Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 21
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاۡاَذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
لَاُعَذِّبَنَّهٗ : البتہ میں ضرور اسے سزا دوں گا عَذَابًا : سزا شَدِيْدًا : سخت اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ : یا اسے ذبح کر ڈالوں گا اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ : یا اسے ضرور لانی چاہیے بِسُلْطٰنٍ : سند (کوئی وجہ) مُّبِيْنٍ : واضح (معقول)
میں اسے سخت سزا دوں گا یا قتل ہی کر دوں گا یا وہ میرے سامنے (اپنی غیر حاضری کا) واضح ثبوت پیش کرے گا (کہ وہ کیوں غیر حاضر ہوا)
حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یا تو وہ کوئی معقول وجہ بتلائے یا ہم اس کو سخت مار دیں گے : 21۔ (اذبحنہ) ذبح سے ہے جس کے معنی ہیں کہ میں اس کو ذبح کر ڈالوں گا (اذبحن ذبح) سے مضارع یا نون تاکید کا صیغہ واحد متکلم ، ضمیر ‘ واحد مذکر غائب ، اردو زبان میں یہ لفظ محض پرندوں اور جانوروں یعنی حیوانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن عربی زبان میں جب کسی انسان کو سزا کے طور پر یا بغیر کسی مقصد کے قتل کیا جائے اس کے قتل کی خواہ کوئی صورت اختیار کی جائے اس پر ذبح کا لفظ استعمال ہوتا ہے مثلا فرعون نے بطور سزا بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرانا شروع کیا تو قرآن کریم نے اس کے اس فعل کو ذبح سے تعبیر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (آیت) ” یذبحون ابنآء کم “۔ ” وہ ذبح کر ڈالتے تھے ان کے بیٹوں کو “ یہ گویا سزاء قتل کرنا ہے ۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اسمعیل (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ (اذبحک) میں تجھ کو ذبح کر رہا ہوں ۔ گویا کہ بغیر کسی مقصد کے کیونکہ اسمعیل کوئی کھانے کی چیز نہیں تھے اور نہ ہی کسی سزا کے مستحق سمجھے گئے تھے اور جانوروں پر خواہ پرندے ہوں یا الانعام ہوں اس کا استعمال عام ہے کیونکہ ان سب کو کھایا جاتا ہے یعنی ان کے ذبح کرنے کا کوئی خاص مقصد ہوتا ہے ۔ اس جگہ زیر نظر آیت میں چونکہ سزا کے طور پر ارشاد فرمایا تھا اس لئے ذبح کا لفظ استعمال کیا اور اسی طرح اس لفظ نے خود وضاحت کردی کہ یہ کسی پرندے کے کھانے کا مقصد نہیں بلکہ کسی انسان کو سزا دینا مراد ہے ۔ زیر نظر آیت میں سلیمان (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا کہ لشکر طیر کا جو جوان غیر حاضر ہے اس کو سخت ترین سزا دی جائے گی اور اگر وہ اس سزا کے لائق ہوا کہ اس کو قتل کردیا جائے تو بھی دریغ نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہم ڈسپلن خراب کرنا نہیں چاہتے ، ہاں ! اگر وہ کوئی معقول وجہ بیان کر دے گا کہ وہ سزا کا مستحق ہی نہ ٹھہرا تو یہ دوسری بات ہے لیکن اس کے لئے اسے کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنا ہوگی آئیں بائیں شائیں سے کام نہیں چلے گا ۔ اگر اس نے کوئی ٹھوس دلیل پیش کردی تو ہم کسی فرد پر ظلم و زیادتی کرنا نہیں چاہتے کہ کسی کو سزا دینے سے ہمیں کچھ فائدہ پہنچ جائے گا ؟ ہرگز نہیں ہمارے ہاں جو کچھ ہوتا ہے انشاء اللہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد ہوتا ہے یہ بیداد نگری نہیں ہے اور نہ ہی حکمران کوئی اندھا یا بہرا ہے ۔
Top