Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 154
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآئِفَةً مِّنْكُمْ١ۙ وَ طَآئِفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ یَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِیَّةِ١ؕ یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ١ؕ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ١ؕ یُخْفُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ١ؕ یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا١ؕ قُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ١ۚ وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : اس نے اتارا عَلَيْكُمْ : تم پر مِّنْۢ بَعْدِ : بعد الْغَمِّ : غم اَمَنَةً : امن نُّعَاسًا : اونگھ يَّغْشٰى : ڈھانک لیا طَآئِفَةً : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے وَطَآئِفَةٌ : اور ایک جماعت قَدْ اَهَمَّتْھُمْ : انہیں فکر پڑی تھی اَنْفُسُھُمْ : اپنی جانیں يَظُنُّوْنَ : وہ گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں غَيْرَ الْحَقِّ : بےحقیقت ظَنَّ : گمان الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے ھَلْ : کیا لَّنَا : ہمارے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام مِنْ شَيْءٍ : کچھ قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّ : کہ الْاَمْرَ : کام كُلَّهٗ لِلّٰهِ : تمام۔ اللہ يُخْفُوْنَ : وہ چھپاتے ہیں فِيْٓ : میں اَنْفُسِھِمْ : اپنے دل مَّا : جو لَا يُبْدُوْنَ : وہ ظاہر نہیں کرتے لَكَ : آپ کے لیے (پر) يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَوْ كَانَ : اگر ہوتا لَنَا : ہمارے لیے مِنَ الْاَمْرِ : سے کام شَيْءٌ : کچھ مَّا قُتِلْنَا : ہم نہ مارے جاتے ھٰهُنَا : یہاں قُلْ : آپ کہ دیں لَّوْ كُنْتُمْ : اگر تم ہوتے فِيْ : میں بُيُوْتِكُمْ : اپنے گھر (جمع) لَبَرَزَ : ضرور نکل کھڑے ہوتے الَّذِيْنَ : وہ لوگ كُتِبَ : لکھا تھا عَلَيْهِمُ : ان پر الْقَتْلُ : مارا جانا اِلٰى : طرف مَضَاجِعِھِمْ : اپنی قتل گاہ (جمع) وَلِيَبْتَلِيَ : اور تاکہ ٓزمائے اللّٰهُ : اللہ مَا : جو فِيْ صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینوں میں وَلِيُمَحِّصَ : اور تاکہ صاف کردے مَا : جو فِيْ قُلُوْبِكُمْ : میں تمہارے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں والے (دلوں کے بھید)
پھر اللہ نے تم پر بےخوفی کی خود فراموشی طاری کردی ، یہ حالت ایک گروہ کی تھی لیکن تم میں ایک دوسرا گروہ بھی تھا جسے اس وقت بھی اپنی جانوں کی پڑی تھی اور اللہ کی جناب میں عہد جہالت کے سے ظنوں و اوہام رکھتا تھا ، سمجھتا تھا کہ اس کام میں ہماری رائے کا کوئی دخل نہیں ، ان سے کہہ دیجئے کہ ان کا کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں ہے سب اختیارات صرف اللہ کیلئے ہیں جس بات کو وہ ظاہر نہیں کر رہے تھے بلکہ دلوں میں چھپی تھی وہ یہ تھی کہ اگر ہمارے اختیار میں کچھ ہوتا تو ہمارا اتنا جانی نقصان نہ ہوتا ، ان سے کہہ دو اگر تم اپنے گھروں کے اندر بیٹھے ہوتے جب بھی جن کیلئے مارا جانا تھا وہ گھر سے ضرور نکلتے اور اپنے مارے جانے کی جگہ پہنچ کر رہتے اور اللہ کو منظور تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں چھپا ہوا ہے اس کیلئے تمہیں آزمائے اور جو کدورتیں تمہارے دلوں میں پیدا ہوگئی تھیں انہیں پاک و صاف کر دے اور اللہ جانتا ہے جو انسانوں کے دلوں میں پوشیدہ ہوتا ہے
احد کی ان مشکل گھڑیوں میں ایک مزید مشکل کا اضافہ : 280: غم بالائے غم یعنی متواتر غم ہی غم۔ فتح کا شکست سے بدل جانے کا غم۔ ساتھیوں کا میدان احد شہید ہونے کا غم۔ قدم اکھڑجانے کا غم۔ مجاہدین کے ذخمہ ہونے کا غم۔ ایسی مشکل گھڑیوں میں ایک مزید مشکل کا اضافہ اس طرح ہوا کہ عبد اللہ بن قمیہ جو قریش کا مشہور بہادر تھا اپنے ہی لشکر کو چیرتا پھاڑتا ہوا آگے بڑھا اور نبی ﷺ کے قریب آگیا اور تلوار کا وار کیا اور آپ ﷺ کے چہرہ اقدس پر تلوار ماری اس کے صدمہ سے مغفر کی دو کڑیا چہرہ اقدس پر تلوار ماری اس کے صدمہ سے مغر کی دو کڑیا چہرہ مبارک میں چبھ کر رہ گئیں۔ اس طرح آپ ﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا۔ یہ دیکھ کر جاں نثاروں نے آپ ﷺ کو پھر دائرہ میں لے لیا۔ ابو دجانہ ؓ جھک کر سپر بن گئے اب جو تیر آتے تھے ان کی پیٹھ پر آتے تھے۔ حضرت طلحہ ؓ نے تلواروں کو ہاتھ پر روکا۔ ایک ہاتھ کٹ کر گر گیا۔ لیکن دوسرے ہاتھ سے برابر کفار پر تلوار برساتے رہے ایسے نازک موقعہ پر بھی آپ ﷺ کی زبان سے نکلا تو یہی نکلا کہ ” رب اغفر قومی فانھم لا یعلمون “ اے اللہ ! میری قوم کو بخش دے کہ وہ جانتے نہیں۔ اس کی تفصیل مسلم شریف غزوہ احد جلد دوم میں ملاحظہ کریں۔ یہی وہ مقام ہے کہ جس وقت سعد بو وقاص ؓ جو ایک مشہور تیر انداز تھے اور اس وقت آپ کے رکاب میں حاضر تھے۔ اور کفار کے لشکر پر تیر پھیک رہے تھے کہ ان کا ترکش ٹوٹ گیا تو نبی ﷺ نے اپنا ترکش ان کے آگے ڈال دیا اور فامایا کہ ” تم پر میرے ماں باپ قربان تیر مارے جاؤ ۔ “ (بخاری : 580) بلاشبہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ اقدس زخمی ہوا لیکن مسلمانوں کو آپ ﷺ کی اس تکلیف کا اتنا صدمہ پہنچا ہوا کہ ” تمہیں رنج پر رنج دیا تاکہ اس حادثے سے تم عبرت پکڑو اور آئندہ نہ تو اس چیز کے لئے غم کرو جو ہاتھ ہوئے آئندہ چوکس رہنے اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی صحٰح معنوں میں پیروی کرنے کی ہمت بڑھ جائے اور کہیں زیادہ صبرو استقلال سے کام جاری رکھا جائے نہ کہ ماتم اور مسلسل ماتم پر ماتم شروع کردیا جائے۔ علم الٰہی میں انسانوں کے سارے کاموں کی حقیقت موجود ہے : 281: کوئی کس ارادہ سے شریک جنگ ہوتا ہے اور شریک جنگ ہو کر کیا کیا کرتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ سے انسانوں کی کوئی حرکت بھی پوشیدہ نہیں۔ جو جس ارادہ سے آیا ہے یقینا اس کے مطابق اس کو اجر ملے گا اور ” الاعمال بالنیات “ کی حدیث مشہور اور واضح ہے۔ مختصر یہ کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ احد کے میدان میں جو کچھ پیش آیا اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اللہ کا وعدہ نصرت اس موقع پر بھی پورا ہوا تھا اور دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے تھے۔ لیکن جب تمہاری ہی جماعت کے لوگوں نے عین حالت جنگ میں حکم رسول ﷺ کی نافرمانی کی اور ایک گروہ مال غنیمت کی طمع میں مورچہ چھوڑ کر تتر بتر ہوگیا۔ تو میدن جنگ کی ہوا پلٹ گئی اور فتح ہوتے ہوتے شکست میں بدل گئی پھر تم نے صبرو استقلال سے کام لیا تو اس کا نتیجہ بھی تم نے آنکھوں سے دیکھ لیا کہ تمہاری شکست کو پھر فتح میں بدل دیا گیا۔ پس یہ جو کچھ ہوا دشمنوں کی طاقت و کثرت سے نہیں ہوا بلکہ تمہاری نافرمانی اور بےہمتی سے ہوا۔ اب اس کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تم دشمنوں کی طاقت و کثرت سے مرعوب ہونے لگو بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اپنے اندر صبر وتقویٰ کی سچی روح پیدا کرو۔ تمہارے اعمال درست ہوں گے تو ان کے نتائج بھی یقینا درست ہی ہوں گے لیکن اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اس بات کا اچھی طرح خیال رکھو۔ مصیبت کو برداشت کر جانا بھی اطمینانِ قلب کا باعث ہوتا ہے : 282 : مصیبت ہر حال میں مصیبت ہی ہوتی ہے۔ دعا یہی کرنا چاہیے کہ اللہ کسی کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے لیکن مشیت ایزدی سے اگر مصیبت آ ہی جائے تو بجائے جزع فزع کے صبر و ثبات سے کام لینے کی توفیق میسر آجائے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و انعام ہے۔ میدان احد میں جب مسلمانوں کی بڑی تعداد مضطرب ہو کر بھاگنے لگی تو نبی اعظم و آخر ﷺ نے پکارنا شروع کیا۔ ” الی عباد اللہ “ اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ ۔ تم کہاں بھاگے جا رہے ہو ؟ جو لوگ ایمان و اخلاص میں پکے تھے اور محض صورت حال کے فوری اثر نے انہیں گھبرا دیا تھا وہ اپنے رسول ﷺ کی آواز سنتے ہی چونک اٹھے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اچانک ایک مدہوشی کی سی حالت طاری ہوگئی اور اس مدہوشی میں سارا خوف و ہراس فراموش ہوگیا۔ چناچہ وہ فوراً پلٹے آسمانی بجلی کی طرح کڑکے اور اس بےخودی کی حالت میں تلوار و تیر کو اس انداز سے چلایا کہ دشمنوں کے اوسان خطا کردیے اور ان کو میدان جنگ سے بالاخر بھگا دیا بلکہ حمراء الاسد نامی مقام تک جو مدینہ سے آٹھ دس میل کے فاصلہ پر ہے ان کے تعاقب میں بڑھتے ہی چلے گئے۔ اس طرح جو مصیبت ان کو اس میدان میں پہنچی تھی اس کو برداشت کر کے اطمینان قلب حاصل کرلیا۔ بالکل اس طرح کی صورت میدان بدر میں پیش آئی تھی جس کا ذکر سورة الانفال میں آئے گا۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہوا کہ :ـ اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً لِّیُطَھِّرَکُمْ بِہٖ وَ یُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ یُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ (الانفال : 11:8) ” جب ایسا ہوا تھا کہ اس نے چھا جانے والی غنودگی تم پر طاری کردی تھی کہ یہ اس کی طرف سے تمہارے لیے تسکین و بےخوفی کا سامان تھا اور آسمان سے تم پر پانی برسا دیا تھا کہ تمہیں پاک و صاف ہونے کا موقعہ دے دے اور تم سے شیطانی وسوسوں کی ناپاکی دور کر دے نیز تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھ جائے اور تمہارے قدم جما دے۔ “ ان دونوں مواقع پر وجہ ایک ہی تھی کہ جو موقع شدت خوف اور گھبراہٹ کا تھا اس وقت مسلمانوں کے دلوں کو ایسے اطمینان سے بھر دیا کہ ان پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ بدر میں ظاہری حالت کو درست کرنے کے لیے بارش برسا دی گئی اور اس بارش کے تین فائدے ہوئے ایک مسلمانوں کو پانی کی کافی مقدار مل گئی جب کہ ان کے پاس پانی بالکل موجود ہی نہ تھا اور انہوں نے فوراً حوض بنا کر نشیب میں پانی روک لیا دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ وادی کے بالائی حصہ پر تھے جو سخت ریتلا علاقہ تھا اور پاؤں ٹکتے نہ تھے اس لیے بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمنت اتنی مضبوط ہوگئی کہ قدم اچھی طرح جم سکیں اور نقل و حرکت بآسانی ہو سکے۔ تیسرے یہ کہ لشکر کفار نشیب کی جانب تھا اس لیے وہاں اس بارش کی حالت کیچڑ کی سی ہوگئی اور ان کے پاؤں پھسلنے لگے اور یہاں احد کی لڑائی میں اگرچہ مسلمانوں کو اپنے ہی کیے کے نتیجہ میں تکلیف بھی پہنچی تاہم میدان میں نکلنے کا یہ فائدہ حاصل ہوا کہ مسلم اور منافق کا نکھیڑ ہوگیا جو اس سے پہلے اس طرح واضح نہ تھا اور قومی زندگی کے لیے یہ ایک بہت بڑا اور اہم معاملہ تھا بلکہ یہ اسلامی عمارت کی بنیاد تھی۔ اس میں اس جماعت کا ذکر ہے جو میدان احد میں لشکر کفار کے مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے اور ان کو کسی طرح کی لیعت و لعل نہ تھی اگرچہ ان ہی میں سے چند لوگوں کی غلطی سے پوری جماعت کو نقصان اٹھانا پڑا لیکن باوجود نقصان اٹھانے کے ان کے دلوں میں کمزوری پیدا نہ ہوئی بلکہ وہ خالص سونے کی طرح ” اب کندن “ بن گئے۔ ان کو جو غم و افسوس ہوا وہ بالکل وقتی تھا جو اسی میدان میں کافور ہوگیا۔ وہ واپس لوٹے تو ان کے دل ہر طرح سے مطمئن تھے اور خوف و ہراس نام کی کوئی شے اب ان میں موجود نہ تھی۔ بہانے تراشنے والوں کو بھی ایک بہانہ مل گیا : 283 : لیکن ایک دوسری جماعت بھی تھی جو نام کے لحاظ سے تو مسلمان ہی تھی اگرچہ کام کے لحاظ سے وہ کفار سے بھی بدتر تھی۔ یہ جماعت کیا تھی ؟ وہی عبداللہ بن ابی کی پارٹی جو میدان جنگ میں آنے کے لیے راضی نہ تھی اور اسی بات کو بہانہ بنا کر وہ واپس مدینہ لوٹ گئی تھی۔ ان لوگوں کو گھر بیٹھے ہی یہ فکر کھائے جا رہی تھی جب انہوں نے یہ سنا کہ لشکر اسلام تتر بتتر ہوگیا اور بہت سے لوگ میدان جنگ میں کام آئے۔ ان کا خیال تھا کہ اب مکہ کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو ہمارا کیا بنے گا ؟ اس لیے کہ یہ لوگ منہ سے تو اسلام کے مدعی تھے۔ اس طرح ان کو اپنی جانوں ہی کی فکر لگی رہی۔ وہ کہتے تھے جو کچھ ہوا اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟ اگر رسول اللہ ﷺ اللہ کا رسول ہوتا تو ایسی حالت پیش ہی کیوں آتی ؟ اور یہ بھی کہتے تھے کہ میدان احد میں جانے والوں نے ہماری بات نہ مانی اس لیے اب چکھ لیں مزہ وہ میدان جنگ میں جانے کا اور یہ کہ اگر ہماری بات مانی ہوتی تو یہ لوگ میدان جنگ میں کیوں مارے جاتے ؟ یہ اور اس طرح کی بت سی باتیں وہ بناتے رہے۔ لیکن جب بہت سے خیال ان کے غلط نکلے۔ مکہ والے مدینہ پر حملہ کی جرأت کیا کرتے وہ تو بمشکل جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے تھے تاہم ایک بات ان کے لیے بہانہ بن گئی کہ ” ہماری بات نہ مان کر پیغمبر اور اس کے ساتھیوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ “ اس طرح گویا ایک ہی واقعہ نے دونوں گروہوں کو اپنے اپنے موقف میں پکا کردیا۔ سچے مسلمانوں کو اسلام کی سچائی اور منافقین کو نفاق پر اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ فائدہ میں کون رہا اور نقصان کس کا ہوا ؟ دوسری جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : بَلْ ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّنْقَلِبَ الرَّسُوْلُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ اِِلٰٓی اَہْلِیْہِمْ اَبَدًا وَّزُیِّنَ ذٰلِکَ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئِ وَکُنْتُمْ قَوْمًام بُوْرًا (الفتح : 12:48) ” تم نے یوں سجھا کہ رسول اللہ اور مومنین اپنے گھروں میں پلٹ کر نہ آسکیں گے اور یہ خیال تمہارے دلوں کو بہت بھلا لگا اور تم نے بہت بڑے گمان کیے اور تم سخت بدباطن لوگ ہو۔ “ یعنی تم اس بات پر خوش ہو کہ رسول اور اس کا ساتھ دینے والے اہل ایمان جس خطرے کے منہ میں جا رہے تھے اس سے تم نے اپنے آپ کو بچالیا ہے۔ تمہاری نگاہ میں یہ بڑی دانشمندی کا کام ہے اور تمہیں اس بات پر خوش ہوتے بھی شرم نہ آئی کہ رسول اور اہل ایمان ایک ایسی مہم پر جا رہے ہیں جس سے وہ بچ کر نہ آئیں گے۔ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی تم اس پر مضطرب نہ ہوئے بلکہ اپنی یہ حرکت تمہیں بہت اچھی معلوم ہوئی کہ تم نے اپنے آپ کو رسول کے ساتھ اس خطرے میں نہیں ڈالا۔ تف ہے تم پر کہ تم نے کیا سوچا ؟ منافقین کہہ رے تھے کہ ہمارا کوئی اختیار چلتا ہے ؟ 284 : غزوہ احد میں منافقین نے جس بات کا اظہار کیا تھا تو وہ یہی تھے کہ اتنے بڑے لشکر کے ہاتھ سے کھلے میدان میں مسلمان مارے جائیں گے لیکن ان کے دلوں میں جو کچھ چھپا تھا وہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا تھا۔ اب جو اقعات جنگ کی خبر ان کو پہنچی تو وہ اور بھی باتیں بنانے لگے اور اپنے مشوروں کی اہمیت کھل کر بیان کرنے لگے اور اس نازک موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارا بھی اس معاملہ میں کچھ اختیار ہے ؟ یعنی اگر ہماری بت مان لی جاتی تو یہ تکلیف نہ پہنچتی ” مَا قُتْلِنَا ھٰھُنَا “ تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے۔ یہ فقرہ استعمال کر کے گویا وہ یہ باور کرا رہے ہیں کہ مسلمانوں کا نقصان ان ہی کا نقصان ہے حالانکہ وہ تو اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا یہ کہنا حقیقت کے بالکل خلاف تھا اور منافق ہمیشہ جو کہتا ہے وہ حقیقت کے خلاف ہی ہوتاے اور یہی اس کے نفاق کی علامت ہے۔ ان کی اس بیہودہ گوئی کا جواب یہ دیا گیا کہ جن مسلمانوں نے جاں نثاری کی ہے اور وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس طرح جان دینے کو تیار تھے کہ اگر مدینہ میں رہ کر جنگ ہوتی تو بھی وہ کوئی اپنے گھروں میں چھپے نہ بیٹھے رہتے بلکہ دشمن کے مقابلہ میں جنگ کرتے اور جن کو شہادت پانا تھی وہ یقینا یہاں بھی شہادت پاتے لیکن اللہ تعالیٰ کو یقینا یہ منظور تھا کہ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے باہر کھلے میدان میں نکل کر جاں نثاری کا سچا نمونہ دکھائیں اور اس طرح کامیابی و کامرانی سے اس دنیا سے رخصت ہوں کہ جاتے ہی اس ابدی زندگی کی کامرانیوں کو حاصل کرلیں اور ان کی شہادت کا خون باقی رہنے والوں کے لیے وہ رنگ لائے کہ ان کی قومی زندگی میں ایک نئی زندگی کی روح پھونک دے۔ پھر فرمایا کہ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ جو کچھ بعض سینوں کے اندر مخفی تھا وہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر کردیا جن دلوں میں منافقت اور کھوٹ تھا ان کا کھوٹ ظاہر ہوگیا اور جن کے دلوں میں بعض کمزوریاں تھیں جو انہی منافقوں کے کہنے سننے سے آگئی تھیں ان کی وہ کمزوریاں دور کردی گئیں اگر اس طرح حالات کھل کر سامنے نہ آتے تو کھرا اور کھوٹا کس طرح واضح ہوتا ؟ موت تو ہر ایک کے لیے لازم و ضروری ہے اگر ان لوگوں کی شہادت تم کو ناگوار گزرتی ہے تو آخر کیوں ؟ وہ تو شہادت پا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید ہوگئے۔ تم اس طرح کی الٹی ٹیڑھی باتیں کہنے والے تو ہمیشہ زندہ رہو گے ؟ آخر کیسے ؟ جب کوئی یہاں ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے آیا ہی نہیں اور کسی شخص کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اور کہاں مرے گا ؟ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتٍ (لقمان : 34" 31) ” کس شخص کو خبر ہے کہ سک سرزمین میں اس کو موت آئے گی ؟ اس طرح کی باتیں بنانے والوں کے متعلق دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے : قُلْ فَادْرَئُ وْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (ال عمران : 168:3) ” اے پیغمبر اسلام ! تم کہہ دو اچھا اگر تم واقعی اپنے اس خیال میں سچے ہو تو جب موت تمہارے سرہانے آ کھڑی ہو تو اسے باہر نکال کرنا اور خود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہنا۔ “ مزید تفصیل کے لیے دیکھو 265 تا 266 جلد ہذا۔ جس شخص کو جہاں مرنا ہے وہ دوڑ کر وہاں پہنچ جاتا ہے : 285: اس کی وضاحت جملہ کے اندر موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ احکام تکوینی تقدیری سے باہر رہنا کسی کے لیے کسی صورت بھی ممکن نہیں کوئی نہ کوئی ظاہری سبب بھی انسان کے مرنے کی جگہ تک اس کے کھنچ کر آنے کا ضرور نکل آتا ہے اور روزمرہ کے حالات اس کی شہادت آج بھی پیش کر رہے ہیں۔ دعا یہ کرنا چاہیے کہ موت جب بھی ہو اور جہاں بھی ہو بامقصد ہو بےمقصد نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہونے سے آخر بڑا مقصود اور کیا ہو سکتا ہے ؟ مومن اگر کفر کے مقابلہ میں میدان جنگ میں قتل ہوجائے تو اس کی بڑی سے بڑی فتح مندی ہے ایسی فتح مندی جس سے بڑی فتح مندی کی وہ اپنی ذات کے لیے آرزو کر ہی نہیں سکتا۔ آنا ن کہ غم تو برگزید ند ہمہ درکوئے شہادت آرمیدنہ ہمہ در معرکہ دو کون فتح از عشق است با آنکہ سپاہ او شہیدند ہمہ دوسرے اگر لڑیں اور دشمنوں پر غالب نہ آسکیں تو ان کی ہار ہوئی لیکن موت وہ ہے جو ہار کے معنی سے ناواقف رکھا گیا ہے۔ وہ اگر کسی میدان میں غالب نہ آئے جب بھی جیت اس کی ہے کیونکہ اس کی ہار جیت کا معیار میدان جنگ نہیں ہوتا بلکہ خود اس کی طلب وسعی ہوتی ہے اگر وہ اپنی سعی و طلب میں پورا نکلا تو اس نے میدان مار لیا اگرچہ میدان جنگ میں اس کی لاش ہزاروں لاشوں کے نیچے دبی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس راہ میں وہ کبھی مر نہیں سکتا اس لیے کہ اس کی موت بھی اس کی زندگی ہوتی ہے اگرچہ وہ ” وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ “ کی قید اپنے اندر رکھتی ہے۔ مومن کی منزل مقصود کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ حق کی راہ میں رواں دواں رہے اور کبھی رکے نہیں اس کا ہر قدم جو چلتا رہا فتح مندی ہے اور ہر قدم جو رک گیا وہ نامردی۔ رہرواں راخستگی براہ نیست عشق ہم راہ است و ہم خود منزل است ایک بار پھر اس جملہ کا ترجمہ پڑھو کہ ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے کہہ دو اگر تم اپنے گھروں میں بیٹھے ہوتے جب بھی جن کے لیے مارا جانا تھا وہ گھر سے خود نکلتے اور اپنے مارے جانے کی جگہ پہنچ کر رہتے۔ “ آزمائش ہی سے کھرا اور کھوٹا نکھرتا ہے اور قومی زندگی کے لیے نکھار ضروری ہے : 286 : واقعہ احد میں جو لغزشیں اور خطائیں بعض اصحاب کرام سے صادر ہوئیں وہ اپنی ذات میں بڑی شدید اور سخت تھیں جس مورچہ پر پچاس تیرانداز صحابہ کرام ؓ کو یہ حکم دے کر بٹھایا گیا تھا کہ ہم پر کچھ بھی حال گزرے تم یہاں سے نہ ہٹنا ان کی بڑی تعداد یہاں سے ہٹ گئی اگرچہ یہاں سے ہٹنے کا سبب اجتہادی غلطی سہی کہ اب فتح ہوچکی ہے لہٰذا اس حکم کی تعمیل پوری ہوچکی ہے یہاں سے نیچے آ کر صحابہ ؓ سے مل جانا چاہیے مگر درحقیقت نبی اعظم و آخر ﷺ کی واضح ہدایات کے خلاف تھا اس خطا و قصور کے نتیجہ میں میدان جنگ سے بھاگنے کی غلطی سرزد ہوئی اور پھر اس غلطی کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑا تاہم رسول اللہ ﷺ کی اصل حیثیت اور سپہ سالار اعظم کی ہدایت پر قائم رہنے کی اہمیت اس سے واضح ہوگئی۔ شہادت جن کا مقدر تھی ان کو مل گئی اور باقی مجاہدین پر یہ واضح ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ اور سپہ سالار کے آرڈر کی پابندی کس قدر ضروری ہے ؟ ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جس پھسلان سے انسان کے قدم پھسلنے کے ساتھ ہی سنبھل جائیں اور پھر وہ ایسی پھسلان کے قریب نہ جائے وہ یقینا اس کی ترقی کا باعث ہوتی اور اس لحاظ سے یقینا جنگ احد مسلمانوں کی ترقی کا باعث ہوئی۔ پھر اس سے یہ سب بھی حاصل ہوا کہ جس لغزش کو انسان لغزش تسلیم کرتے ہوئے ازالہ کی کوشش کرے وہ لغزش لغزش نہیں رہتی بلکہ اس سے کھرا اور کھوٹا نکھر جاتا ہے اور اس طرح زندگی میں وہ نکھار آتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا جو شہادت کا جام نوش نہ کرسکے اور غازی بن کر میدان جنگ سے نکلے اور ان کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا جو شہادت کا جام پی گئی۔ پہلے دوبارہ اس زندگی میں کبھی اس طرح کی لغزش میں مبتلا نہ ہوئے اور دوسرے بامقصد موت پا کر ابدی زندگی حاصل کر گئے اور اس طرح دونوں فریق کامیاب و کامران قرار پائے اس لیے کہ ان دونوں کا دعویٰ ایمان سچا تھا اور منافقین کی جماعت سے پہلے ہی گلو خلاصی ہوچکی تھی۔ جنگ احد کے اس واقعہ میں مسلمانوں کے لیے بیشمار اسباق رکھے گئے ہیں اور سب سے بڑا سبق اس میں یہ ہے کہ ایک گناہ کو کھینچ لاتا ہے جیسے ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچتی ہے یعنی اعمال حسنہ اور سئیہ دونوں میں تجاذب ہے۔ جب انسان کوئی ایک نیک کام کرلیتا ہے تو تجربہ شاہد ہے کہ اس کے لیے دوسری نیکیاں بھی آسان ہوجاتی ہیں۔ اس کے دل میں نیک اعمال کی رغبت بڑھ جاتی ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ ” نیک کام کی ایک نقد جزاء وہ دوسری نیکی ہے جس کی توفیق اس کی ہوجاتی ہے اور برے عمل کی ایک سزا وہ دوسرا گناہ ہے جس کے لیے پہلے گناہ نے راستہ ہموار کردیا ہے۔ “
Top