی ‘ اطاعت و بندگی اور اللہ کی عظمت وکبریائی اور اپنی عاجزی ودرماندگی کا اظہار نیز دل و دماغ اور نفس وروح میں پاکی ‘ صفائی اور طہارت پیدا کرنا ہے ‘ اس بنا پر نماز کے لئے بھی ایسے آداب و شرائط اور ارکان مقرر کئے گئے جن سے انسان کے اندر اس قسم کے جذبات کو تحریک اور نشونما ہو۔ مثلا نماز پڑھنے والا یہ سمجھ کر کہ وہ اب شہنشاہ عالم کے دربار میں کھڑا ہے ہاتھ باندھے رہے ‘ نظر نیچی کئے رہے ‘ طورو طریق اور حرکات و سکنات میں ادب واحترام کا لحاظ رکھے ‘ نماز کی جگہ پاک ہو ‘ بدن پاک ہو ‘ کپڑے پاک ہوں ادب سے اس کی بارگاہ میں اپنی دعاؤں اور التجاؤں کو پیش کرے ، اس ظاہری مجموعی ہئیت کا اثر انسان کی باطنی کیفیات پر پڑتا ہے اور اس میں روحانی فیوض وبرکات کی استعداد وصلاحیت پیدا ہوتی ہے ، فرض کیجئے کہ ظاہری صفائی و پاکیزگی کا لحاظ نہ رکھا جائے تو دل کی صفائی و پاکیزگی کا تصور اس کے اندر مؤثر انداز میں کیونکر پیدا ہوگا ‘ یہی نفسی اصول ہے جو انسان کے ہر نظام اور ارادہ میں جاری وساری ہے ۔ اندر بنانے کے لئے باہر کا بنانا بھی ایک حد تک ضروری ہے ۔ اسی اصول کی بنا پر تنہائی کی فرض نمازوں سے جماعت کی نماز اور گھر کی نمازوں سے مسجد کی نماز بہتر ہے کہ جماعت کا ماحول اور مسجد کا منظر دلوں کی کیفیت کو دوبالا کردے گا ، اسی بنا پر تمام بڑے بڑے کاموں میں اجتماعیت اور نظام کی وحدت کا خیال رکھا جاتا ہے ، اسی اصول کے ماتحت سکولوں کی تنظیم اور ان کی درجہ بندی کھیل میں فریقین کی ہم رنگی وہم لباسی ‘ فوجوں میں وردی اور حرکت وعمل کی یکسانی کی ضرورت سمجھی گئی ہے اور یکساں اسلحہ اور ہتھیار اور ہم قدم سکون ورفتار کی بھی ضرورت ہے کہ ان ظاہری محرکات کا اثر پوری جماعت کے اندرونی تخیل پر پڑتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت میں چند اشخاص ایسے ہوں جو اصلی کیفیت سے متکیف ہوں ‘ ان کی یہ حقیقی کیفیت اپنے اثر سے دوسروں کو بھی پر کیف بناتی ہے اور ایک دوسرا اور دوسرے سے تیسرا متاثر ہو کر کم وبیش پوری جماعت متاثر ہوجاتی ہے اس لئے جلسوں میں ایک کی ہنسی سے سب کو ہنسی اور ایک کے رونے سے بہتوں کو رونا آجاتا ہے ‘ نفسیات اجتماع میں یہ مسئلہ پوری طرح واضح ہے ‘ غرض اسی سے اسلام نے اپنی عبادت کے لئے ان طبعی ونفسی اصول کا بڑا لحاظ رکھا ہے ‘ نماز کے آداب ‘ شرائط اور ارکان انہی کا نام ہے ۔ ذکر ودعا وتسبیح کے دو طریقے : یہ بار بار دہرایا جا چکا ہے کہ نماز سے مقصود خضوع وخشوع ‘ ذکر الہی ‘ حمدوثنا ‘ اپنے گناہوں پر ندامت و استغفار اور اسی قسم کے دوسرے پاک جذبات کی تحریک ہے ‘ یہ تمام باتیں درحقیقت انسان کے دل سے تعلق رکھتی ہیں ‘ جن کے لئے ظاہری ارکان کی حاجت نہیں ہے اسی لئے اسلام نے اپنی عبادتوں کی دو قسمیں بیان کی ہیں ‘ ایک تو وہ جن کو انسان ہر حال اور ہر صورت میں کسی قید وشرط کے بغیر ادا کرسکے ، اس کا نام عام تسبیح وتہلیل اور ذکر الہی ہے ۔ جس کے لئے نہ زمانہ کی قید ہے نہ مکان کی شرط ہے نہ اٹھنے بیٹھنے کی پابندی ہے ‘ یہ عبادت ہر لحظہ اور ہر صورت میں انجام پاسکتی ہے ۔ چناچہ اللہ نے فرمایا : (آیت) ” فاذکروا اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبکم “۔ (النسائ : 103) ” پس تم اللہ کو کھڑے ‘ بیٹھے اور لیٹے یاد کرو۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ کے فیض صحبت سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی یہی حالت تھی اللہ نے ان کی مدح فرمائی : (آیت) ” الذین یذکرون اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبھم “۔ (آل عمران : 191) ” جو کھڑے ‘ بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں : دنیاوی مشاغل اور ظاہری کاروبار بھی ان کو اس فرض سے غافل نہیں کرتے ۔ فرمایا : (آیت) ” رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ “۔ (النور : 37) ” ایسے لوگ ہیں جن کو تجارتی کاروبار اور خرید وفروخت کے مشاغل اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتے ۔ نماز متحدہ طریق عبادت کا نام ہے : دوسری عبادت وہ ہے جو خاص شکل و صورت کے ساتھ خاص اوقات میں اور خاص دعاؤں کے ذریعہ سے ادا کی جائے اس کا نام نماز ہے ‘ پہلا طرز عبادت انفرادی چیز ہے اور وہ ہر فرد کے جداگانہ انتخاب پر منحصر ہے اس کو جماعتی حیثیت حاصل نہیں ہے اور نہ اسلام میں اس کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا مسنون بتایا گیا ہے ‘ وہ تنہائی کا راز ہے جس کو اس طرح خاموشی سے ادا کرنا چاہئے کہ ریا اور نمائش کا شائبہ بھی پیدا نہ ہو سکے لیکن دوسری قسم کی عبادات درحقیقت جماعتی صورت رکھتی ہے اور اسی لئے اس کو جماعت کے ساتھ ادا نہ کرے تو اگرچہ وہ ادا ہوجائے گا لیکن جماعت کے ثواب اور برکات سے اس شخص کو محرومی رہے گی ‘ دوسرے لفظوں میں ہم اس کو یوں تعبیر کرسکتے ہیں کہ عام ذکر وفکر اور تسبیح وتہلیل ‘ انفرادی طریقہ عبادت ہے اور نماز ایک جماعتی شعار ہے جو خاص ارکان اور البتہ اگر کسی عذر کی بنا پر جماعت کے ساتھ ادا نہ ہو سکے تو تنہا بھی اس کو ادا کرنا ضروری ہے ، اس کی مثال اس سپاہی کی سی ہے جو کسی منزل میں اپنی فوج سے جس کے ساتھ اس کو چلنا تھا ‘ کسی وجہ سے پیچھے رہ گیا ‘ اب تنہا رہ کر بھی اس کو وہی فرض ادا کرنا ہے جو پوری فوج کے ساتھ اس کو ادا کرنا پڑتا۔ نماز میں نظام وحدت کا اصول : اسلام کے عام فرائض و احکام اور خصوصا نماز اور اس کے متعلقات کی نسبت غور کرتے وقت ایک خاص اصول کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے ، وہی اصول درحقیقت اسلام کا اصلی راز بلکہ سرالاسرار ہے ‘ اسلام کی اصل حقیقت صرف ایک ہے اور وہ ” توحید “ ہے ‘ یہ توحید نہ صرف ایک فلسفیانہ موشگافی اور صوفیانہ نکتہ پروری ہے بلکہ وہ عملی کیفیت ہے جس کو اسلام کے ایک ایک حکم سے آشکارا ہونا چاہئے ‘ اسلام کے دوسرے احکام کی طرح نماز بھی اس حقیقت اور کیفیت کا مظہر ہے ‘ نماز کی ایک ایک حرکت ‘ ایک ایک جنبش ‘ ایک ایک لفظ ‘ ایک ایک اشارہ اور ایک ایک طرز سے اس حقیقت وکیفیت کی تراوش کرنا چاہئے اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک نماز کی کوئی خاص شکل و صورت ‘ آئین و طریق اور سمت ووقت مقرر نہ کیا جاتا ‘ جماعتیں اس کو ایک متحدہ نظام میں ادا نہیں کرسکتی تھیں ‘ ۔ نماز لاکھوں ‘ کروڑوں مسلمانوں پر جنہوں نے دعوت محمدی کو قبول کیا ‘ فرض تھی ۔ اب اگر ان میں سے ہر ایک کو یہ اجازت ہوتی کہ جیسے چاہے ‘ جب چاہے ‘ جدھر چاہے منہ کر کے ادا کرلے تو اسلام کی وحدت کا نظام قائم نہ رہتا اور نہ اس کے دل کی طرح اس کی جسمانی اداؤں سے بھی توحید کا راز آشکارا ہوتا اور نہ کل روئے زمین کے لاکھوں ‘ کروڑوں مسلمان واحد جماعت کی مجسم صورت نہ بن سکتے ۔ غرض اس نظام وحدت کا آشکارا وہویدا کرنا ۔ توحید کا سب سے بڑا رمز اور شعار تھا اور کروڑوں دلوں کو جو کروڑوں اشباح و اجسام میں ہیں ایک متحد جسم اور واحد قالب ظاہر کرنا صرف اسی طرح ممکن ہے کہ ان سے واحد نظام کے ماتحت واحد صورت وشکل میں ‘ واحد اعمال و افعال کا صدور کرایا جائے ، چناچہ انسان کے تمام جماعتی نظامات کی وحدت اسی اصول پر مبنی ہے قوم کی وحدت ‘ فوج کی وحدت ‘ کسی بزم وانجمن کی وحدت ‘ کسی مملکت وسلطنت کی وحدت ‘ غرض ہر ایک نظام وحدت اسی اصول پر قائم ہے اور اسی طرح قائم ہو سکتا ہے ۔ نماز میں جسمانی حرکات : یہ بھی ظاہر ہے کہ نماز کی اصل غرض وغایت چند پاکیزہ جذبات کا اظہار ہے ‘ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب انسان کے اندر کوئی خاص جذبہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے حسب حال اس سے کوئی فعل یا حرکت بھی صادر ہوتی ہے غصہ کی حالت میں چہرہ سرخ ہوجاتا ہے ‘ خوف میں زرد پڑجاتا ہے ‘ خوشی میں کھل اٹھتا ہے ‘ غم میں سکڑ جاتا ہے ‘ جب وہ کسی سے سوال کرتا ہے تو اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیتا ہے ‘ کسی کی تعظیم کرتا ہے تو اس کو دیکھ کر کھڑا ہوجاتا ہے ‘ کسی سے عاجزی کا اظہار کرتا ہے تو اس کے آگے جھک جاتا ہے ‘ اس سے بھی زیادہ اپنا تذلل ‘ فروتنی اور خوشامد مقصود ہو تو منہ کے بل گرتا ہے اور پاؤں پر سررکھ دیتا ہے ، یہ جذبات کے اظہار کے فطری طریقے ہیں جو ہر قوم میں تقریبا یکساں رائج ہیں ‘ اس تشریح کے بعد اب یہ سمجھنا چاہئے کہ جس طرح نماز کی دعائیں انسانی طرز بیان میں ادا کی گئی ہیں اس کے ارکان بھی انسان کے فطری افعال وحرکات کی صورت میں رکھے گئے ہیں ۔ انسان کے قلبی افعال و اعمال کے مظاہر اس کے جسمانی اعضاء ہیں ‘ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ارادہ ونیت اور اس کے دلی جذبات و احساسات کے متعلق اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک اس کے ہاتھ پاؤں اور نیت اور اس کے دلی جذبات و احساسات کے متعلق اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک اس کے ہاتھ پاؤں اور زبان سے ان کے مطابق کوئی عمل یا حرکت ظاہر نہ ہو اگر ایسا نہ ہو تو ہر انسان اپنی نسبت ولایت اور خیر کل ہونے کا دعوی کرسکتا ہے اور سوسائٹی کا کوئی ممبر اس کی تکذیب نہیں کرسکتا لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح سوسائٹی کی بنیاد ہی سرے سے تباہ وبرباد ہوجاتی ہے ‘ اگرچہ انسان کے اندر کی ہرچیز اس طرح اللہ کے سامنے ہے جس طرح باہر کی اور اس لئے اللہ کو ظاہری اعمال کی ضرورت نہیں مگر خود بندوں کو ان کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی ظاہری اور باطنی دونوں حیثیتوں سے عرض والتجا اور تذلل وعاجزی کی تصویر بن جائیں ۔ انسان اپنے جسم اور روح دونوں کے لحاظ سے اللہ کی مخلوق ہے ۔ اس کی زندگی کے دونوں جزء اللہ کے احسانات و انعامات سے یکساں گراں بار ہیں ‘ اس لئے ضرورت ہے کہ اس خالق و رازق اور اس ارحم الراحمین کے سامنے روح اور جسم دونوں جھک کر سجدہ نیاز ادا کریں ۔ غرض یہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر شریعت نے جسم وجان دونوں کو رعایت کرتے ہوئے نماز کے ارکان مقرر کئے ۔ اوپر گزر چکا ہے کہ انسان کے فطری اعمال وحرکات کے قلب میں نماز کا پیکر تیار کیا گیا ہے جسمانی طریقے سے ہم کسی بڑے محسن کی تعظیم اور اس کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار تین طریقوں سے کرتے ہیں کھڑے ہوجاتے ہیں ‘ جھک جاتے ہیں ‘ زمین پر سر رکھ دیتے ہیں ‘ نماز کے بھی یہی تین رکن ہیں ‘ چناچہ آغاز عالم سے انبیاء کرام (علیہ السلام) نے جس نماز کی تعلیم انسانوں کو دی وہ انہیں تین اجزاء سے مرکب تھی ‘ کھڑے ہوجانا (قیام) جھک جانا (رکوع) اور زمین پر سر رکھ دینا (سجدہ) ارکان نماز : معلوم ہوچکا ہے کہ ” نماز “ ملت ابراہیمی کی سب سے بڑی خصوصیت تھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب اللہ کے گھر کی تعمیر وتطہیر کا حکم ہوا تو ساتھ ہی اس کی غرض بھی بتائی گئی ۔ (آیت) ” وطھر بیتی للطائفین والقائمین والرکع السجود “۔ (الحج 22 : 26) ” اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘ کھڑے ہونے والوں ‘ رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک وصاف کر ۔ “ اس حکم میں نماز کے تینوں ارکان قیام ‘ رکوع اور سجود کا مفصل اور بہ ترتیب ذکر ہے ۔ حضرت مریم (علیہا السلام) کا زمانہ سلسلہ اسرائیلی کا آخری عہد تھا ‘ ان کو خطاب ہوا : (آیت) ” یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین “۔ (آل عمران 3 : 43) ” اے مریم ! اپنے رب کے حضور میں کھڑے ہو کر بندگی کر اور سجدہ کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔ اس نماز مریمی میں بھی نماز کے تینوں ارکان موجود ہیں ۔ ان ارکان کی ترتیب : جب کوئی حقیقت تین مرتب ارکان سے مرکب ہو اور ان میں سے ایک کا اول ہونا اور دوسرے کا سب سے مؤخر ہونا ثابت ہوجائے تو تیسرے کا وسط میں ہونا خود بخود ثابت ہوجائے گا ۔ چناچہ نماز کی ہر رکعت قیام ‘ رکوع اور سجود سے مرکب ہے اور قیام کا اول اور سجود کا آخر ہونا قرآن کریم کی حسب ذیل آیت سے ثابت ہے تو رکوع کا ان دونوں کے بیچ میں ہونا خود بخود ثابت ہوجائے گا ۔ (آیت) ” فاذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ فلتقم طآئفۃ منھم معک ولیاخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورآئکم “۔ (النساء 4 : 102) ” جب تو ان میں ہے تو انکے لئے نماز کھڑی کرے تو چاہئے کہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ تیرے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنے ہتھیار لئے رہیں ‘ پھر جب یہ سجدہ کرلیں تو یہ تمہارے پیچھے چلے جائیں ۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ ایک رکعت میں پہلے کھڑا ہونا ہے اور آخر میں سجدہ پر ایک رکعت تمام ہوئی ہے پس لامحالہ رکوع ‘ قیام و سجود کے بیچ میں ہوگا اور ہر رکعت کے ارکان سہ گانہ کی ترتیب یہ ہوگی کہ اول قیام ‘ پھر رکوع پھر سجود۔ تورات کے حوالوں سے بھی نماز کے مختلف ارکان کا پتہ چلتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ مترجموں نے عبرانی اور یونانی لفظوں کے ترجمے اپنے خیالات اور رسم و رواج کے مطابق کردیئے ہیں جن سے حقیقت کے چہرہ پر بڑی حد تک پردہ پڑجاتا ہے بہرحال عبادت اور تعظیم کے یہ تینوں طریقے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت اور انکی نسل میں جاری تھے ذیل میں ہم ان میں سے ہر ایک کا حوالہ تورات کے مجموعہ سے نقل کرتے ہیں : قیام : ” پر ابراہام (ابراہیم علیہ السلام) ہنوز خداوند کے حضور میں کھڑا رہا ۔ “ (پیدائش 18 : 22) رکوع : ” اور (ابراہیم علیہ السلام) زمین تک ان کے آگے جھکا اور بولا اے خداوند ۔ “ (پیدائش 18 : 2) سجدہ : ” اور یہ سن کر خداوند نے بنی اسرائیل کی خبر گیری کی اور ان کے دکھوں پر نظر کی انہوں نے اپنے سر جھکا لئے اور سجدے کئے ۔ “ (خروج 4 : 21) ” تب ابراہام (ابراہیم علیہ السلام) منہ کے بل گرا اور خدا اس سے ہمکلام ہو کر بولا۔ “ (پیدائش 17 : 3) ” تب ابراہام (ابراہیم علیہ السلام) نے اپنے جوانوں سے کہا تم یہاں گدھے کے پاس رہو ۔ میں اس لڑکے کے ساتھ (اپنے فرزند کی قربانی کے لئے) وہاں تک جاؤں گا اور سجدہ کرکے پھر تمہارے پاس آؤں گا ۔ “ (پیدائش 22 : 5) ” تب اس مرد (حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا ایلچی) نے سرجھکایا اور خداوند کو سجدہ کیا اور اس نے کہا میرے خدواندابراہام کا خدا مبارک ہے ۔ “ (پیدائش 24 : 26) ” اور ایسا ہوا کہ جب داؤد (علیہ السلام) پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا جہاں اس نے خدا کو سجدہ کیا ۔ “ (2 سموال 15 : 31) زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں : اور تجھ سے ڈور کر تیری مقدس ہیکل کی طرف تجھے سجدہ کروں گا ۔ “ (زبور 5 : 7) ان حوالوں سے بخوبی ثابت ہے کہ ابراہیمی ملت میں عبادت اور تعظیم الہی کے یہ تینوں ارکان موجود تھے اور اسلام نے اس کی پیروی کی ہے ‘ موجودہ انجیل میں دعا و نماز کا ذکر متی 6۔ 5 ‘ 17 ‘ 21 ‘ 26۔ 36 ‘ مرقس 14۔ 33 ‘ لوقا 22۔ 41 وغیرہ میں ہے ‘ طریقہ نماز میں ایک انجیل میں ایک ہی موقع کے لئے گھٹنا ٹیکنا (جو گویا رکوع ہے) (لوقا 22 : 41) اور دوسری میں (متی 26 : 39) منہ کے بل گرنا یعنی سجدہ کرنا لکھا ہے اور بقیہ انجیلوں میں خاموشی ہے ۔ عہد بعث میں یہود ونصاری میں جو لوگ نماز کے پابند تھے وہ بھی ان ارکان کو ادا کرتے تھے ‘ کھڑے ہو کر توراۃ یا زبور کی آیتیں تلاوت کرتے تھے اور سجدہ بھی کرتے تھے ‘ قرآن پاک کی شہادت ہے : (آیت) ” لیسوا سوآء من اھل الکتب امۃ قائۃ قآئمۃ یتلون ایت اللہ اناء الیل وھم یسجدون “۔ (آل عمران : 113) وہ برابر نہیں ہیں ‘ اہل کتاب میں کچھ ایسے بھی ہیں جو رات کو اللہ کی آیتیں کھڑے ہو کر پڑھتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں ۔ روایات میں ہے کہ رکوع میں رکوع میں یہودیوں کی طرح دونوں ہاتھ جڑے نہ رہیں ۔ (فتح الباری ج 2 ص 227) اس سے معلوم ہوا کہ عرب کے یہود بھی نماز کے یہ مختلف ارکان ادا کرتے تھے ۔ اسلام کی نماز میں انہیں قدیم ارکان اور فطری شکل و صورت کے ساتھ فرض ہوئی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے اب تک چلی آرہی تھی چناچہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مصنفین اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ” اسلامی نماز اپنی ترکیب میں بہت حد تک یہودیوں اور عیسائیوں کی نماز کی مشابہ ہے ۔ “ (ج 4 : 96) اسلام نے صرف یہ کیا کہ اس خزانہ کو وقف عام کردیا ، انسانی آمیزشوں کو نکال کر بھلائے ہوئے فریضوں کو دوبارہ یاد دلایا ۔ مٹے ہوئے نقش کو ابھار دیا ‘ نماز کے بےجان پیکر میں حقیقت کی روح پھونک دی ‘ اس میں اخلاص کا جوہر پیدا کیا ‘ اس کو دین کا ستون بنایا اور اپنی متواتر تعلیم وعمل سے اس کی ظاہری شکل و صورت کو بھی ہر انسانی تغیر سے محفوظ کردیا اس طرح اس نے اس تکمیل کا فرض انجام دیا جس کے لئے وہ ازل سے منتخب تھا ۔ یہ مسئلہ کہ نماز مطلق تسبیح وتہلیل اور ذکر الہی کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ ارکان بھی ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے عمل متواتر کے علاوہ خود قرآن پاک سے بھی ثابت ہے ‘ خوف اور جنگ میں نماز کے قصر اور ارکان کی تخفیف کی اجازت دی گئی ہے اس کے بعد ہے کہ جب خطرہ جاتا رہے تو نماز کو اس طرح ادا کرو جس طرح تم کو سکھایا گیا ہے ۔ (آیت) ” حَافِظُواْ عَلَی الصَّلَوَاتِ والصَّلاَۃِ الْوُسْطَی وَقُومُواْ لِلّہِ قَانِتِیْنَ (238) فَإنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُکْبَاناً فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْکُرُواْ اللّہَ کَمَا عَلَّمَکُم مَّا لَمْ تَکُونُواْ تَعْلَمُونَ (البقرہ : 238 ‘ 239) ” نمازوں کی اور بیچ کی نماز کی نگہداشت کرو اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے ہو ‘ پھر اگر خوف ہو تو پیادہ یا سوار ہو کر (پڑھو) پھر جب خوف جاتا رہے تو اللہ کو ویسے یاد کرو جیسے اس نے تم کو بتایا جو تم نہیں جانتے تھے ۔ “ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس ذکر الہی کا کوئی خاص طریقہ تھا جس کی عملی شکل نماز ہے اور اسی کی تفصیل سورة نساء میں ہے ، اسی طرح جنگ کی نماز میں ایک رکعت امام کے ساتھ باقاعدہ ادا کرنے کے بعد دوسری رکعت کے متعلق کہا گیا ہے : (آیت) ” فاذا قضیتم الصلوۃ فاذکروا اللہ قیاما وقعودا وعلی جنوبکم فاذا اطما ننتم فاقیموا الصلوۃ “۔ (النسائ : 103) ” پس جب نماز (ایک رکعت) ادا کر چکو تو اللہ کو اٹھتے ‘ بیٹھتے اور پہلوؤں پر یاد کرو ۔ پھر جب اطمینان ہوجائے تو نماز کھڑی کرو۔ “ اس آیت میں غور کرنے کی دو باتیں ہیں ‘ اول یہ کہ ایک رکعت جو باقاعدہ ادا ہوئی اس کو (الصلوۃ) (نماز) کہا گیا اور دوسری رکعت جو اللہ کا نام اٹھ کر ‘ بیٹھ کر ‘ جھک کر ‘ لیٹے اور لڑائی ‘ حملہ اور مدافعت کی حالت میں پوری ہوئی اس کو صرف ” ذکر اللہ “ کہا گیا ‘ دوسری بات یہ ہے کہ جنگ کی اس عارضی مخفف نماز کو ” اقامت صلوۃ ‘ (نماز کھڑی کرنا) کے لفظ سے ادا نہیں کیا گیا حالانکہ ذکر الہی ‘ تسبیح وتہلیل اور بعض ارکان بھی اس میں موجود تھے بلکہ یہ فرمایا گیا کہ ” پھر جب اطمینان ہوجائے تو نماز کھڑی کرو۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ اقامت صلوۃ (نماز کھڑی کرنے) کے معنی مطلق ذکر وفکر ‘ تسبیح وتہلیل ‘ حمد وثناء اور تلاوت قرآن سے جدا گانہ ہیں یعنی اقامت صلوۃ کے ضمن میں ذکر وفکر ‘ تسبیح وتہلیل ‘ حمد وثناء اور قرات کے علاوہ کچھ اور ارکان بھی داخل ہیں جو جنگ کی حالت میں کم یا موقوف ہوگئے تھے اور اب اس عارضی مانع کے دور ہوجانے کے بعد پھر بدستور نماز میں ان کی بجا آوری کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ‘ یہی وہ ارکان تھے جن کے متعلق سورة البقرۃ میں یہ کہا گیا تھا کہ جب خوف جاتا رہے تو پھر اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے بتایا ہے ۔ اب ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ اسلام میں نماز کن ارکان کے ساتھ مقرر ہوئی ہے گو اس کے لئے یہ بالکل کافی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تمام عمر خود کس طرح نماز پڑھی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو کس طرح کی نماز سکھائی ؟ کیونکہ نماز کی یہ عملی کیفیت پورے تواتر کے ساتھ اس عہد سے لے کر آج تک موجود ہے اور دوست و دشمن اور مخالف وموافق کو معلوم ہے اور اسلام کے ہر فرقہ میں یکساں طور سے عملا بلا اختلاف مسلم ہے تاہم نظریہ پسند لوگوں کے لئے قرآن پاک سے ان کا ثبوت پہنچا دینا زیادہ مناسب ہوگا ۔ ہم پہلے رب العزت کی بارگاہ میں مؤدب کھڑے ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” حافظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی وقوموا للہ قانتین “۔ (البقرہ : 238) ” نمازوں پر (عموما) اور بیچ کی نماز میں (خصوصا) نگاہ رکھو اور اللہ کے آگے مؤدب کھڑے ہو۔ “ نماز کا آغاز اللہ کا نام لے کر کرتے ہیں کہ : (آیت) ” وذکراسم ربہ فصلی “۔ (الاعلی : 15) ” اور اپنے پروردگار کا نام لیا ‘ پس نماز پڑھی ۔ ّ (آیت) ” وربک فکبر “۔ (المدثر : 3) اور اپنے رب کی بڑائی کر ۔ لفظ (اللہ اکبر) جس کی نماز میں بار بار تکرار کی جاتی ہے اس حکم کی تعمیل ہے ۔ ساس کے بعد اللہ کی حمدوثنا کرتے اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔ (آیت) ” وسبح بحمد ربک حین تقوم “۔ (الطور : 48) ” اور جب تو کھڑا ہو تو اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کر۔ “ پھر قرآن پڑھتے ہیں : (آیت) ” فاقرء وا ماتیسر من القران “۔ (مزمل) قرآن میں سے جتنا ہو سکے پڑھو۔ قرآن کی ان آیتوں میں اللہ کے اسماء اور صفات کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس کی حمد خصوصیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں جس سے اس کی بڑائی (تکبیر) ظاہر ہوتی ہے ۔ (آیت) ” قُلِ ادْعُواْ اللّہَ أَوِ ادْعُواْ الرَّحْمَـنَ أَیّاً مَّا تَدْعُواْ فَلَہُ الأَسْمَاء الْحُسْنَی وَلاَ تَجْہَرْ بِصَلاَتِکَ وَلاَ تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْْنَ ذَلِکَ سَبِیْلاً (110) وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَداً وَلَم یَکُن لَّہُ شَرِیْکٌ فِیْ الْمُلْکِ وَلَمْ یَکُن لَّہُ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْراً (بنی اسرائیل 17 : 110 ‘ 111) ” کہہ اللہ کو پکارو یا رحمن کو پکارو ‘ جو کہہ کر پکارو ‘ سب اچھے نام اسی کے ہیں ‘ اپنی نماز نہ بہت زور سے پڑھ اور نہ بہت چپکے ‘ بیچ کی راہ تلاش کر اور کہہ کر حمد اس اللہ کی جس نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور نہ سلطنت میں کوئی اس کا شیرک ہے اور نہ درماندگی کے سبب سے اس کا کوئی مددگار ہے اور اس کی بڑائی کر ‘ بڑی بڑائی ۔ چونکہ اس کی یہ حمد سورة فاتحہ میں بہ تمام و کمال مذکور ہے اس لئے اس سورة کو ہر نماز میں پہلے پڑھتے ہیں اس کے بعد قرآن میں سے جتنا پڑھنا ممکن اور آسان ہوتا ہے اس کو پڑھتے ہیں ‘ پھر اللہ کے سامنے ادب سے جھک جاتے یعنی رکوع کرتے ہیں ۔ (آیت) ” وارکعوا مع الراکعین “۔ (البقرہ 2 : 43) ” اور رکوع کرنے والے کے ساتھ رکوع کرو ۔ “۔ پھر اس کے آگے پیشانی کو زمین پر رکھ دیتے یعنی سجدہ کرتے ہیں۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا رکعوا وسجدوا واعبدوا ربکم وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون “۔ (الحج : 77) ” اے ایمان والو جھکو (رکوع کرو) اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی پرستش کرو اور نیک کام کرو تاکہ کامیاب ہو ۔ “ ان دونوں (رکوع و سجدہ) میں اللہ کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں ۔ (آیت) ” فسبح باسم ربک العظیم “۔ (الواقعہ : 96) تو اپنے بزرگ پروردگار (رب عظیم) کے نام کی تسبیح کر۔ (آیت) ” سبح اسم ربک الاعلی “۔ (اعلی : 1) ” اپنے برتر رب (رب اعلی) کے نام کی تسبیح کر۔ “ آنحضرت ﷺ کی زبانی تعلیم کے مطابق پہلا حکم رکوع میں اور دوسرا سجدے میں ادا ہوتا ہے ۔ (ابن ماجہ باب التسبیح فی الرکوع والسجود) قیام ‘ رکوع ‘ اور سجود کی یہ ترتیب سورة حج (4۔ ذکر ابراہیم) اور آل عمران (5۔ ذکر مریم) سے اور یہ امر کہ سجدہ پر ایک رکعت تمام ہوتی ہے سورة نساء (15۔ ذکر نماز خوف) سے ثابت ہے ۔ درحقیقت ارکان کی یہ ترتیب بالکل فطری اور عقلی ہے ، پہلے کھڑا ہونا ‘ پھر جھک جانا ‘ پھر سجدے میں گر پڑنا ‘ اس میں خود طبعی اور فطری ترتیب ہے ‘ تعظیم کی ابتدائی اور کثیر الوقوع شکل یہ ہوتی ہے کہ آدمی کھڑا ہوجاتا ہے جب کیفیات اور جذبات میں گہرائی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ جھک جاتا ہے اور جب فرط بےخودی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو اپنے بلند طرین حصہ جسم (یعنی پیشانی) کو اپنے محسن اور معظم کے پاس ترین حصہ جسم (یعنی پاؤں) پر رکھ دیتا ہے ‘ یہی سبب ہے کہ سجدہ نماز کی کیفیات کی انتہائی صورت ہے ، قرآن نے کہا ہے : (آیت) ” واسجدواقترب “۔ (العلق : 19) ” اور سجدہ کر اور قریب ہوجا۔ “ گویا سجدہ قربت الہی کی اخیر منزل ہے شاید اس لئے وہ ہر رکعت میں مکرر ادا کیا جاتا ہے ۔ نماز تمام جسمانی احکام عبادت کا مجموعہ ہے : قرآن پاک کی مختلف آیتوں میں ہم کو مختلف قسم کی جسمانی ‘ لسانی اور قلبی عبادتوں کا حکم دیا گیا ہے ‘ جسم کو ادب سے کھڑا رکھنے ‘ پھر جھکانے اور سرنگوں کرنے کا حکم ہے ، مختلف دعاؤں کے پڑھنے کی تاکید ہے ‘ اللہ کی تسبیح و تمحید کا ارشاد ہے ‘ دعا اور استغفار کی تعلیم ہے ‘ دل کے خضوع وخشوع کا فرمان ہے ‘ رسول پر درود بھیجنے کا امر ہے ‘ اس لئے نماز کی تشکیل اس طرح کی گئی کہ اس ایک عبادت کے اندر قرآن پاک کی تمام جسمانی لسانی اور روحانی عبادتوں کے احکام یکجا ہوگئے ‘ اسی لئے ایک نماز قرآن کے تمام گوناگوں جسمانی ‘ لسانی اور روحانی عبادات کا مجموعہ ہے ‘ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک میں مسلمانوں کو قیام ‘ رکوع ‘ سجود ‘ تہلیل ‘ تسبیح ‘ تکبیر ‘ قراءت قرآن ‘ ذکر الہی اور درود پڑھنے کے جو احکام عطا کئے گئے ہیں ان کی مجموعی تعلیم کا نام نماز ہے ‘ جس میں یہ تمام منفرد احکام مجموعی حیثیت سے انجام پاتے ہیں ‘ دوسری طرف ان احکام کی بجا آوری میں ایک ترتیب پیدا کی گئی ہے کہ اگر وہ نہ ہوتی اور یہ کام ہر انسان کے ذاتی انتخاب پر چھوڑ دیا جاتا کہ جو چاہے رکوع کرے ‘ جو چاہے سجدہ کرے ‘ جو چاہے صرف قیام کرے ‘ جو چاہے زبان ہی سے ذکر وقرات پر اکتفا کرلے اور جو چاہے صرف دل سے دھیان کرلے اسی سے اس کا فرض ادا ہوجائے تو ہر فرد سے فرائض الہی کے متعدد ارکان چھوٹ جاتے جن پر کبھی عمل نہ ہوتا اور عجب نہیں کہ افراد کی طبعی سستی اور سہل انگاری ان پورے احکام کی تعمیل میں مانع آتی سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام مسلمانوں کی عبادت کی واحد اور منظم شکل پیدا نہ ہوتی نہ جماعت ہوسکتی اور نہ نماز کو ایک مذہب کی عبادت خاص کہا جاسکتا اور نہ جماعتی رمز وشعار کی وحدت کی شان اس سے پیدا ہو کر مسلمانوں کو واحد امت بناتی اور بتاتی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ اپنے رسول کو اس عبادت کی عملا تعلیم دی ۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوۃ) اور رسول نے امت کو سکھایا اور امت نے نسلا بعد نسل موجودہ اور آئندہ نسل کو سکھایا اور اس پورے تواتر عمل کے ساتھ جس میں ذرا بھی شک وشبہ نہیں وہ محفوظ ہے ۔ نماز کی دعا : نماز کی مختلف حالتوں میں ان حالتوں کے مطابق مختلف دعائیں پڑھی جاتی ہیں اور پڑھی جاسکتی ہیں ۔ خود آنحضرت ﷺ سے نماز کی مختلف حالتوں کی بیسیوں مختلف دعائیں مروی ہیں اور ہر مسلمان ان میں سے جو چاہے پڑھ سکتا ہے لیکن نماز کی وہ اصلی دعا جس سے ہمارے قرآن کا آغاز ہوتا ہے جس کے نماز میں پڑھنے کی تاکید آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے جس کو آپ ﷺ نے تمام عمر نماز کی ہر رکعت میں پڑھا ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک تمام مسلمان پڑھتے آئے ہیں ‘ وہ سورة فاتحہ ہے جو مقاصد نماز کے ہر پہلو پر حاوی اور محیط ہے اسی لئے وہ اسلام میں نماز کی اصلی دعا ہے ‘ یہ وہ دعا ہے جو خدا نے بندوں کی بولی میں اپنے منہ سے ادا کی ۔ (آیت) ” بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ (1) الْحَمْدُ للّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (2) الرَّحْمنِ الرَّحِیْمِ (3) مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ (4)إِیَّاکَ نَعْبُدُ وإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ (5) اہدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ (6) صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ (7) (الفاتحہ 1 تا 7) ” حمد ہو اس اللہ کی جو سب جہانوں کا پروردگار ہے ‘ رحم والا مہربان ہے ‘ ہمارے عمل کے بدلے کے دن کا مالک (ہے) (اے آقا) ہم تجھی کو پوچتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں تو ہم کو سیدھا راستہ چلا ‘ ان کا راستہ جن پر تو نے فضل کیا ‘ ان کا راستہ نہیں جن پر غضب آیا اور نہ ان کا جو بہک گئے ۔ “ یہ وہ دعا ہے جس کو ہر مسلمان ‘ ہر نماز میں دہراتا ہے جس کے بغیر ہر نماز ناتمام اور ادھوری رہتی ہے ۔ (جامع ترمذی قرات الفاتحہ) یہ دعا اسلام کی تمام تعلیمات کا عطر اور خلاصہ ہے ‘ اللہ کی حمد و ستائش ہے ‘ توحید ہے ‘ اعمال کی جزاوسزا کا یقین ہے ‘ عبادت کے مخلصانہ ادا کا اقرار ہے ‘ توفیق وہدایت کی طلب ہے ‘ اچھوں کی تقلید کی آرزو اور بروں کی پیروی سے بچنے کی تمنا ہے جس وقت اس حمد میں اللہ کی پہلا صفت ” کل جہانوں کا پروردگار “ زبان پر آتی ہے تو اس کی تمام قدرتیں اور بخششیں جو زمین سے آسمان تک پھیلی ہیں سب سامنے آجاتی ہیں ” جہانوں “ کی وسعت کے تخیل سے اس کی عظمت اور کبریائی کی وسعت کا تخیل پیدا ہوتا ہے ۔ ” سارے جہانوں کے ایک پروردگار “ کے تصور سے کل کائنات ہستی کی برادری کا مفہوم ذہن میں آتا ہے ‘ انسان ہوں کہ حیوان ‘ چرند ہوں کہ پرند ‘ پھر انسانوں میں امیر ہوں یا غریب ‘ مخدوم ہوں یا خادم ‘ بادشاہ ہوں یا گدا ‘ کالے ہوں یا گورے ‘ عرب ہوں یا عجم ‘ کل مخلوقات ‘ خلقت کی برادری کی حیثیت سے یکساں معلوم ہوتی ہے ‘ اللہ کو ” رحمن ورحیم “ کہہ کر پکارنے سے اس کی بےانتہا رحمت ‘ بےپایاں شفقت ‘ غیر محدود بخشش اور ناقابل بیان کیف محبت کا سمندر دل کے کو زہ میں موجیں مارنے لگتا ہے ۔ ” روز جزاء کے مالک “ کا خیال ہم کو اپنے اپنے اعمال کی ذمہ داری اور مواخذہ سے باخبر اور اللہ کے جلال وجبروت سے مرعوب کردیتا ہے ” ہم تجھی کو پوجتے ہیں “ کہہ کر ہم اپنے دل کی زمین سے ہر قسم کے شرک کو بیخ وبن سے اکھاڑ دیتے ہیں ” ہم تجھی کو پوجتے ہیں “ بول کر ہم تمام دنیاوی سہاروں اور بھروسوں کو ناچیز سمجھتے اور صرف اللہ کی طاقت کا سہارا ڈھونڈتے ہیں اور سب سے بےنیاز ہو کر اسی ایک کے نیاز مند بن جاتے ہیں سب سے آکر میں ہم اس سے سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق چاہتے ہیں ‘ یہ سیدھی راہ (صراط مستقیم) کیا ہے ؟ اس کی شریعت کے احکام ہیں : (آیت) ” قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْْکُمْ أَلاَّ تُشْرِکُواْ بِہِ شَیْْئاً وَبِالْوَالِدَیْْنِ إِحْسَاناً وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَکُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَإِیَّاہُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ (151) وَلاَ تَقْرَبُواْ مَالَ الْیَتِیْمِ إِلاَّ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ حَتَّی یَبْلُغَ أَشُدَّہُ وَأَوْفُواْ الْکَیْْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ لاَ نُکَلِّفُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَی وَبِعَہْدِ اللّہِ أَوْفُواْ ذَلِکُمْ وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (152) وَأَنَّ ہَـذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہُ (الانعام 6 : 151 تا 153) ” کہہ دے (اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آؤ میں تم کو پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے ‘ یہ کہ اس کے ساتھ شرک نہ کرو۔ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو ‘ غربت کے سبب اپنی اولاد کو قتل مت کرو ‘ ہم تم کو اور ان کو روزی دیتے ہیں ‘ بےحیائی کی باتوں کے نزدیک نہ جاؤ خواہ وہ ظاہر میں (فحش) ہوں یا باطن میں ‘ جس جان کو اللہ نے محترم کیا ہے ، اس کو مت مارو لیکن انصاف کے ساتھ یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے شاید کہ تم سمجھو اور یتیم کے مال کے پاس مت جاؤ لیکن اچھی نیت سے ‘ یہاں تک کہ وہ اپنی قوت کو پہنچ جائے اور ناپ تول کو انصاف کے ساتھ پورا رکھو ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا حکم نہیں دیتے ۔ جب تم بات بولو تو انصاف کی کرو وہ تمہارا عزیز ہی کیوں نہ ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ‘ یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور بےشبہ یہی ہے میرا سیدھا راستہ (صراط مستقیم) تو تم اسی کی پیروی کرو۔ “ ان آیات نے واضح کردیا کہ وحی محمدی کی اصطلاح میں ” صراط مستقیم “ کیا ہے یعنی شرک نہ کرنا ‘ ماں باپ کے ساتھ ‘ نیک سلوک ‘ اولاد کے ساتھ اچھا برتاؤ ‘ ظاہری وباطنی ہر قسم کی برائیوں سے بچنا ‘ معصوم اور بےگناہ جانوں کی عزت کرنا (ناحق قتل نہ کرنا) یتیم کے ساتھ احسان ‘ ناپ تول میں ایمانداری ‘ بلارو ورعایت سچ بولنا اور عہد کا پورا کرنا ‘ یہ وہ صفات عالیہ ہیں جن کو ” صراط مستقیم “ کی مختصر سی ترکیب توصیفی میں ہم اللہ سے روزانہ مانگتے ہیں ‘ جو اخلاق کا جوہر اور نیکی کی روح ہے ۔ یہی وہ صفات حسنہ ہیں جن سے اللہ کے وہ خاص بندے متصف تھے جن پر اس کا فضل وانعام ہوا ‘ یہ خاص بندے کون ہیں ؟ قرآن پاک نے اس کی تشریح بھی خود کردی ہے : (آیت) ” ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبین والصدیقین والشھدآء والصالحین وحسن اولئک رفیقا “۔ (النسائ 4 : 69) ” اور جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلتے ہیں تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جن پر اللہ کا فضل اور انعام ہوا یعنی نبی ‘ صدیق ‘ شہید اور صالح لوگ ‘ ان کی رفاقت کیسی اچھی ہے ۔ “ اس بنا پر ہر نمازی جس صراط مستقیم اور راہ راست کے لئے دعا کرتا ہے وہ نیکی کی وہ شاہراہ ہے جس پر اللہ کے تمام نیک بندے (انبیاء صدیقین ‘ شہدا ‘ اور صالحین) علی قدر مراتب چل سکے ۔ سیدھے راستہ سے ہٹنا دو طرح سے ہوتا ہے (1) افراط (زیادتی) کے سبب سے اور (2) تفریط (کمی) کے سبب سے ‘ افراط یہ ہے کہ اللہ کی شریعت میں ہم اپنی طرف سے بدعتوں کا اضافہ کریں ‘ یہ گمراہی ہے اور تفریط یہ ہے کہ اللہ کے احکام پر عمل چھوڑ دیں ‘ اس سے اللہ کا غضب قوم پر نازل ہوتا ہے اور ہر قسم کا انعام واکرام چھین لیا جاتا ہے ۔ پہلی صورت کی مثال نصاری ہیں جنہوں نے دین میں اپنی طرف سے ہزاروں باتیں اضافہ کردیں ‘ دوسری کا نمونہ یہود ہیں جنہوں نے احکام الہی کو پس پشت ڈال دیا اور ہر قسم کے انعام واکرام سے محروم ہوگئے ‘ مسلمانوں کی دعا یہ ہے کہ الہی ہم کو ان دونوں غلط راستوں کے ذریعہ سے آئی ہوئی دعا کی تاثیری کیفیت ‘ حسن تدبیر ‘ جامعیت ‘ پاکیزگی اور اختصار کا اندازہ ہوگا اور پتہ چلے گا کہ اس کی کیا بےمثالی ہے جس کے سبب سے نمازوں میں پڑھنے کے لئے اسی کا انتخاب ہوا ؟ اسی لئے ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے اس نسبت اپنے ایک صحابی حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا تھا کہ ” نماز میں جو سورة تم پڑھتے ہو یعنی ام القرآن قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ وہ نہ توراۃ میں اتری نہ انجیل میں ‘ نہ زبور میں اور نہ اس کے مثل کوئی دوسری چیز خود قرآن میں موجود ہے ۔ (جامع الترمذی فضائل سورة فاتحہ) اس حدیث کی صحت اور صداقت کا یقین خود ان دعاؤں پر ایک نظر ڈالنے سے ہوگا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نماز کی دعا : تورات کی کتاب الخروج میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تورات لینے اور بانی تجلی کا ایک تماشا دیکھنے کے لئے کوہ طور پر چڑھے اور تجلی نظر آئی تو فورا اللہ کا نام لیتے ہوئے سجدہ میں گر پڑے اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دعا تعلیم کی : ” خداوند ‘ خداوند ‘ خدا رحیم اور مہربان ‘ قہر میں دھیما اور رب الفیض ، وفا ‘ ہزار پشتوں کے لئے فضل رکھنے والا ‘ گناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا لیکن وہ ہر حال میں معاف نہ کرے گا بلکہ باپوں کے گناہ کا بدلہ ان کے فرزندوں کے فرزندوں سے تیسری اور چوتھی پشت تک لے گا ۔ “ (34 : 6) اس دعا کے ابتدائی فقرے اگرچہ نہایت مؤثر ہیں لیکن خاتمہ نہایت مایوس کن ہے پہلے فضل و رحمت کی امید دلا کر آخر میں باب اجابت پر قفل چڑھا دیا ہے ۔ زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی دعا : زبور باب 68 میں ہے : ” اے خداوند ! اپنا کان جھکا اور میری سن کر میں پریشان اور مسکین ہوں ‘ میری جان کی حفاظت کر کہ میں دیندار ہوں ‘ اے تو کہ میرا خدا ہے اپنے بندہ کو کہ جس کا توکل تجھ پر ہے ۔ رہائی دے ‘ اے خداوند ! مجھ پر رحم کر کہ میں تمام دن تیرے آگے نالہ کرتا ہوں ۔ اپنے بندہ کے جی کو خوش کر کہ اے خداوند ! میں اپنے دل کو تیری طرف اٹھاتا ہوں کیونکہ تو اے خداوند بھلا ہے اور بخشنے والا ہے اور تیری رحمت ان سب پر جو تجھ کو پکارتے ہیں ‘ وافر ہے ۔ اے خداوند ! میری دعا سن اور میری مناجات کی آواز پر کان دھر ، میں اپنے بپت کے دن تجھ کو پکاروں گا کہ تو میرے سنے گا ۔ معبودوں کے درمیان اے خداوند تجھ سا کوئی نہیں اور تیری صفتیں کہیں نہیں ‘ اے خداوند ! ساری قومیں جنہیں تو نے خلق کیا آئیں گی اور تیرے آگے سجدہ کریں گی اور تیرے نام کی بزرگی کریں گی کہ تو بزرگ ہے اور عجائب کام کرتا ہے تو ہی اکیلا خدا ہے ۔ اے خداوند ! مجھ کو اپنی راہ دکھا ‘ میں تیری سچائی میں چلوں گا ۔ میرے دل کو یک طرفہ کر تاکہ میں تیرے نام سے ڈروں ‘ اے خداوند ! میرے خدا میں اپنے سارے دل سے تیری ستائش کروں گا اور ابد تک تیرے نام کی بزرگی کروں گا کہ تیری رحمت مجھ پر بہت ہے اور میری روح کو اسفل پاتال سے نجات دے ۔ اے خدا ! مغروروں نے مجھ پر چڑھائی کی ہے اور کٹر لوگوں کی جماعت میری جان کے پیچھے پڑی ہے اور انہوں نے مجھ کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں رکھا لیکن تو اے خداوند ! خدا رحیم وکریم اور برداشت کرنے والا ہے اور شفقت اور وفا میں بڑھ کر ہے ‘ میری طرف توجہ ہو اور مجھ پر رحم کر ‘ اپنے بندہ کو اپنی توانائی بخش اور اپنی لونڈی کے بیٹے کو نجات دے مجھے بھلائی کا کوئی نشان دکھا تاکہ وہ جو میرا کینہ رکھتے ہیں دیکھیں اور شرمندہ ہوں کیونکہ تو نے اے خداوند ! میری مدد کی اور مجھے تسلی دی ۔ “ اس دعا میں بھی وہی خدا کی حمد وصفت اور توحید و عبادت کا ذکر ‘ راہ راست کی ہدایت کی طلب اور شریروں اور گمراہوں سے بچائے جانے کی درخواست ہے ‘ لیکن طول ‘ تکرار اور دعا مانگنے والے کی شخصیت کا رنگ غالب ہونے کے سبب سے یہ ہر انسان کی دعا نہیں بن سکتی اور نہ اس کا طول اس کو ہر وقت کی نماز میں پڑھے جانے کی سفارش کرتا ہے ۔ انجیل میں نماز کی دعا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حورایوں کو دعا اور نماز کے آداب بتا کر یہ دعا تعلیم کرتے ہیں : ” اے ہمارے باپ ! جو آسمان پر ہے تیرا نام مقدس ہو ‘ تیری بادشاہت آوے ‘ تیری مرضی جیسی آسمان پر ہے زمین پر بھی پوری ہو ۔ ہماری روز کی روٹی آج ہمیں دے اور ہمارے قرض ہمیں معاف کر جیسے ہم بھی اپنے قرضداروں کو معاف کرتے ہیں اور ہمیں آزمائش میں مت ڈال بلکہ برائی سے بچا کیونکہ بادشاہت اور قدرت اور جلال ہمیشہ تیرا ہی ہے ۔ “ آمین۔ نام کی تقدیس (اللہ کی حمد) بادشاہت کے آنے سے مقصود شاید قیامت اور اعمال کے فیصلہ کا دن ہے جو دعائے قرآنی میں (مالک یوم الدین) کے لفظ سے ادا ہوا ہے ‘ نیز استعارہ کی زبان میں ” روز کی روٹی “ سے مراد دنیاوی روٹی نہ لی جائے بلکہ روح کی غذا یا صراط مستقیم لی جائے اور ” قرض “ سے مراد فرائض اور حقوق لئے جائیں جو اللہ کی طرف سے انسانوں پر عائد ہیں ۔ ” آزمائش “ میں نہ پڑنے اور ’ برائی “ سے بچنے کے معنی وہی لیے جاسکتے ہیں جو اسلامی دعا کے خاتمہ میں مذکور ہے کہ ” نہ ان کا راستہ ہے جن پر تیرا غضب آیا اور جو سیدھے راستہ سے بہک گئے ہیں ۔ “ اس تشریح سے مقصود یہ ہے کہ یہ چاروں دعائیں جو چار اولوالعزم پیغمبروں کی زبان نبوت سے ادا ہوئیں ‘ کسی قدر معنوی اشتراک کی وجہ سے باہم وہی نسبت رکھتی ہیں جو تکمیل دین کے مختلف مدارج میں کسی کو نظر آسکتی ہے ‘ دعائے محمدی تکمیلی شکل کی آئینہ دار ہے ‘ وہ مختصر ہے ‘ تاثیر سے لبریز ہے ‘ خدا کی تمام صفات کاملہ کا مرقع ہے ‘ تمام مقاصد اور احکام شریعت کی جامع ہے ‘ اس کے الفاظ میں ایسی عالمگیری ہے جو ہر وقت اور ہر حالت میں ہر انسان کے دل کی نمائندگی کرسکتی ہے ، وہ ایسے استعارات سے پاک ہے جو ظاہر بینوں کی لغزش کا باعث ہوں اور اللہ کو انسانوں سے رحم وکرم کی صفت ” قرض “ لینے پر آمادہ کرتے ہوں ‘ نیز وہ اللہ کی رحمت عام کو ایسے عنوان سے ادا کرتی ہے جس میں کائنات کا ایک ایک ذرہ داخل ہے ۔ اللہ کی وہ تین صفتیں جن کا تصور کئے بغیر اللہ کا تصور پورا نہیں ہو سکتا یعنی (ربوبیت ‘ رحمت اور مالکیت) یہ سورة ان سب کی جامع ہے ‘ ربوبیت میں وہ تمام صفتیں داخل ہیں جن کا تعلق پیدائش سے لے کر موت کت ہر مخلوق کے ساتھ قائم رہتا ہے ‘ رحمت اس کی وہ عالمگیر صفت ہے جس میں اس کی تمام جمالی صفتوں کی نیرنگیاں ظاہر ہوتی ہیں ‘ مالکیت اس کی تمام جلالی صفتوں کا مظہر ہے اور پوری سورة دعا کے اغراض ثلاثہ حمد ‘ اچھائیوں کے لئے درخواست اور برائیوں سے بچانے کی التجا پر مشمل ہے ، طرز بیان اللہ اور بندہ کے شایان شان ہے ‘ درخواستیں حد درجہ مؤدبانہ ہیں ‘ اوصاف الہی وہی ہیں جو ایک دعا کے مناسب ہو سکتے ہیں ‘ دعا میں محموم ہے وہ ذاتیات تک محدود نہیں ہے ‘ للہیت اور روحانیت کا کمال ‘ منتہائے نظر ہے ‘ اس لئے دنیاوی چیزوں کا ذکر نظر انداز کیا گیا ہے ‘ اللہ کے اوصاف اور بندہ کی التجاؤں میں کمیت اور کیفیت دونوں حیثیتوں سے تناسب موجود ہے یعنی دونوں حصوں نے مناسبت کے ساتھ جگہ گھیری ہے اور دونوں ٹکڑوں کے مضامین میں ربط اور تعلق قائم ہے ‘ اللہ کے عظمت و جلال ‘ رحم وکرم ‘ قدرت و شوکت ‘ شفقت ورافت اور بندہ کے خشوع و خضوع ‘ بلند حوصلگی صداقت طلبی کا ایسا جامع ‘ مختصر اور پراثر بیان ‘ سورة فاتحہ کے سوا اور کہاں مل سکتا ہے ۔ نماز کے لئے تعیین اوقات کی ضرورت : نماز کے سلسلہ میں اسلام کا ایک اور تکمیلی کارنامہ اوقات نماز کی تعیین ہے ‘ ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی کام وقت اور زمانہ کی قید سے آزاد نہیں ہو سکتا اس لئے کسی کام کے کرنے کے لئے وقت سے بےنیازی ممکن نہیں ‘ اب سوال یہ ہے کہ کیا نماز کے لئے خاص خاص اوقات کی تعیین ضروری ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ جس دین کامل کو لے کر مبعوث ہوئے اس کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عملی ہے ‘ محض نظری نہیں ‘ اس نے نماز کی تعلیم دی تو محض اصول اور نظریات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ انسان روزانہ مختلف اوقات میں اس فرض کو ادا بھی کرے ‘ انسان کی نفسی (سائیکلولاجیکل) خصوصیت یہ ہے کہ جو کام مداومت کے ساتھ اس کو کرنا ہوتا ہے جب تک وہ اس کے اوقات نہ مقرر کرلے کبھی وہ اس کو مستعدی کے ساتھ بلاناغہ انجام نہیں دے سکتا اسی لئے ہر منظم ‘ باقاعدہ اور دائمی عمل کے لئے اوقات کی تعیین ضروری ہے اور یہی طریقہ تمام دنیا نے اپنے باقاعدہ اور منظم کاموں کے لئے اختیار کیا ہے ‘ اس میں اصلی راز یہ ہے کہ جب انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کو کسی کام کے کرنے کے لئے 24 گھنٹوں کی مہلت ہے تو وہ ہمیشہ سستی اور کاہلی سے اس کام کو ایک وقت سے دوسرے وقت پر ٹالتا جاتا ہے یہاں تک کہ دن تمام ہوجاتا ہے اور آخر گھڑی بھی گزر جاتی ہے اور وہ اس کام کو انجام نہیں دیتا لیکن جب کاموں کے لئے اوقات متعین ہوجاتے ہیں تو ہر مقررہ وقت کی آمد انسان کو اس وقت کا کام یاد دلاتی ہے اور وہ وقت گزرنے نہیں پاتا کہ دوسرے کام کا وقت آجاتا ہے ‘ اس طرح وقت کافرشتہ ہر وقت انسان کے فرائض کو یاد دلاتا رہتا ہے اور تمام کام پابندی کے ساتھ بلاناغہ انجام پاتے جاتے ہیں ۔ اوقات نماز کے تقرر میں وہ چیز بھی مدنظر ہے جس کا ذکر پہلے آچکا ہے یعنی اصول وحدت جو اسلام کا اصلی رمز اور شعار ہے ‘ مسلمان مختلف شہروں ‘ ملکوں اور اقلیموں میں ہزاروں ‘ لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں آباد ہیں مگر یہ کثرت ایک خاص وقت اور ایک خاص حالت میں وحدت کا مرقع بن جاتی ہے ۔ کرہ ہوا میں لگی ہوئی دوربین سے اگر زمین کی طرف دیکھو تو ایک خاص وقت میں لاکھوں ‘ کروڑوں انسانوں کو ایک ہی وضع میں ‘ ایک ہی شکل میں خالق عالم کے سامنے سرنگوں پاؤ گے اور جہاں تک مطلع ومغرب میں نمایاں فرق نہ ہوگا یہی منظر آنکھوں کے سامنے رہے گا ‘ مختلف ملکوں میں طلوع و غروب کا اختلاف اگر اس وحدت کے رنگ کو کامل نہیں ہونے دیتا ‘ تو کم از کم اتنی وحدت تو یقینی ہے کہ جس وقت جس حالت میں ایک جگہ آفتاب ہوتا ہے جب دوسری جگہ بھی اسی حالت میں ہوتا ہے تو نماز کا فرض اس وقت وہاں ادا ہوتا ہے ، یہ وحدت ظاہر ہے کہ اوقات کے تقرر کے بغیر ممکن نہ تھی ‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو صفحہ ارضی تو کجا ایک محلہ اور ایک گھر کے مسلمان بھی ایک جگہ اور ایک حالت میں نظر نہیں آسکتے تھے ۔ (آیت ھذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ ہو۔۔۔ )
Top