Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 141
وَ لِیُمَحِّصَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَمْحَقَ الْكٰفِرِیْنَ
وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ پاک صاف کردے اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے وَيَمْحَقَ : اور مٹادے الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں انہیں تمام لغزشوں سے پاک کر دے اور جو منکرین حق ہیں انہیں نیست و نابود کر دے
جنگ احد کے نتائج نے کھرے اور کھوٹے میں نکھار پیدا کردیا : 258: اس آیت میں مزید دو نتائج کی وضاحت فرما دی گئی فرمایا کہ اس سے جو تکلیف پہنچی وہ تو پہنچ ہی گئی لیکن اس واقعہ نے کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کردیا۔ یعنی مومنوں کی تمحیص ہوگئی جو ایمان کے مضبوط تھے ان کا اور جو کمزور تھے ان کا سب کو علم ہوگیا سب کو اپنی اپنی جگہ بھی اور ایک دوسرے کے متعلق بھی اور مخالفین کی بےبرکتی اور نقصان بھی واضح ہوگیا۔ پھر یہ بھی کہ جو تکلیف مومن کو پہنچتی ہے وہ اس کے ذنوب و عیوب سے تطہیر کا موجب ہو کر اس کی ترقی کا باعث ہوتی اس طرح تکلیف سے اس کا یہ فائدہ بھی ہوتا ہے اور کافر چونکہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا اس لیے اس کے لیے اس کی تکلیف کا نتیجہ ہمیشہ نقصان اور بےبرکتی سے ظاہر ہوتا ہے۔ چناچہ ایک انگریز مورخ لکھتا ہے کہ ” گو احد میں قریش فتح مند ہوگئے لیکن یہی عارضی فتح مندی ان کے مستقل زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ “ اس طرح کہ مصیبت مسلمانوں کے حق میں کیا ہوتی ہے ؟ فرمایا : اس کا نتیجہ مومنوں کے حق میں یہ نکلتا ہے کہ : ” ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور یہ بھی کہ ان کی موجودہ حالت خوف کو امن سے بدل دیتا ہے۔ “ (النور : 55:24) اور کفار کے حق میں اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ فرمایا : ” اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے۔ تاکہ حق حق ہو کر رہے اور باطل باطل ہو کر رہ جائے۔ “ (الانفال : 8:8)
Top