Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 70
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَقُوْلُوْا : اور کہو قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور (ہمیشہ) سیدھی (صاف اور ستھری) بات کیا کرو
ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، بات سیدھی اور صاف کرو 70 ۔ ایمان والوں کو مخاطب کرکے ان کو سیدھی اور صاف بات کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ، قول سدید کے معنی سچی بات ، سیدھی بات اور صحیح بات کے ہیں چناچہ سدید کا لفظ ان سب معنوں پر محیط ہے اس لئے ایسے لفظ سے حکم دیا تاکہ اس میں ساری باتیں بھی شامل ہوجائیں یعنی ایسی سچی بات ہو کہ جھوٹ کا اس میں شائبہ تک نہ ہو ، صواب ہو جس میں خطا کا شائبہ تک نہ ہو ، ٹھیک بات ہو اس میں مذاق اور دل لگی نہ ہو ، نرم بات ہو دلخراش نہ ہو بلا شبہ زبان کی اصلاح باقی اعضاء و اعمال کی اصلاح میں موثر ذریعہ ہے اور یہ حکم تمام مسلمانوں کے لئے یکساں حیثیت رکھتا ہے اور ساتھ ہی تقویٰ کی نصیحت فرمائی گئی کیونکہ تقویٰ ہی دراصل تمام احکام الٰہیہ کی مکمل اطاعت ہے کہ اس سے انسان تمام اوامر کی تعمیل کرتا ہے ، تمامنہیات اور مکروہات سے اجتناب کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کو جو شخص زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے وہ جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ آپ ﷺ نے اکثر لوگوں کو زبان کے روکنے کی نصیحت فرمائی۔ عورتوں کی اکثریت کے دوزخ جانے کی وجہ بھی زبان ہی قرار دی۔ زیر نظر آیت میں ارشاد فرمایا کو جو قول سدید اختیار کرتا ہے اس کے اعمال کی خود بخود اصلاح ہوجاتی ہے معلوم ہوا کہ قول سدید کا نتیجہ اصلاح اعمال ہے گویا جس شخص نے اپنی زبان کی اصلاح کرلی اس نے خیر کثیراکھٹی کرلی اور اللہ تعالیٰ اس کی لغزشوں کو بھی ضرور معاف فرمادے گا بلکہ اس کا وعدہ ہے اور یہ بات معلوم ہی ہے کہ وعدہ خداوندی پتھر پر لکیر ہے جس کے غلط ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں اور یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے جو زبان کو صاف ، سیدھی اور صحیح رکھنے کا صلہ ہے۔ غور کرو تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ سارے دین کا خلاصہ تقویٰ ہے اور اسمیں پورا اترنا نہایت ہی مشقت ہے اس جگہ تقویٰ اختیار کرنے کی صورت مذکور ہوئی ہے وہ قول سدید ہے اور جو شخص لوگوں کو ایذا دینے سے باز نہیں آتا وہ تقویٰ حاصل نہیں کرسکتا اور جو تقویٰ حاصل نہیں کرسکتا اس کی بات سیدھی اور صاف نہیں ہوسکتی کیونکہ جس کی زبان صاف ، سیدھی اور سچی نہیں وہ متقی نہیں ہوسکتا گویا دونوں ہی آپس میں لازم وملزوم ہیں تقویٰ بھی اور زبان بھی۔ زبان صحیح اور درست ہوگی تو یقینا وہ متقی آدمی ہوگا اور الر آدمی متقی اور پرہیز گار ہوگا تو یقینا اس کی زبان بھی صحیح ، سیدھی اور صاف بات کہے گی اور اس طرح زبان و کلام کی درستی دین و دنیا دونوں کے کام درست کرنے والی شے ہے۔ لسان نبوی میں مسلم ہی وہ کہلا سکتا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کوئی شخص دکھ نہ پائے چناچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔
Top