Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 140
اِنْ یَّمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهٗ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُهَا بَیْنَ النَّاسِ١ۚ وَ لِیَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَآءَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَۙ
اِنْ : اگر يَّمْسَسْكُمْ : تمہیں پہنچا قَرْحٌ : زخم فَقَدْ : تو البتہ مَسَّ : پہنچا الْقَوْمَ : قوم قَرْحٌ : زخم مِّثْلُهٗ : اس جیسا وَتِلْكَ : اور یہ الْاَيَّامُ : ایام نُدَاوِلُھَا : ہم باری باری بدلتے ہیں انکو بَيْنَ النَّاسِ : لوگوں کے درمیان وَلِيَعْلَمَ : اور تاکہ معلوم کرلے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَيَتَّخِذَ : اور بنائے مِنْكُمْ : تم سے شُهَدَآءَ : شہید (جمع وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اگر تم نے زخم کھایا ہے تو دشمنوں کو بھی تو ویسے ہی زخم بدر میں لگ چکے ہیں ؟ یہ اوقات ہیں جنہیں ہم انسانوں میں ادھر ادھر پھراتے رہتے ہیں اور یہ اس لیے بھی تھا تاکہ اس بات کی آزمائش ہوجائے کہ کون سچا ایمان رکھنے والا ہے اور تم میں سے ایک گروہ کو شاہد حال بنا دے اور اللہ ظلم کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
آج جس دکھ میں تم مبتلا ہو کل دشمنوں کو بھی تم ایسے ہی دکھ میں مبتلا کرچکے ہو : 256: اس آیت میں ایک دوسرے انداز میں مسلمانوں کو تسلی کے لیے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر اس لڑائی میں تم کو زخم پہنچایا تکلیف اٹھانی پڑی تو اس طرح کے حوادث تمہارے فریق مخالف کو بھی پیش آ چکے ہیں اگر احد میں تمہارے ستر آدمی شہید ہوئے ہیں اور بہت سے زخمی بھی تو ایک ہی سال پہلے تم ان کے ستر آدمی جہنم رسید کرچکے ہو اور بہت سے زخم بھی کھاچکے ہیں اور اس سے لڑائی میں بھی لڑائی شروع ہوتے ہی تمہارے ہاتھوں میں وہ قتل ہوچکے ہیں اور یہ بات بھی ہے کہ ہم ان ایام کو باری باری بدلتے رہتے ہیں جس میں بہت سی چیزیں پوشیدہ ہیں۔ اس دنیا کے متعلق قانون الٰہی یہی ہے کہ وہ سختی ، نرمی ، دکھ ، سکھ اور تکلیف و راحت کے دنوں کو لوگوں میں ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ جس میں لوگوں کے اپنے اعمال کا بھی بہت کچھ دخل ہوتا ہے اور اعمال میں جس کا بھی عمل قانون الٰہی کے خلاف ہو اس کو ضرور سزا ملتی ہے کیونکہ ہر عمل کے ساتھ اس کا نتیجہ بھی وابستہ کردیا گیا ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی باطل قوت کو فتح و کامرانی ہوجائے تو جماعت حقہ کو اس سے بددل نہیں ہونا چاہیے بلکہ سبق حاصل کر کے اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور اس سے انجام کار فتح جماعت حقہ ہی کو ہوگی۔ مصیبت کے وقت دوست و دشمن کی پہچان ہوجاتی ہے : 257: اگر دکھ اور تکالیف نوبت بہ نوبت آتی رہنے والی چیزیں ہیں تو اس کی غرض کیا ہے ؟ اور کیوں مسلمانوں کو جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں دکھ اور تکلیفیں پہنچیں ؟ پہلی بات کا جواب تو یہ ہے کہ مصیبت کا وقت ہی ایک ایسا وقت ہے جب دوست و دشمن کا پتہ چلتا ہے کہ کون دوست ہے اور کون دشمن ؟ مسلمانوں کی اس تکلیف نے بھی جو ان کو میدان احد میں پہنچی دوست و دشمن کو بالکل واضح کردیا۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں کو کیوں تکالیف پہنچیں ؟ اس لیے کہ ایمان لانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کے بعد اپنی مرضی کرتے رہیں اور صرف ایمان کے دعویٰ پر آزاد ہوجائیں اور کسی بات کے پابند نہ رہیں۔ بلکہ ایمان لانے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ اب ہم آزاد نہیں رہے کہ اپنی مرضی سے جو چاہیں کرتے پھریں بلکہ ایمان کے دعویٰ نے تو ہم کو پابند کردیا ہے کہ اب ہماری اپنی کوئی مرضی نہیں رہی بلکہ اب ہماری مرضی وہی ہے جو اللہ کے رسول ﷺ کی مرضی جو وہ کہیں گے ہم کریں گے اور جس سے منع کریں گے اس کے قریب بھی نہیں جائیں گے۔ اس حکم میں غلطی ہوئی اور اس کا خمیازہ اٹھانا پڑا جس سے ہمارا ایمان پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگیا کہ یہ تکلیف محض اس لیے پہنچی کہ ہم نے حکم عدولی کی اب ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ ہم حکم عدولی نہیں کریں گے اور یہ بھی کہ آج تک مسلم و منافق اکٹھے رہ رہے تھے کسی کو کسی کی کوئی پہچان نہ تھی اللہ تعالیٰ نے جنگ احد میں نکلنے کا حکم دے کر مسلم و منافق دونوں گروہوں کو الگ الگ کردیا۔ اب مسلمان اچھی طرح جان گئے اور ان کے چہروں سے یہ بات پہچان گئے کہ کون مسلم ہے اور کون منافق ہے ؟ پھر یہ بھی کہ اس کی پہچان میدان جنگ میں پہنچنے سے پہلے ہی کرا دی گئی۔ اس طرح جو پکے اور سچے مسلمان میدان جنگ میں اترے ان میں سے وہ لوگ جو جبل عینین پر مقرر کیے گئے تے ان کے عمل سے یہ بات بھی واضح کرا دی کہ قومی امور میں جب کوئی آدمی غلطی کرتا ہے تو اس کو صرف ایک فرد کی حیثیت سے سزا نہیں دی جاتی بلکہ پوری جماعت کو سزا دی جاتی ہے تاکہ کوئی جماعت جس انسان پر کوئی ذمہ داری ڈالے وہ اس کو قومی ذمہ داری کے لحاظ سے پورا کرے اور پھر جو کچھ کرے وہ قوم کے سامنے کا جواب دہ ہو اور ایک دنیا جان لے کہ کس نے غلطی کی ہے اور اس کو اس کی غلطی کی کیا سزا دی گئی اور یہ بھی کہ ہر غلطی زیادتی ہے خواہ وہ اپنی جان کے ساتھ ہو یا پوری قوم کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
Top