Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 139
وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَلَا تَهِنُوْا : اور سست نہ پڑو وَلَا تَحْزَنُوْا : اور غم نہ کھاؤ وَاَنْتُمُ : اور تم الْاَعْلَوْنَ : غالب اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور (خوب سن لو کہ) نہ تو ہمت ہارو ، نہ غمگین ہو تم ہی سب سے سر بلند ہو بشرطیکہ تم سچے مومن ہو
مومن کون ہے ؟ وہی جو نہ ہمت ہارے اور نہ دل چھوڑے : 255: ” یاد رکھو کہ نہ ہمت ہارو اور نہ غمگین ہو اور تم ہی سربلند ہو اگر تم سچے مومن ہو۔ “ انسان جو کچھ کھو دے اس پر غمگین ہو کر بیٹھ رہے اور جو کچھ مل جائے اس پر بغلیں بجانا شروع کر دے تو یہ ایک عقل مند اور سمجھ سوچ رکھنے والا آدمی نہیں ہو سکتا۔ غزوہ احد کا واقعہ پیچھے چلتا آ رہا ہے اور یہ بات پہلے معلوم ہوچکی ہے کہ اس جہاد میں مسلمانوں کی بعض کوتاہیوں کے سبب ابتدائی فتح کے بعد پھر مسلمانوں کو شکست ہوئی اس کے نتیجہ میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوئے اور نبی کریم ﷺ کو بھی زخم آئے مگر یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنگ کا پانسہ بدل دیا اور مسلمانوں کی شکست کو دوبارہ فتح میں تبدیل کردیا اور دشمن انجار کار پسپا ہوگئے۔ اس عارضی شکست کے تین اسباب تھے : 1۔ رسول اللہ ﷺ نے جبل عینین پر پچاس تیراندازوں کو کھڑا رہنے کا حکم دیا تھا اور ہدایت فرمائی تھی کہ تم لوگ اس جگہ کو نہ چھوڑنا حالات خواہ کچھ ہوں۔ لیکن جب پہلے ہی حملہ میں کفار کا لشکر پسپا ہوگیا اور مسلمان ان کو بھگانے میں کامیاب ہوگئے تو ان پچاس آدمیوں میں اختلاف رائے ہوگیا جس کے نتیجے میں چند صحابہ ؓ کے علاوہ باقی سب نے وہ جگہ چھوڑ دی اور غنیمت لوٹنے میں مصروف ہوگئے۔ کفار کے سپہ سالار نے پیچھے سے حملہ کر کے ان صحابہ کو قتل کیا اور باقی لشکر اسلام پر حملہ کردیا۔ اس سے حالات ایسے الجھے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا اور اس بھگدڑ میں رسول اللہ ﷺ بھی زخمی ہوگئے اور مشرکین نیت اس موقع سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے آپ ﷺ کے قتل کی خبر مشہور کردی۔ 2۔ چناچہ دوسرا سبب یہی خبر ہوگئی۔ یہ بات آگ کی طرح پھیل گئی اور مسلمانوں کے اوسان بالکل خطا ہوگئے۔ 3۔ تیسرا سبب جو پہلے دونوں سے بھی بڑا تھا کہ آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اختلاف پیش آیا۔ بس یہ تین لغزشیں ایسی تھیں جن سے مسلمانوں کو گویا عارضی طور شکست ہوئی۔ یہ عارضی شکست اگرچہ بعد میں جلد ہی فتح میں تبدیل ہوگئی تاہم کچھ مسلمان مجاہدین شہید ہوگئے اور بہت سے مجاہدین زخموں سے چور چور ہوگئے اور سب سے بڑھ کر اپنی لغزش کی ان کو بہت ندامت تھی اور اس سارے واقعہ کے جو اثرات مرتب ہونے والے تھے ان کے متعلق گہری سوچ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان ساری چیزوں کا مداوا اس آیت کریمہ سے کردیا۔ فرمایا کہ تم آئندہ کے لیے کمزوری اور سستی اپنے پاس نہ آنے دو اور گزشتہ پر رنج و ملال نہ کرو اور انجام کار تم ہی غالب ہو کر رہو گے بشرطیکہ ایمان و ایقان کے رستہ پر مستقیم رہو اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر پورا یقین رکھتے ہوئے اطاعت رسول ﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ سے قدم پھے نہ ہٹاؤ ۔ مطلب بالکل صاف ہے کہ گزشتہ باتیں اور لغزشیں جو ہوچکی ہیں اس پر رنج و غم میں اپنا وقت اور توانائی صرف نہ کرو بلکہ مستقبل میں اپنے کام کی درستی کی فکر کرو اور اسے کامیاب بناؤ اور یاد رکھو کہ ایمان و ایان اور اطاعت رسول ﷺ ہی تمہارے درخشاں مستقبل کا ضامن ہے ان کو ہاتھ سے نہ جانے دو اور انجام کار تم ہی غالب رہو گے۔
Top