Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 43
هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓئِكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا
هُوَ الَّذِيْ : وہی جو يُصَلِّيْ : رحمت بھیجتا ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَمَلٰٓئِكَتُهٗ : اور اس کے فرشتے لِيُخْرِجَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں نکالے مِّنَ : سے الظُّلُمٰتِ : اندھیروں اِلَى النُّوْرِ ۭ : نور کی طرف وَكَانَ : اور ہے بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَحِيْمًا : مہربان
وہی تو ہے جو تم پر اپنی رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ اللہ تمہیں تاریکیوں سے (نکال کر) روشنی کی طرف لے آئے اور اللہ ایمان والوں کے ساتھ (خاص کر) پیار کرنے والا ہے ، (وہ یقینا غلطیاں معاف فرمائے گا)
اللہ تعالیٰ ہم پر رحمت نازل کرتا ہے اور اس کے فرشتے بھی دعا میں مصروف ہیں 43 ۔ غور کرو کہ ایک ہی چیز کا جب مرجع بدلا جاتا ہے تو اس کا مفہوم بھی بدل جاتا ہے اگر یہ بات لوگوں کو یاد رہے تو سارے جھگڑے ختم ہوکررہ جائیں مثلاً یہ کہ اللہ خالق ہے اور قرآن کریم نے کتنی وضاحت سے بیان کیا ہے کہ اس کے سوا کوئی خالق نہیں ہے یہاں تک کہ لوگوں کو چیلنج کیا ہے کہ { ھذا…………………… دونہ } (لقمن 11:31) ” یہ سب تو اللہ کی تخلیق ہے اب ذرا مجھے دکھائو ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے ؟ “ یہ چیلنج کیوں کیا ؟ اس لئے کہ اس نے اس کی وضاحت بہت سی جگہوں پر کردی کہ { والذین……………… یخلقون } (النحل 20:16) ” اور اللہ کے سوا جن ہستیوں کو یہ پکارتے ہیں ان کا تو حال یہ ہے کہ وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے وہ تو خود کسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں “۔ گویا اس پروردگار نے اپنی پروردگار یوں کا یہ تمام کارخانہ پیدا کردیا ہے کیا کوئی دوسری ہستی اس کے برابر ہوسکتی ہے ؟ کیا وہ ہستی جو یہ سب کچھ پیدا کررہی ہے او وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتی دونوں برابر ہوسکتی ہیں ؟ معلوم ہوا کہ کوئی نبی ورسول ہو یا جن وفرشتہ سب کے سب مخلوق ہیں اور جو خود مخلوق ہیں وہ خالق نہیں ہوسکتے اتنی رضاعت کے بعد وہ اس فعل خلق کا فاعل کسی دوسرے کو قرار دے یا کوئی دوسرا اپنے آپ کو خلق کا فاعل کہے تو واضح ہوا کہ جب خلق کا مرجع بدل گیا تو اس کے معنی وہ نہ رہے جو اللہ تعالیٰ کے مرجع ہوتے وقت تھے لہٰذا اس خلق کے معنی پیدا کرنے کے نہیں ہوسکتے ہاں ! کسی چیز کے بنانے اور ترتیب دینے ، درست کرنے اور اندازہ کرنے کے ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی دوسرا مردہ کو زندہ نہیں کرسکتا اگر کسی انسان کی طرف اس فعل کی نسبت ہوگی تو معنی کچھ اور ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی سب انسانوں اور جانداروں کو آنکھیں دینے والا ہے کوئی انسان کسی دوسرے کو بینائی نہیں عطا کرسکتا لہٰذا جب کسی اندھے کو درست کرنے کے فعل کی نسبت کسی غیر اللہ کی طرف ہوگی تو اس کے معنی بدل جائیں گے کیونکہ اس فعل کا مرجع بدل گیا ہے۔ یہ بات اتنی واضح الفاظ میں میں نے کیوں کہی ؟ محض اس لئے کہ آپ کی سمجھ میں ایک بات آجائے کہ مرجع بدلنے سے معنی بدل جاتے ہیں اور یہ بات اس جگہ عرض کیوں کی جارہی ہے ؟ اس لئے کہ زیر نظر آیت میں { یصلی } کا لفظ آیا ہے جس کا فاعل اللہ تعالیٰ بھی ہے اور فرشتے بھی اور مرجع بدلنے سے اس کے معنی بھی بدل دیئے گئے ہیں جیسا کہ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ { صلوۃ } اللہ کی طرف سے رحمت ہے اور فرشتوں کی طرف سے استغفار یعنی دعائے مغفرت ۔ اس کی رضاعت اس طرح کی گئی ہے کہ بندے پر اللہ تعالیٰ کی صلوٰۃ بھیجنے کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے ملائکہ کے سامنے اپنے مقبول بندے کی تعریف فرماتا ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتوں کے صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش اور رحمت کی التجائیں کرتے ہیں (بخاری) گویا صلوٰۃ کا لفظ تو ایک ہی ہے لیکن اس کا مرجع بدلنے سے یہ فرق لاحق ہوجاتا ہے۔ پھر نتیجہ دونوں باتوں کا ایک ہی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کو اندھیروں سے نکلنے اور روشنی میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمادیتا ہے اور وہ اعتقاد وعمل کی کوتاہی ، غفلت اور سستی کے جن اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا ہے اس سے اس کو نکال باہر کرتا ہے کیونکہ وہ ایمان والوں کے ساتھ نہایت شفیق ومہربان ہے دنیا کی رحمت تو انسان پر یہ ہے کہ وہ برائیوں سے بچ کر نیکی کی طرف راغب ہوجائے اور شرک وکفر کے اندھیروں سے نکل کر توحید الٰہی اور سنت رسول کا شیدائی ہو اور آخرت کی رحمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس دارفانی سے داربقا کی طرف ایمان وعمل صالح کے ساتھ منتقل کردے اور زہے قسمت کو یہ بات کسی کی نصیب ہو۔
Top