Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 7
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ١۪ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِنَ : سے النَّبِيّٖنَ : نبیوں مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد وَمِنْكَ : اور تم سے وَمِنْ نُّوْحٍ : اور نوح سے وَّاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم وَمُوْسٰى : اور موسیٰ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ : اور مریم کے بیٹے عیسیٰ وَاَخَذْنَا : اور ہم نے لیا مِنْهُمْ : ان سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور جب ہم نے سارے نبیوں سے پختہ عہد لیا اور آپ سے بھی (اے پیغمبر اسلام ! ) اور نوح ، ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم (علیہم السلام) سے بھی اور ہم نے ان سب سے پختہ عہد لیا
7) ” اور جب ہم نے سارے نبیوں سے پختہ عہد لیا اور آپ ﷺ سے بھی اے پیغمبر اسلام ! “ اس عہد سے کون سا عہد مراد ہے ؟ ہمارے مفسرین کی اکثریت نے اس عہد سے وہ عہد مراد لیا ہے جس عہد کا ذکر سورة آل عمران کی آیت 80 میں کیا گیا ہے۔ وہ کیا عہد ہے جو محولہ آیت میں لیا گیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ ” اور دیکھو جب ایسا ہوا تھا کہ نبیوں سے عہد لیا تھا کہ ہم نے تم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے پھر اگر ایسا ہو کہ کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوا تمہارے پاس آئے جو تمہارے ساتھ ہے تو ضروری ہے کہ تم اسے مانو اور اس کی تائید کرو “۔ ایک ایک لفظ پر غور کرو اور خوب فکر کرتے ہوئے بتائو کہ کیا اس بات کا جو اس جگہ اس عہد کے متعلق واضح کی گئی اس کا کوئی ذکر اس جگہ موجود ہے سوائے اس کے کہ { اذاخذ اللہ میثاق النبیین } کے الفاظ ہیں باقی کسی بات میں کوئی مناسبت نہیں دوسرا یہ کہ اس آیت میں جو میثاق لیا گیا اس کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارے پاس جب کوئی رسول آجائے تو تم اس کی تصدیق کرنا گویا اس پر ایمان لانا تم پر ضروری قرار دیا گیا اور عہد لیا گیا ہے کہ کیا تم ایسا کرو گے ؟ تو سب نے کہا کہ ہاں ! زیر نظر آیت میں بیان تھا کہ ” ہم نے سارے نبیوں سے پختہ عہد لیا اور آپ ﷺ سے بھی اے پمبرن اسلام ! یہ عہد لیا۔ “ کہ جب بھی تم میں کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوا تمہارے پاس آئے جو تمہارے ساتھ تو ضروری ہے کہ تم اسے مانو۔ مفسرین نے چونکہ اس تفسیر کو اصل اور صحیح تفسیر قرار دیا ہے اس کے بعد ایک پنجاب میں متنبی پیدا ہوا جس نے انگریز خدا کی خدائی کو مانتے اور تسلیم کرتے ہوئے اس خدائے زمانہ کے نبی ہونے کا دعویٰ کردیا گویا جیسا خود خدا تھا ویسا ہی اس کا نبی تسلیم کرلیا گیا گویا کہ بناوٹی خدا کا بناوٹی نبی کی خوب پذیرائی کی اور گزشتہ مفسرین کے حوالے اس نے پیش کرکے سادہ لوح لوگوں کو خوب پھنسایا اور دھاندی اور لالچ سے ان کو متعدد بار پھنسانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں کچھ لوگ اپنی سادگی کے باعث اور کچھ دھونس سے اور زیادہ تر لالچ میں آکر پھنس گئے اور اس طرح اس کی جھوٹی نبوت کا کاروبار چل گیا۔ حالانکہ زیر نظر آیت میں اس میثاق کا شائبہ تک موجود نہیں تھا اور نہ ہی اس آیت کے میثاق کو اس عہد ومیثاق سے کوئی مناسبت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے بار بار اس کی وضاحت کی ہے کہ نبی ورسول جس طرح اپنے ماننے والوں کے لئے نبی ورسول ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ خود اپنی ذات کے لئے نبی ورسول ہوتا ہے جس طرح دوسرے لوگوں کو اس کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے بالکل اسی طرح اس کو بھی اپنی نبوت و رسالت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے جس طرح دوسرے لوگ ان احکام کے پابند ہوتے ہیں جو اس پر نازل ہوں اسی طرح اس کی ذات بھی اس کی پابند ہوتی ہے کہ وہ ان احکام کی پابندی کرے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے کہ ” اللہ کا رسول اس ” کلام “ پر ایمان رکھتا ہے جو اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر نازل ہوا ہے “۔ (البمقرہ 285:2) اور ظاہر ہے کہ اس جگہ رسول سے مراد محمد رسول اللہ ﷺ ہیں جس طرح رسول اللہ ﷺ پر جو کچھ نازل ہوا اس پر ایمان لانا آپ ﷺ کی امت کے ہر فرد کے لئے ضروری ہے اسی طرح آپ کے لئے بھی ضروری تھا اور اسی طرح دوسرے نبیوں کا بھی حال ہے کہ سارے انبیاء کرام اپنے اپنے لائے ہوئے احکامات کے پابند تھے کہ خود بھی اس کے مطابق عمل کریں اور لوگوں کو بھی ان کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کریں پھر اس کی وضاحت بہت سے دوسرے مقامات پر بھی کی گئی ہے ، مثلاً ارشاد الٰہی ہے کہ : شرع لکم…………………… الیہ (الشوری 13:42) ” اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوع کو دیا تھا اور جسے (اے پیغمبر اسلام ! ) اب ہم تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیج رہے ہیں اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں اس تائید کے ساتھ کہ اس دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو اور یہی بات ان مشرکوں کو سخت ناگوار گزرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ “ ذرا رک جائو آگے جانے سے پہلے غور کرو کہ زیر نظر آیت جس کی اس جگہ تفسیر کی جارہی ہے جن انبیاء ورسل کا نام یہاں لیا گیا ہے بالکل انہی کا ذکر اس ترتیب کے ساتھ سورة شوری کی آیت 13 میں کیا گیا اور اسی کی وصیت کرنا محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی ضروری قرار دیا گیا جس سے یہ بات لازم ٹھہرتی ہے کہ فی الواقعہ انہی احکام کی پابندی کا ذکر اس جگہ کیا گیا ہے اور پھر جب گزشتہ مضمون پر نظر دوڑائی جاتی ہے تو بات اور بھی صاف ہوجاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے سارے نبیوں اور رسولوں اور خاص کر نوح ، ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) سے جس طرح یہ عہد لیا تھا کہ جو احکامات تم پر نازل کیے جا رہے ہیں ان احکامات کی پابندی تم پر لاز ہے تم لوگوں کو دعوت بھی دو گے اور بذاتہ اس کی پابندی بھی کرو گے۔ اب جب آپ کو حکم دیا جارہا ہے کہ زید کے طلاق دینے کے بعد آپ ﷺ خود اس کی مطلقہ سے شادی کرلیں تو آپ ﷺ شمانت اعداد کے اندیشے سے اس بات سے جھجھک کیوں محسوس کرتے ہیں جبکہ ہم تیرے ہی ذریعہ سے جاہلیت کی اس رسم کو توڑنا چاہتے ہیں کہ متنبی کی بیوی حقیقی بیٹے کی بیوی کی مانند نہیں ہوتی اور اسی طرح کوئی حرمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان نہیں کی گئی تو آپ ﷺ کو اس بات کی کیوں فکر لاحق ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ جو کچھ لوگ کہیں گے ہمارے علم میں ہے آپ ﷺ کے دل میں جو خیال پیدا ہوتے ہیں کہ یہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں گا مگر دشمن تو یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کے لئے کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لئے اوڑھ رکھا ہے اس بنا پر اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ سے مخاطب ہے کہ تم ہمارے رسول ہو تمام پیغمبر اور رسولوں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم تم کو حکم دیں گے اس کو تم بجا لائو گے اور دوسروں کو اس کی بجالانے کا حکم دو گے اس لئے آپ ﷺ کسی کی طعن وتشنیع کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اور کسی سے شرم اور خوف نہ کھاتے ہوئے جو حکم ہم تم کو دیں گے آپ ﷺ کو بلا تامل اسے کرنا ہوگا تاکہ اس پختہ عہد کی جو پابندی آپ ﷺ نے قبول کی تھی وہ پوری ہو۔ یہ صورت حال تھی جس کے تحت یہ آیت نازل ہوئی لیکن افسوس کہ لوگوں نے اس کو کیا سے کیا بنادیا۔ بہرحال ہم نے جو اس کا مطلب سمجھا وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کئے بغیر صاف صاف بیان کردیا ہے ملامت کرنے والے ہمارے بیان کو تفسیر یالرائے کہہ کر رد کرسکتے ہیں تو وہ سو بار کریں ہمارے خیال میں نہ تو یہ تفسیر بالرائے ہے اور نہ ہی تفسیر بالرائے کا یہ مطلب ہے۔ مگر آپ کہ ہم پابند نہیں کرسکتے جس بات کو آپ چاہیں صحیح مانیں اور جس کو غلط سمجھیں اسے چھوڑ دیں ہم آپ کو منوا نہیں سکتے اور نہ ہی ہمیں یہ حق پہنچتا ہے۔
Top