Urwatul-Wusqaa - Al-Muminoon : 10
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْوٰرِثُوْنَ : وارث (جمع)
تو یقینا ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنا ورثہ پانے والے ہیں
(سابقہ آیت کی تفسیر ) نماز کے اوقات دوسرے مذہبوں میں : اسی لئے اوقات کے تقرر اور تعیین کی اس مصلحت کو دنیا کے تمام مذہبوں نے یکساں تسلیم کیا ہے اور اپنے اپنے نطریوں اور اصولوں کے مطابق عبادتوں کے مختلف اوقات مقرر کر رکھے ہیں ‘ ہندو آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت پوجا پاٹ کرتے ہیں ‘ زردشتی صرف طلوع آفتاب کے وقت زمزمہ خواں ہوتے ہیں ۔ رومن کیتھولک عیسائی صبح کو طلوع آفتاب سے پہلے ‘ پھر شام کو ‘ پھر رات کو سوتے وقت دعا مانگتے ہیں ‘ یہودیوں میں تین وقت کی نمازیں ہیں جن کو ” تفلا “ کہتے ہیں ‘ دانیال نبی کی کتاب میں ہے : ” جب دانیال کو معلوم ہوا کہ نوشتہ پر دستخط ہوگئے تو وہ اپنے گھر آیا اور اپنی کو ٹھری کا دروازہ جو بیت المقدس کی طرف تھا ‘ کھول کر اور دن بھر میں تین مرتبہ گھنٹے ٹیک کر خدا کے حضور میں جس طرح سے پہلے کرتا تھا دعا اور شکر گزاری (حمد) کرتا رہا۔۔۔۔ پر ہر روز وہ تین بار دعا مانگتا ہے ۔ “ (6۔ 10 تا 13) حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں ان تین وقتوں کی تعیین ان لفظوں میں ملتی ہے : ” پر میں خدا کو پکاروں گا ‘ تب خدا مجھے بچا لے گا ‘ شام کو اور صبح کو اور دوپہر کو میں فریاد کروں گا اور نالہ کروں گا سو وہ میری آواز سن لے گا ۔ “ (55۔ 16 ‘ 17) اسلامی اصطلاح میں ہم ان کو فجر ‘ ظہر اور مغرب کی نمازیں کہہ سکتے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دعاؤں اور نمازوں کی اہمیت اور زیادہ بڑھائی ‘ لوقا کی انجیل میں ہے : ” پھر اس نے (حضرت عیسیٰ نے) اس غرض سے کہ ہر وقت دعا کرتے رہنا اور ہمت نہ ہارنا چاہئے ان سے یہ تمثیل کہی ۔ “ تمثیل (18 : 1) میں درج ہے : حواریوں کے اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں بھی نماز کے کچھ اوقات وہی تھے جو یہودیوں میں تھے اور کچھ اور زیادہ تھے ‘ ظہر کی نماز ان کے ہاں بھی تھی چناچہ اعمال میں ہے : ” پطرس دوپہر کے قریب کو ٹھے پر دعا مانگنے گیا ۔ “ (اعمال 10 : 9) ” پس پطرس اور یوحنا ایک ساتھ دعا کے وقت تیسرے پہرہیکل کو چلے ۔ “ (اعمال 3 : 1) یونانی میں تیسرے پہر کے بجائے ” نویں گھڑی کو “ لکھا ہے ‘ جس کو ہم عصر کہتے ہیں ‘ پھر اسی وقت کی نماز کا ذکر اعمال 10 : 30 میں بھی ہے ۔ ایک دفعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کسی شاگرد نے نماز کی خاص دعا دریافت کی ‘ آپ نے بتائی اور فرمایا کہ دعا کا بہترین وقت آدمی رات ہے ۔ ” اور ایسا ہوا کہ وہ ایک جگہ دعا مانگ رہا تھا ‘ جب مانگ چکا ‘ ایک نے اس کے شاگردوں میں سے اس سے کہا کہ اے خداوند ہم کو دعا مانگنا سکھا ‘ جیسا کہ یوحنا (حضرت یحییٰ علیہ السلام) نے اپنے شاگردوں کو سکھایا اس نے ان سے کہا جب تم دعا مانگو تو کہو ۔۔۔۔ اس نے ان سے کہا ‘ تم میں سے کون ہے جس کا ایک دوست ہو اور وہ آدمی رات کو اس کے پاس آکے کہے اے دوست ! مجھے تین روٹی ادھار دے ۔ “ (لوقا : 11) اس تمثیل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے رات کی نماز کی تعلیم دی ہے چناچہ جس شب کو انہوں گرفتار کیا گیا وہ ایک جماعت کے ساتھ اسی نماز تہجد میں مصروف تھے۔ (لوقا 22 : 939 صبح کی نماز کا ذکر بھی انجیل میں موجود ہے ، مرقس کے پہلے باب کی 35 آیت میں ہے ” اور بڑے تڑکے پو پھٹنے سے پہلے وہ اٹھ کے نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دعا مانگی بلکہ عربی ترجمہ سے جو براہ راست یونانی سے ہوا ہے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دواما اس وقت نماز پڑھا کرتے تھے چناچہ اس میں اس آیت کا عربی ترجمہ یہ ہے ” وفی الصبح باکراقام وخرج الی موضع خلاء وکان یصلی ھناک “ یعنی وہ وہاں نماز پڑھا کرتے تھے ۔ اب ان اوقات کو جو یہودی اور عیسوں کتابوں میں مذکور ہیں ہم جمع کرلیں تو وہی اسلامی نماز کے اوقات ہوجائیں گے جن میں سے صبح (فجر) دوپہر (ظہر) اور شام (مغرب) کا ذکر زبور (55۔ 16 ‘ 17) میں صبح کا مرقس (1۔ 35) میں ‘ عصر کا اعمال (3۔ 1 ‘ 10۔ 3 ‘ 30) میں ہے اور عشاء (رات) کی نماز کا لوقا (11 ‘ 22 ‘ 39) میں !۔ نماز کے لئے مناسب فطری اوقات : اصل یہ ہے کہ حق تو یہ تھا کہ انسان بھی فرشتوں کی طرح شب وروز صرف دعا و نماز میں مصروف رہتا مگر انسان کی فطری ونوعی ضرورتوں کے سبب سے ایسا ہونا ممکن اور ممکن اور مناسب نہ تھا اس لئے شریعت نے اس کی تلافی اس طرح کی کہ اس کے لئے چند مناسب اوقات مقرر کردیئے ‘ ہر انسان ہر روز مختلف قسم کے کاموں میں اپنی عمر کے یہ 24 گھنٹے بسر کرتا ہے ‘ صبح کو بیدار ہوتا ہے ‘ دوپہر تک کام کرکے تھوڑی دیر سستاتا ہے ‘ پھر سہ پہر تک وہ اپنا بقیہ کام انجام دیتا ہے اور اس کو تمام کرکے سیروتفریح اور دلچسپ مشاغل میں دل بہلاتا ہے ‘ شام ہوتی ہے تو گھر آکر خانگی زندگی کا آغاز کرتا ہے اور کھا پی کر تھوڑی دیر کے بعد طویل آرام اور غفلت کی نیند کے لئے تیار ہوتا ہے ‘ اسلامی نمازوں کے اوقات پر ایک غائر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے روزانہ کے ان مختلف انسانی مشاغل کے ہر آغاز پر ایک وقت کی نماز رکھی ہے تاکہ پورے اوقات خدا کی یاد ہی میں محسوب ہوں ‘ نور ظہور کے وقت جب صبح کی نسیم سحری حی علی الصلوۃ کا نغمہ جانفزا سناتی ہے اور ہر شے کی زبان سے عالم کے صانع کی تسبیح وتحمید کا ترانہ بلند ہوتا ہے ، تو یہ وقت غافل انسانوں کے سرجھکانے کے لئے بھی نہایت موزوں ہے کہ کتاب زندگی میں حیات امروزہ کا ایک نیا ورق اس وقت کھلتا ہے ‘ اس لئے مناسب ہے کہ اس دن کے کارناموں کی لوح پر سب سے پہلے سجدہ نیاز کا طغرا نقش ہو۔ اس کے بعد انسان اپنی محنت ومشقت کا آغاز کرتا ہے اور دوپہر تک اس میں مصروف رہتا ہے ‘ دوپہر کا روزانہ کاروبار کا نصف حصہ ختم کرکے آدمی تھوڑی دیر کے لئے آرام کرتا ہے ‘ اس موقع پر بھی اس کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ دن کا آدھا کام بخیر و خوبی ختم ہوگیا ، پھر سہ پہر کے بعد جب اپنے اس دن کا کام ختم کرکے سیروتفریح اور ذاتی آرام کے کام شروع ہوتے ہیں تو یہ وقت بھی ایک دفعہ اللہ کا نام لینے کا ہے ‘ اس کے بعد شام ہوتی ہے اور دنیا کے انقلاب کا دوسرا منظر پیش کرتی ہے ‘ دن بھر کے کاموں کے بعد اب آرام و سکون کا دور شروع ہوتا ہے اس لئے ضرور ہے کہ اس کا سرنامہ بھی عبودیت کا سجدہ ہو۔ پھر سوتے وقت جب انسان اپنی بااحساس زندگی سے کچھ دیر کے لئے بیخبر ہونے لگتا ہے تو مناسب ہے کہ وہ اللہ کا نام لے کر اس جہان سے بیخبر ہو ‘ کیونکہ اسے کیا معلوم کہ اس وقت کی ان بند ہونے والی آنکھوں کو پھر کبھی کھلنا بھی نصیب ہوگا ‘ اسی طرح آخر عمر تک روزانہ کام کے یہ پہئے اپنی جگہ پر گھومتے رہتے ہیں۔ صبح سے دوپہر تک انسان کی مصروفیت کے اصلی گھنٹے ہیں ‘ اسی لئے صبح سے زوال تک کوئی فرض نماز نہیں رکھی گئی ‘ اسی طرح عشاء سے لے کر صبح تک کوئی فرض نماز نہیں ہے یہ وقت صرف خواب راحت کے لئے موزوں ہے ۔ ان خاص اوقات کو چھوڑ کر بقیہ اوقات تمام ترانسان کے کام ہیں ‘ انہیں کام کے اوقات کے شروع میں نماز پنچ گانہ مقرر ہوئی ہے ۔ اسلامی اوقات نماز میں ایک نکتہ : اوقات نماز کی تعین میں اسلام کے لئے ایک اور اصول کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری تھا ‘ دنیا کے مشرکانہ مذاہب کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے شرک کا سب سے بڑا مظہر جسد کائنات کا سب سے زیادہ تابناک چہرہ (آفتاب) ہے ‘ ہندوستان ‘ ایران ‘ بابل ‘ عرب ‘ مصر ‘ شام ‘ روم ‘ یونان ‘ ہر جگہ سورج کی پرستش کی جاتی تھی ‘ جس کی روشنی قلوب انسانی کی تاریکی کا سب سے بڑا سبب بنتی تھی ‘ آفتاب پرست قوموں میں آفتاب کی پرستش کے خاص اوقات مقرر تھے ‘ جب وہ صبح کو اپنے شاہانہ جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوتا ہے پھر جب وہ آہستہ آہستہ مملکت نیمروز کو فتح کر کے دنیا پر اپنے فاتحانہ تسلط کا اعلان کرتا ہے ‘ پھر شام کو جب وہ عالم کائنات سے رخصت ہو کر نقاب شب میں اپنا چہرہ چھپا لیتا ہے۔ سب سے پہلا موحد جس نے آفتاب پرستی گل کیا حضرت ابراہیم خلیل اللہ تھے ( سورة الانعام : 19) ملت ابراہیمی میں نماز کے وہ اوقات مقرر کئے گئے ‘ جب ستارہ پرستوں کے خدائے اعظم (آفتاب) کے ظہور اور عروج کا نہیں بلکہ اس کے زول اور غروب کا وقت ہوتا ہے تاکہ یہ اوقات خود زبان حال سے شہادت دیں کہ یہ آفتاب پرستی کے باطل عقیدہ کے خلاف اس خدائے برحق کی عبادت ہے جس کے آستانہ کمال کے سجدہ سے خود آفتاب کی پیشانی بھی داغ دار ہے ‘ دین محمدی ‘ ملت ابراہیمی کا دوسرا نام ہے ‘ اس لئے اس میں بھی نماز کے اوقات وہی رکھے گئے جو ملت ابراہیمی میں تھے ، دن نکلنے سے پہلے جب باطل پرستی کا یہ دیوتا (آفتاب) پردہ عدم میں روپوش ہوتا ‘ دوپہر کے بعد جب یہ اپنے انتہائی عروج کو پہنچ کر انحطاطا اور تنزل کی طرف جھکتا ہے اس انحطاط اور تنزل کے بھی دو تین دور ہوتے ہیں جب سر (سمت الراس) سے نیچے اترتا ہے ‘ جس کو زوال کہتے ہیں جب آنکھوں کے دائرہ تقابل سے نیچے اترتا ہے جس کو عصر کہتے ہیں اور پھر جب دائرہ نظر (افق) سے نیچے گرتا ہے جس کو مغرب کہتے ہیں ‘ آفتاب کے ان تینوں اوقات انحطاط میں ایک ایک نماز ادا ہوتی ہے ‘ خوب اچھی طرح ڈوبنے کے بعد جب وہ تاریکی کی قبر میں مدفون ہوجاتا ہے اس وقت عشاء کی نماز ادا کی جاتی ہے ‘ اسی لئے قرآن پاک میں نماز کے اوقات کے ذکر میں آفتاب کے ڈھلنے اور تاریک ہونے کا خاص طور سے ذکر آیا ہے ۔ (آیت) ” اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الی غسق الیل وقران الفجر “۔ (بنی اسرائیل : 78) ” نماز کھڑی کر آفتا کے انحطاط کے وقت ‘ رات کی تاریکی تک (ظہر ‘ عصر ‘ مغرب ‘ عشاء ‘ اور فجر کی نماز ۔ “ غرض یہی سبب ہے کہ اسلام میں کوئی فرض نماز صبح سے دوپہر تک نہیں رکھی گئی کہ یہ آفتاب کے عروج کا وقت ہے بلکہ تمام نمازیں آفتاب کے ہر تدریجی انحطاط ‘ تنزل اور روپوشی کے اوقات میں ہیں ‘ نیز یہی سبب ہے کہ اسلام میں آفتاب نکلتے وقت ‘ اس کے عروج و کمال کے وقت اور اس کے ٹھیک ٹھیک غروب کے وقت نماز پڑھنا منع ہے کہ یہ آفتاب پرستوں کی عبادت کے خاص اوقات ہیں ۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ الاوقات التی نہی عن الصلوۃ فیھا) اسلام میں طریق واوقات نماز : نماز کس طرح اور کن کن اوقات میں اور کتنی کتنی رکعتیں کرکے پڑھنی چاہئے اور اس کے کیا کیا آداب و شرائط ہیں ‘ ان سب کے لئے قرآن پاک میں ایک جامع آیت ہے جو لڑائی کی حالت میں نماز ادا کرنے کی تفصیل کے سلسلہ میں مذکورہ ہے ۔ (آیت) ” حافظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی وقوموا للہ قانتین ، فان خفتم فرجالا اور کبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علمکم مالم تکونوا تعلمون۔ (البقرہ : 238) ” نمازوں پر اور بیچ کی نماز پر پابندی کرو اور اللہ کے لئے (نماز میں) ادب سے کھڑے ہو ‘ پھر اگر (دشمنوں کا) خوف ہو تو پیادہ ہو کر یا سوار ہو کر (نماز پڑھو) پھر جب تم کو امن ہوجائے تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا جس سے تم پہلے واقف نہ تھے ۔ “ اس آیت پاک سے یہ بات بتصریح ظاہر ہوتی ہے کہ ان باتوں کی کہ ہم کو نماز کس طرح اور کن اوقات میں اور کتنی رکعتوں کے ساتھ پڑھنی چاہئے ‘ خود اللہ تعالیٰ نے اسی طرح تعلیم فرمائی ہے ‘ جس طرح خود قرآن پاک کی اس اجمال کی تفصیل سنت نبوی کے ذریعہ احادیث میں تحریرا اور مسلمانوں کے نسلا بعد نسل متفقہ تواتر عمل میں عملا موجود ہے اور قرآن پاک میں اس کے علمی حوالے اور متعلقہ احکام مذکور ہیں ۔ نمازوں کی پابندی ونگرانی : اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہم نمازوں کی پابندی سے ادا کریں ‘ ان کی نگہداشت رکھیں اور ان پر مداومت کریں ۔ قرآن پاک میں نماز کی پابندی ‘ نگہداشت اور مداومت کے لئے ایک خاص لفظ ” محافظت “ کا استعمال کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی نگرانی کے ہیں اور جس کی وسعت میں پابندی سے ادا کرنا وقت پر ادا کرنا اور بشرائط ادا کرنا سب داخل ہیں ‘ فرمایا : (آیت) ” حافظوا علی الصلوت) (البقرہ : 238) نمازوں کی نگرانی رکھو ، (آیت) ” والذین ھم علی صلاتھم یحافظون “۔ (المعارج : 29) اور جو اپنی نماز کی نگرانی رکھتے ہیں ۔ (آیت) ” والذین ھم علی صلوتھم یحافظون “۔ (المومنو : 9) اور جو لوگ اپنی نمازوں کی نگرانی رکھتے ہیں۔ (آیت) ” وھم علی صلاتھم یحافظون “۔ (الانعام : 92) اور وہ اپنی نماز کی نگرانی رکھتے ہیں۔ ایک آیت میں یہ بھی فرمایا : (آیت) ” الذین ھم علی صلاتھم دآئمون “۔ (المعارج : 30) جو اپنی نماز ہمیشہ ادا کرتے ہیں ۔ ان آیتوں سے ثابت ہوا کہ نماز ایسا فرض ہے جو کسی مسلمان سے کسی حال میں معاف نہیں ہو سکتا اور اس کو ہمیشہ پابندی کے ساتھ وقت پر اور اس کے سارے شرائط کے ساتھ ادا کرنا چاہئے ۔ نماز کے اوقات مقرر ہیں : اس کے بعد یہ مسئلہ ہے کہ نماز کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ اوقات مخصوص فرمائے ہیں ارشاد ہے : (آیت) ” ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا “۔ (النسائ : 103) بلاشبہ نماز مسلمانوں پر مقررہ اوقات میں فرض ہے ۔ اس آیت پاک سے معلوم ہوا کہ ہماری فرض نمازوں کے لئے اوقات مخصوص ہیں ۔ وہ اوقات کیا ہیں ؟ ادائے نماز کے لئے قرآن نے زیادہ تر تین لفظ استعمال کئے ہیں ۔ (صلوۃ) یا (اقامت صلوۃ) (تسبیح) اور (ذکر اللہ) پہلا لفظ (اقامت صلوۃ) نماز کے لئے مخصوص ہے لیکن دوسرا اور تیسرا لفظ عام تسبیح وتحمید اور یاد الہی کے لئے بولا جاتا ہے جس کا جزء اعظم تسبیح وتحمید ہے ، احادیث میں بھی تسبیح کے معنی نماز پڑھنے کے ہیں اور اشعار عرب ولغت عرب سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے ، قرآن میں جب اس لفظ (تسبیح) کے ساتھ وقت کی تخصیص ہوگی تو اس سے کسی شبہ کے بغیر نماز کے علاوہ کوئی اور چیز مراد نہیں ہوسکتی کیونکہ وقت مخصوص کے ساتھ اسلام میں نماز کے علاوہ کوئی عام تسبیح فرض نہیں ہے البتہ اوقات کی تخصیص کے بغیر قرآن نے جہاں تسبیح کا حکم دیا ہے اس سے خدا کی عام یاد وتوسیف مراد ہو سکتی ہے ۔ اس تمہید کے بعد حسب ذیل آیتوں پر نظر کرنی چاہئے : 1۔ (آیت) ” قم الیل الا قلیلا ، نصفہ اوانقص منہ قلیلا ، اوزدعلیہ ورتل القران ترتیلا “۔ (المزمل : 2 ‘ 3 ‘ 4) ” رات کو کھڑا رہا مگر کچھ کم یا آدھی رات یا اس سے کچھ گھٹا دے یا بڑھا لے اور قرآن (اس میں) ٹھہر ٹھہرکر پڑھ “۔ 2۔ (آیت) ” وسبح بحمد ربک بالعشی والابکار “۔ (ال مومن : 55) ” اور اپنے رب کی حمد سہ پہر اور صبح کو کر ۔ “ 3۔ (آیت) ” وسبحوہ بکرۃ واصیلا “۔ (الاحزاب : 42) ” اور تم اس کی پاکی صبح کو اور سہ پہر کو کیا کرو۔ “ 4۔ (آیت) ” وتسبحوہ بکرۃ واصیلا “۔ (الفتح : 9) ” اور تم اس کی پاکی صبح کو اور سہ پہر کو بیان کرو۔ “ 5۔ (آیت) ” واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفۃ ودون الجھر من القول بالغدو والاصال ولا تکن من الغافلین “۔ (الاعراف : 205) ” اور تو اپنے پروردگار کو اپنے دل میں گڑ گڑا کر اور پست آواز میں صبح کو اور دوپہر کو یاد کر اور بھولنے والوں میں سے نہ ہو ۔ “ 6۔ (آیت) ” ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدۃ والعشی “۔ (الانعام : 52) ” اور اے رسول ! ان کو مت نکال جو اپنے پروردگار کو صبح اور سہ پہر کو پکارتے ہیں۔ “ 7۔ (آیت) ” فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو الاصال رجال “۔ الخ (النور : 36 ‘ 37) ” ان گھروں میں جن کے بلند کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہے اور ان میں اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور ان میں وہ لوگ جن کو دنیا کا کاروبار اللہ سے غافل نہیں کرتا صبح اور سہ پہر کو اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں ۔ “ 8۔ (آیت) ” واصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدۃ والعشی “۔ (الکہف : 28) ” اور تو (اے رسول) اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رہ جو اپنے پروردگار کو صبح اور سہ پہر کے وقت پکارتے ہیں ۔ “ 9۔ (آیت) ” وسبح بحمد ربک حین تقوم ، ومن الیل سبح وادبار النجوم “۔ (الطور : 48 ‘ 49) ” اور تو اپنے پروردگار کی حمد کی پاکی بیان کر ‘ جب تو اٹھتا ہے اور رات کے کچھ حصہ میں اس کی تسبیح کر اور ستاروں کے پیٹھ پھیرتے وقت ۔ “ 10۔ (آیت) ” واقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل “۔ (ہود : 114) ” اور نماز کو قائم کردن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ ٹکڑوں میں۔ “ 11۔ (آیت) ” اقم الصلوہ لدلوک الشمس الی غسق الیل و قرآن الفجر ان قران الفجر کان مشھودا ، ومن الیل فتھجدبہ نافلۃ الک “۔ (بنی اسرائیل : 78 ‘ 79) ” نماز قائم کر آفتاب کے جھکاؤ کے وقت رات کی ابتدائی تاریکی تک اور فجر کا پڑھنا ‘ بیشک فجر کا پڑھنا پر حضور ہے اور رات کو کچھ دیر جاگ کر مزید نماز پڑھ ۔ “ (تہجد) 12۔ (آیت) ” واذکر اسم ربک بکرۃ واصیلا ، ومن الیل فاسجدلہ وسبح لیلا طویلا “۔ (الدھر : 25 ‘ 26) اور اپنے پروردگار کا نام یاد کر صبح کو اور سہ پہر کو اور کچھ رات گئے اس کو سجدہ کر اور بڑی رات تک اس کی تسبیح کر ۔ 13۔ (آیت) ” فَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِہَا وَمِنْ آنَاء اللَّیْْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّہَارِ لَعَلَّکَ تَرْضَی (طہ : 130) ” کافروں کے کہے پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح پڑھ آفتاب نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے اور رات کے کچھ حصوں میں اس کی تسبیح پڑھ اور دن کے کناروں میں تاکہ تو خوش رہے ۔ “ 14۔ (آیت) ” فسبحان اللہ حین تمسون وحین تسبحون ، ولہ الحمد فی السموات والارض وعشیا وحین تظھرون “۔ (الروم : 17 ‘ 18) ” تو اللہ کی تسبیح پڑھو ‘ جب شام کرو اور جب صبح کرو اور اس کی حمد آسمانوں اور زمین میں اور سہ پہر کو اور جب تم دوپہر کرو۔ “ 15۔ (آیت) ” فاصبر علی ما یقولون وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب ، ومن الیل فسبحہ وادبارالسجود ، (ق : 39 ‘ 40) ” تو کافروں کے کہے پر صبر کر اور اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح پڑھ آفتاب نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے اور کچھ رات میں تسبیح پڑھ اور ڈوبنے کے بعد۔ “ 16۔ (آیت) ” من قبل صلوۃ الفجر وحین تضعون ثیابکم من الظھیرۃ ومن بعد صلوۃ العشائ “۔ (النور : 58) ” فجر کی نماز سے پہلے اور جب دوپہر کی گرمی کے سبب سے کپڑے اتارتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد ۔ “ ان اوپر کی آیتوں میں نماز کے مختلف اوقات کا ذکر ہے ‘ ان میں سے بعض مکرر ہیں اور بعض نہیں۔ مکرر اوقات کو ملا دینے کے بعد یہ وہی پانچ وقت ہوجاتے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ تمام عمر نماز ادا فرماتے رہے اور آپ کے بعد آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور اس وقت سے لے کر آج تک تمام روئے زمین کے مسلمان نسلا بعد نسل ادا کرتے آئے ہیں اور جن کے مشہور نام فجر ‘ ظہر ‘ عصر ‘ مغرب اور عشاء ہیں ۔ غدو ‘ غداۃ ‘ بکرۃ ‘ فجر ‘ قبل طلوالشمس اور حین تصبحون کے معنی صبح کی نماز اصیل ‘ عشی اور قبل غروب الشمس سے مراد عصر ۔ دلوک الشمس (زوال) اور حین تظہرون (جب دوپہر کرو) سے مقصد ظہر ۔ طرف النھار (دن کا کنارہ) اور تمسون (جب شام کرو) سے مراد مغرب اور من آنائی الیل (کچھ رات گزرے ) غسق الیل (رات کی ابتدائی تاریکی) اور صلوۃ العشاء سے مقصود عشاء کی نماز ہے اور یہی نماز کے پانچ اوقات ہیں جن میں اللہ کی یاد اور تسبیح وتحمید کا ہم کو حکم دیا گیا ہے ۔ اوپر نماز کے متعلق جو کچھ عرض کیا گیا ہے وہ نماز کی افادیت اور دوسرے مذاہب کے تقابل کے لئے پیش کیا گیا ہے ہمیں معلوم ہے کہ آج ہم مسلمانوں ہی میں وہ کتنے لوگ ہیں جو اس پنجگانہ نماز کی اس ظاہری حیثیت اور اس کی حرکات و سکنات سے انکاری ہیں نہیں وہ صرف انکاری ہی نہیں بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں اس نماز کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور اس کو قرآنی نماز کے بالکل منافی تصور کرتے ہوئے بڑی ڈھٹائی اور بےحیائی سے اس کو عجمی سازش قرار دیتے ہیں اور علاوہ ازیں جو لوگ اس نماز کو مانتے اور تسلیم کرتے ہیں ان میں سے بعض تین اوقات کی نماز مانتے ہیں اور پانچ اوقات کی نماز سے ان کو انکار ہے اور تعداد رکعت ‘ اذکار نماز بلکہ نماز کے لفظ تک سے وہ الرجک ہیں اور انہوں نے اپنی طرف سے ایک ناکام کوشش بھی کی ہے کہ وہ قرآن کریم سے تین اوقات اور اذکار وغیرہ کو پیش کریں پھر ایسے بھی ہیں جو اوقات تو پانچ مانتے ہیں لیکن ظہر ‘ عصر کو ایک وقت اور مغرب و عشاء کو ایک وقت پر جمع کرتے ہیں اور اذکار نماز اور حرکات و سکنات میں بھی بہت سے اختلافات رکھتے ہیں یہ شیعوں کا گروہ ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اہل سنت کہلانے والے جب مختلف گروہوں یعنی دیوبندی ‘ بریلوی اور اہلحدیث فرقوں میں تقسیم ہوگئے تو ان کے ہاں بھی فروعی اختلافات موجود ہیں جو فروعی اختلافات تسلیم کرنے کے باوجود آپس میں انہیں فروعات پر لڑتے بھڑتے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کو برا بھلاہی نہیں بلکہ کافر ‘ مشرک تک کہتے ہیں اور ایک دوسرے پر نماز نہ ہونے کا فتوی بھی صادر کرتے ہیں تاہم ہم نے ان میں سے سے کسی بات کو اس جگہ نہیں چھیڑا کیونکہ ان ساری باتوں کا تعلق تفسیر کے ساتھ مطلق نہیں ہے ۔ ان کی تفہیم کے لئے ہم نے ” صلوۃ کے اختلافی ابواب “ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جو فی الحال زیر طبع ہے ، طباعت کے بعد انشاء اللہ ان ساری باتوں پر سیر حاصل بحث کے بعد اصل حقیقت معلوم ہوجائے گی اور مزید یہ بھی معلوم ہوگا کہ نماز کے اخلاقی ‘ تمدنی اور معاشرتی فائدے کیا ہیں اور آج ہم ان سے کیوں مستفید نہیں ہو رہے ؟ اس میں بتایا گیا ہے کہ نماز شرم وحیا کی نگہداشت کے لئے کتنی اہم چیز ہے ؟ اس سے طہارت و پاکیزگی کیسے حاصل ہوتی ہے ؟ ظاہری پاکیزگی اور باطنی پاکیزگی لازم وملزوم کیوں ہیں ؟ نماز پابندی اوقات کا کیسے درس دیتی ہے ؟ رات کو جلد سونے اور صبح خیزی کے فائدے کیا ہیں ؟ ایک نماز میں خوف خدا کیونکر پیدا ہوتا ہے ؟ نماز انسان کو عقل وفکر کے تابع وحی کرنے میں کیسے مدد دیتی ہے ؟ نماز مسلمان کے لئے مذہبی اور سیاسی امتیازی نشان کیوں ہے ؟ نماز حق کی خاطر باطل کو مٹانے کے لئے کیونکر آمادہ کرتی ہے ؟ نماز ہی سے تکمیل اخلاق ممکن ہے ؟ نماز اجتماعی الفت و محبت پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے کیوں ‘ اور کیسے ؟ نماز سے باہمی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ؟ اجتماعیت ایک فطری چیز ہے جو نماز کی لازمی شرط ہے ؟ ایک عمل کو بار بار دہرانے کا فائدہ کیا ہے ؟ نماز ثابت کرتی ہے کہ انسان کی عملی کامیابی استقلال اور مواظبت پر موقوف ہے ؟ نظم جماعت کے سوا زندگی ادھوری ہوتی ہے ؟ نماز واضح کرتی ہے کہ مساوات کیا ہے ؟ نماز ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت کیسے ہوتی ہے ؟ نماز سے معیار فضیلت کا علم حاصل ہوتا ہے ؟ نماز روزانہ کی مجالس ‘ ہفتہ وار مجالس ‘ سالانہ مجالس کی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے ؟ مذکورہ بیس سوالوں کے جواب بھی اس میں تفصیل سے دیئے گئے ہیں ۔ جن چیزوں کے حاصل ہونے سے نماز ‘ نماز ہوتی ہے آج ہمارے مفتیوں کے فتو وں سے وہی چیز مکروہات نماز ہو کر رہ گئی ہے ‘ کیوں اور کیسے ؟ کی وضاحت پر یہ کتاب ختم کردی گئی ہے ع ” شب شود صبح وہماں محوتماشا باشم “ مذکورہ چھ نشانیوں کے حاملین کو جو خوشخبری سنائی گئی : 10۔ گزشتہ آیات کریمات میں جو نشانات ایمان والوں کے شمار کئے گئے ہیں ان کے متعلق اب فیصلہ سنایا جا رہا ہے کہ جو لوگ ان شھ نشانات کے حامل ہیں وہ بلاشبہ مسلمان ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو تمام اخلاق حسنہ اور صفات عالیہ سے متصف ہیں اس لئے یہی ہیں جو اخروی میراث کے وارث قرار پائیں گے وہ اخروی میراث کیا ہے ؟ اس کا ذکر آنے والی آیت میں کیا گیا ہے ۔
Top