Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 61
فَلَمَّا تَرَآءَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰۤى اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَۚ
فَلَمَّا : پس جب تَرَآءَ : دیکھا ایکدوسرے کو الْجَمْعٰنِ : دونوں جماعتیں قَالَ : کہا (کہنے لگے) اَصْحٰبُ مُوْسٰٓي : موسیٰ کے ساتھی اِنَّا : یقیناً ہم لَمُدْرَكُوْنَ : پکڑ لیے گئے
پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا ہم تو پکڑے گئے
بنی اسرائیل نے جب دور ہی سے سمجھ لیا کہ ہم پیچھا کئے گئے ہیں تو وہ گھبرا گئے ۔ 61۔ بنی اسرائیل کی نظریں تو پہلے ہی پیچھے کی طرف لگی ہوئی تھیں وہ چلتے آگے کو تھے دیکھتے پیچھے کو ’ غلام قوموں کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ غلامی ہی کو آزادی سمجھنا شروع کردیتی ہیں اور آزادی کا تصور کلی طور پر انکے ذہن سے محو ہو کر رہ جاتا ہے یہی حال قوم بنی اسرائیل کا بھی تھا وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پر نکل تو کھڑے ہوئے تھے لیکن ان کے دل ابھی دھک دھک کر رہے تھے اور نظریں پیچھے کو لگی ہوئی تھیں کہ کہیں کچھ ہو ہی نہ جائے جبھی انکی نظریں ایک لشکر پر پڑیں تو ان کو یقین ہوگیا کہ بس مارے گئے ‘ وہ پیچھے نظر دوڑاتے تو فرعون نظر آتا اور اگے کو دیکھتے تو دریا یا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا اور سورج کی کرنوں نے اس کے پانی کو اور بھی چمک دار کردیا تھا جونہی انکی نظر فرعونی لشکر پر پڑی تو وہ اوسان خطا کر بیٹھے ان کے ہونٹ موٹے ہونے اور زبانیں سوکھنے لگیں اور ان میں سے اکثریت کی زبانوں پر ایک ہی جملہ تھا کہ موسیٰ ! ہم مارے گئے ۔
Top