Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
اے ایمان والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ستایا تھا پھر اللہ نے ان (کی تہمت) سے اس کو بری ثابت کردیا اور اللہ کے نزدیک وہ بڑا ہی باوقار (عزت والا) تھا
ایمان والو ! تم اپنے رسول کو موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح مت دکھ دو 69 ۔ ” اے ایمان والو ! “ کا خطاب قرآن کریم میں ہر اس آدمی سے ہے جس نے ایمان لانے کا دعویٰ کیا ہے او یہ بات اپنی جگہ حق ہے کہ ہر دعویٰ کرنے والا اپنے دعویٰ میں سچا نہیں ہوتا یا جس طرح کہ اس کو سچا ہونا چاہیے اس طرح کا سچا نہیں ہوتا تاہم اس کو خطاب تو اس طرح کیا جاسکتا ہے اور اس طرح کیا گیا ہے اور بلا شبہ ضعیف ال ایمان لوگ یا منافق ہمیشہ انبیاء کرام کے پے آزار ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بہرحال مسلمانوں میں بھی موجود تھے اور موجود ہیں۔ زیر نظر آیت میں ان کو مخاطب کرکے کہا جارہا ہے کہ اے ایمان والو ! تم یہود کی طرح مت ہوجائو اور ان کی طرح پیغمبر اسلام کو مت ستائو جس طرح انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ستایا تھا اگر تم نے کوئی حرکت ایسی کی تو اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو تمہاری باتوں سے اسی طرح بچالے گا جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم سے بچایا اس لئے کہ ہمارا پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاں بہت بڑی شان و شوکت والا ہے جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی اپنی قوم میں ایک صاحب جلال نبی ورسول تھا۔ بلا شبہ بنی اسرائیل نے اپنے محسن رسول موسیٰ (علیہ السلام) کو بات بات پر دکھ دیا اور اپنی جہالت کے باعث ان کی وعزت و تکریم نہ کی جو کہ ان کو کرنی چاہیے تھی۔ یہود موسیٰ علہ السلام کو رسول بھی مانتے تھے اور قدم قدم پر ان کی مخالفت بھی کرتے تھے اور ان کے حکم سے سرتابی کرنا ان کا شیوہ ہوچکا تھا۔ بنی اسرائیل کی زندگی کا وہ دور جس دور میں موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے نہایت ذلت اور غلامی کا دور تھا ، اسی ذلت اور غلامی کے دور سے نکالنے کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور ان کی مکمل حفاظت کرکے وہ وقت لایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نبوت و رسالت کا عہدہ پاکر مصر سے ہجرت کرنے کے لئے مبعوث ہوئے کہ بنی اسرائیل کو اس استبداد اور ظلم سے نکال کر رفعت آسمانی تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ تم یہاں سے ہجرت کرا کر ان کو فلسطین کی طرف لے چلو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے وہی کیا جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا لیکن جب ہجرت کرکے نکلے تو چند قدم بھی نہ نکلے تھے کہ بنی اسرائیل نے اس طرح کہنا شروع کردیا کہ : ” خداوندہی دیکھے اور تمہارا انصاف کرے کیونکہ تم نے ہم کو فرعون اور اس کے خادموں کی نگاہ میں ایسا گھنائونا کیا ہے ہمارے قتل کے لئے ان کے ہاتھ میں تلوار دے دی “۔ (خروج باب 22 , 21:5) بلا شبہ فرعون نے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا اور ابھی وہ بحرقلزم سے پار نہیں ہوئے تھے تو ان کو جالیا یعنی دیکھ لیا ، ادھر موسیٰ (علیہ السلام) بھی بنی اسرائیل کو عین اسی محاذ پر لے گئے جہاں سے ہدایت الٰہی کے مطابق بنی اسرائیل کو پار نکالنا چاہتے تھے۔ آپ نے اپنی لاٹھی سے ضرب لگاتے ہوئے نشاندہی کردی کہ یہاں سے یہاں تک دریا میں سے تم جتنا جلدی گزر سکتے ہو گزر چلو اور اس طرح وہ اس جگہ سے بخیریت خشکی کی طرف دیکھتے ہی دیکھتے نکل گئے تھے اور ان کی آنکھوں کے سامنے اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو اس پانی میں غرق کردیا اور بنی اسرائیل اس منظرکو دیکھ رہے تھے لیکن جب وہ سینا میں پہنچے تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کرکے کہا کہ : ” کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہم کو وہاں سے مرنے کے لئے بیابان میں لایا تو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہم کو مصر سے نکال لایا ، کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں کیونکہ ہمارے لئے مصریوں کی خدمت کر بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا “۔ (خروج 12 , 11:4) اس طرح جب بیابان میں دھوپ لگی اور پیاس نے تنگ کیا تو اس طرح پھول ان کے منہ سے جھڑنے لگے : ” اس بیابان میں بنی اسرائیل کی ساری جماعت موسیٰ اور ہارون پر بڑ بڑانے لگی اور بنی اسرائیل کہنے لگے کاش کہ ہم خداوند کے ہاتھ سے ملک مصر میں اس وقت ہی ماردیئے جاتے جب ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دل بھر کر روٹی کھاتے تھے کیونکہ تم تو ہم کو اس بیابان میں اس لئے لے آئے ہو کہ سارے مجمع کو بھوکا مارو “۔ (خروک 3 , 2:16) یہ اور اسی طرح کے سینکڑوں دکھ دینے والی باتیں تورات میں آج بھی موجود ہیں لیکن ہمارے مفسرین نے اس کی جو تفسیر فرمائی وہ اس طرح ہے کہ ” موسیٰ (علیہ السلام) بہت حیا کرنے والے اور اپنے بدن کو چھپانے والے تھے ، ان کے بدن کو کوئی نہ دیکھتا تھا ، جب غسل کی ضرورت ہوتی تو پردہ کے اندر غسل کرتے تھے ، ان کی قوم بنی اسرائیل میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ مرد سب (مردوں) کے سامنے ننگے ہو کر نہاتے تھے تو بعض بنی اسرائیل کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو کسی کے سامنے نہیں نہاتے اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے بدن میں کوئی عیب ہے یا تو برص ہے اور یا خصیتین بہت بڑھے ہوئے ہیں یا کوئی اور آفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس طرح کے عیب سے برات کا اظہار فرمادیں۔ ایک روز موسیٰ (علیہ السلام) نے خلوت میں غسل کرنے کے لئے اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے اور جب غسل سے فارغ ہو کر اپنے کپڑے لینا چاہے تو یہ پتھر کپڑے لے کر بھاگنے لگا ، موسیٰ (علیہ السلام) اپنی لاٹھی لے کر پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے چلے ” ثوبی حجر شوبی حجر “ اے پتھر میرے کپڑے ، اے پتھر میرے کپڑے۔ “ مگر پتھر دوڑتا رہا یہاں تک کہ یہ پتھر ایسی جگہ جاکر ٹھہرا جہاں بنی اسرائیل کا ایک مجمع تھا اس وقت بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سر سے پائوں تک ننگا دیکھا تو بہترین صحیح وسالم بدن دیکھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی براءۃ ان عیوب سے سب کے سامنے ظاہر فرمادی پتھر یہاں پہنچ کر ٹھہر گیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے اٹھا کر پہن لئے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر کو لاٹھی سے مارنا شروع کردیا۔ خدا کی قسم ! اس پتھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی ضرب سے تین ، چار یا پانچ اثر قائم ہوگئے “۔ (معارف القرآن مفتی محمد شفیع ج 7 ص 239 بحوالہ بخاری شریف) علاوہ ازیں بھی روایات میں بیان ہوا ہے کہ اس ایذا موسیٰ سے کیا مراد ہے ؟ سیدنا علی ؓ سے روایت ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ایذا دینا آپ ﷺ پر ہارون کے قتل کا الزام دینا تھا۔ (ابن کثیر) اور بعض روایات میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر نعوذ باللہ زنا کا الزام لگایا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس سے آپ کی بریت فرمادی۔ (روح المعانی) اس آخری روایت کے مطابق بائیل کی کتاب گنتی 1:12 میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے ان پر ان کی بی بی کوشی کے متعلق کچھ الزام لگایا تھا لیکن اللہ نے اس الزام سے موسیٰ (علیہ السلام) کو بری کردیا اور اس کی تفصیل اس باب مذکورہ میں موجود ہے اور زیر نظر آیت کے شان نزول میں بھی لکھا ہے کہ زینب کے نکاح کیقصہ میں جو الزمات نبی اعظم وآخر ﷺ کے متعلق بیان کیے گئے ہیں ان ہی کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی اور بلا شبہ سیدہ زینب کے متعلق جو بعض قصے روایات میں آگئے ہیں یہ منافقین کی چالوں ہی کا نتیجہ ہیں لہٰذا اسی مناسبت سے ہی اس کو اس جگہ بیان کیا گیا ہو عین ممکن ہے اور مجموعی طور پر قرآن کریم نے اس طرح ان سارے قصوں کی تردید کردی ہے ۔ تاہم بخاری شریف اور مسلم شریف کی روایت کے متعلق خاموشی سے نہیں گزرا جاسکتا جن کو مفسرین نے اس جگہ بیان کیا ہے۔ اس کے متعلق اتنی گزارش ہے کہ ایک نظر ان کو اصل کتب سے دیکھ لیا جائے۔ عن ابی ہریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ ان موسیٰ کان رجل حیاستیر الایری من جلدہ شی استحیاء منہ فاذاہ من اذاہ من بنی اسرائیل فقالوا ما یستتر ھذا التستر الا من عیب بجلدہ اما برض واما ادرۃ واما افۃ وان اللہ ارادان یبرئہ مما قالو الموسی فخلا یوما وحد فوضع ثیابہ علی الحجر ثم اغتسل فلما فرغ اقبل الی ثیابہ خذھاوان الحجر علما بثوبہ فاخذ موسیٰ عصاہ وطلب الحجر فجعل یقول ثوبی حجر ثوبی حجر حتی انتھی الی ملاء من بنی اسرائیل فراوہ عریانا احسن ما خلق اللہ وابرہ مما یقولون وقام الحجر فاخذ ثوبہ فلبسہ وطفق بالحجر ضربا بعصاہ فو اللہ ان بالحجر لندبامن اثر ضربہ ثلثا اواربعا او خمسا فذلک قولہ یایھا الذین امنولا تکونو کالذین اذو موسیٰ فبتراہ اللہ مما قالوا وکان عنداللہ وجیھا (بخاری کتاب الانبیائ) حدثنا ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ فذکر احادیث منھا وقال رسول اللہ ﷺ کانت بنو اسرائیل یغتسلون عراۃ ینظر بعضھم الی سوء ۃ بعض و کان موسیٰ (علیہ السلام) یغتسل وحدہ فقالوا واللہ ما یمنع موسیٰ (علیہ السلام) ان یغتسل معنا الا انہ ادر قال فذھب مسرۃ یغتسل فوضع ثوبہ علی حجرففر الحجر بثوبہ فجمع موسیٰ (علیہ السلام) باثرہ یقول ثوبی حجر ثوبی حجر حتی نظرت بنو اسرائیل الی سوء ۃ موسیٰ (علیہ السلام) فاقلوا واللہ مابموسی من باس فقام الحجر بعد حتی نظر الیہ قال ناخذ ثوبہ فطفق بالحجر ضربا قال ابوہریرہ ؓ واللہ انہ باحجر ندبا ستتہ اوسبعۃ ضرب موسیٰ (علیہ السلام) بالحجر۔ (رواہ مسلم کتاب الفضائل) عن ابی ہریرہ ؓ قال کان موسیٰ (علیہ السلام) رجلا حییا قال فکان لایریٰ متجرداً قال فقال بنو اسرائیل انہ ادر قال فغتسل عند مویہ فوضع ثوبہ علی حجر فانطلق الحجر یسعی واتبعہ بعصاہ یضربہ ثوبی حجر ثوبی حجر حتی وقف علی ملاء من بنی اسرائیل ونزل یا ایھا الذین امنو لا تکونوا کالذین اذوا موسیٰ فبراہ اللہ مما قالوا وکان عنداللہ وجیھا۔ (رواہ مسلم ، کتاب الفضائل) ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ایسے باحیا اور پوشاک پوش تھے کہ آپ کے جسم کی جلد تک کو کسی نے نہیں دیکھا تھا ایسے حیاوالے آدمی کو بھی قوم کے لوگوں نے طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کیا اور بنی اسرائیل کے مرد جب بھی کہیں مل کر بیٹھتے تو اکثر اس کا تذکرہ کرتے کہ موسیٰ کو آج تک کبھی نہاتے نہیں دیکھا گیا جب کہ ہمارے مرد اکثراوقات ایک جگہ پر نہالیا کرتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ کی جلد میں ضرور کوئی عیب ہے خواہ برص ہے خواہ باد ہے یا کسی اور مصیبت میں وہ مبتلا ہے اللہ کی شان کہ ایک روز موسیٰ (علیہ السلام) اپنی سواری پر کہیں جا رہے تھے کہ راستہ میں کوئی الگ تھلک لوگوں کی پہنچ سے دور تھوڑا سا پانی تھا ان کو خیال آیا کہ وہ اس جگہ غسل کرلیں چونکہ آپ اکیلے تھے اور سواری کے جانور پر اپنے کپڑے رکھے اور اس کو کھڑا کرکے نہانے لگے کہ اتنے میں وہ سواری کا جانور چل نکلا جب آپ نے نظر اٹھائی تاکہ اپنے کپڑے لے کر استعمال کریں تو کیا دیکھا کہ وہ سواری کا جانور تو آگے بڑھتا جارہا ہے آپ نے لاٹھی سنبھالی اور اس سواری کے جانور کے پیچھے چل پڑے اور منہ سے کہتے جاتے تھے اے جانور میرے کپڑے ، اے جانور میرے کپڑے یہاں تک کہ آپ بنی اسرائیل کی کسی مجلس کے قریب تک چلے گئے تو انہوں نے ان کو کپڑے اتارے ہوئے دیکھ لیا اور اس روز آپ کی جلد ان لوگوں نے اتفاقاً دیکھی اتنے میں وہ جانور بھی رک گیا اور آپ نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے اور انسانی فطرت کے مطابق اس غصہ کی حالت میں اس جانور کو تین ، چار ، پانچ یا سات ضربیں لگادیں اور آپ ہی کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور پھر آپ ﷺ نے سورة الاحزاب کی یہ آیت تلاوت کی یایھا الذین امنو لا لا تکونوا کالذین اذوا موسیٰ الخ ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے بالکل معمولی معمولی باتوں کے متعلق بھی اپنے رسول کو تکلیف میں مبتلا کیا اور آپ کی ذات پر بےبنیاد الزامات لگائے اور ایسی ایسی نازیبا حرکتیں بھی کی ہیں کہ جن کو سن کر آج بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تاہم موسیٰ (علیہ السلام) شرم وحیا کے پیکر تھے آپ پر قوم کی ایسی زیادتیوں کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور نہ ہی کبھی دل تنگ ہوئے زیر نظر روایت میں اور اس طرح کی دوسری روایات میں الحجر کا لفظ آیا ہے اس کو مترجمین نے حاء کے زبر سے پڑھا ہے اور اس کے معنی پتھر کے لئے ہے حالانکہ یہ لفظ الحجر حاء کی زیر ہے جس کے معنی مادہ گھوڑا کے ہیں اور اس لئے اس کو ہم نے سواری کا جانور قرار دیا ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ کے الفاظ اس پر دال ہیں جانور کے چل پڑنے پر موسیٰ (علیہ السلام) کو غصہ آیا کہ یہ ایک فطری چیز ہے کہ سواری سوار کو چھوڑ کر چل نکلے یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی لاٹھی سنبھالی اور اس کے پیچھے چل دیئے پھر جب وہر کی اور آپ نے اپنے کپڑے اس سے لے لیے اور پہن بھی لیے تو اس پر لاٹھی سے ضربیں لگائیں اور پھر لاٹھی کی ضربیں نظر آنے کا بھی آپ نے بیان کیا لیکن نہ تو آپ نے اس سے کوئی معجزہ مراد لیا اور نہ ہی اس پر کوئی تعجب کی بات ارشاد فرمائی۔ آپ ﷺ نے تو موسیٰ (علیہ السلام) کی محض فضیلت کو بیان فرمایا کہ آپ اتنے باحیاء اور شرم کے پیکر تھے اور پھر ظاہر ہے کہ وہ کبھی سارے جسم سے کپڑے اتار کر نہیں نہائے ہوں گے بلکہ آپ کے جسم کے اس حصہ پر ضرور کپڑے کا امکان ہے جس کو پردے کا مقام کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بات انبیاء کرام اور رسل عظام کے منصب کے مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی (رح) نے اپنی شرح فتح الباری میں یہ احتمال امام ابن الجوزی (رح) سے نقل بھی کیا ہے ملاحظہ ہو شرح حدیث ہذا۔ پھر یہ تمام روایات دونوں اماموں امام بخاری (رح) اور امام مسلم (رح) نے فضائل میں درج کی ہیں جس سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی فضیلت ظاہر کرنا ہے نہ کہ اس میں کسی معجزہ کا اثبات پیش نظر ہے۔ مترجمین نے سواری کے جانور کو خواہ مخواہ پتھر بنا کر اور جانور پر ضربیں مارنے کے عمل کو پتھر پر ضربیں لگانے سے منسوب کرکے ایک ایسی بات ثابت کرنا شروع کردی ہے جس اثبات ونفی کا اس جگہ کوئی ذکر ہیں ہے۔ چناچہ اس سے جو کچھ آپ ﷺ ثابت کرنا چاہتے تھے اس کا ذکر آپ ﷺ نے اس طرح کردیا کہ ” آج سے نہیں مدت سے یہ بات چلی آرہی ہے کہ لوگ انبیاء کرام اور رسل عظام کے بارے میں مخالفت کے باعث ایسی ایسی باتیں بھی کہہ دیتے ہیں جن کا تعلق کسی نبی ورسول سے ہرگز نہیں ہوتا جیسا کہ ایک مقام پر آپ ﷺ جنگ حنین کے مال غنیمت کو تقسیم کر رہے تھے ، جب مال تقسیم ہوگیا تو ایک صاحب بولے ان ھذہ لقسمۃ ما ارید بھا وجہ اللہ بلا شبہ اس تقسیم سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی مقصود نہیں ہے جب اس کی یہ بات آپ ﷺ تک پہنچائی گئی تو آپ ﷺ کو بہت صدمہ ہوا اور غصہ بھی کیونکہ آپ ﷺ کا چہرہ پر اس کے اثرات پائے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ان کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی لیکن انہوں نے بھی اس تکلیف پر نہایت حد تک صبر کیا “ چناچہ گزشتہ حدیث کے ساتھ آگے یہ حدیث بھی ہے : عن الا عمش قال سمعت اباوائل قال سمعت عبداللہ ؓ قال قسم النبی ﷺ قسما فقال رجل ان ھذہ لقمسۃ ما ارید بھا وجہ اللہ فاتیت النبی ﷺ فاخبرتہ فغضب حتی رایت الغضب فی وجھہ ثم قال یرحم اللہ موسیٰ قداودی باکثر من ھذا فصبر۔ (بخاری کتاب الانبیائ) زیر نظر آیت اور ان روایات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ انبیاء کرام اور رسل عظام کو قوم کے منافقین ومعاندین نے اذیت اور تکلیف دینے میں معمولی سے معمولی باتوں میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور اذیت دینے کی ایسی ایسی راہیں تلاش کرتے رہے کہ ان کے حسن کردار کو بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود کبھی کوئی نبی ورسول ان باتوں سے جو اس کی ذاتیات کے متعلق کبھی بددل نہ ہوا اور اس کے مقابلہ میں اگر اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے متعلق کسی نے شرک کا کوئی کام کیا تو اس کو کوئی نبی ورسول بھی برداشت نہ کرسکا اور فوراً قوم کے سامنے کھڑا ہوگیا اور توحید کے تبلیغ شروع کردی خواہ اس کو کن مشکلات سے گزرنا پڑا پھر جب بات یہ ہے تو اللہ رب ذوالجلال والاکرام بھی اپنے کسی رسول اور نبی کی اس تکلیف اور اذیت کی کوئی پرواہ نہ کرتا ایسا نہ ہوسکتا تھا اور نہ ہوا یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو انجام کار دنیا میں بھی عذاب الٰہی میں گرفتار کیا گیا اور اس عذاب میں انہوں نے تڑپ تڑپ کر جانیں دیں اور آخرت میں بھی وہ دوزخ کے سخت ترین عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے جہاں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رکھا جائے گا اور بلا شبہ کوئی صورت ان کے نکلنے کی نہ ہوگی۔
Top