Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 6
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ١ؕ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَفْعَلُوْۤا اِلٰۤى اَوْلِیٰٓئِكُمْ مَّعْرُوْفًا١ؕ كَانَ ذٰلِكَ فِی الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا
اَلنَّبِيُّ : نیی اَوْلٰى : زیادہ (حقدار) بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے مِنْ : سے اَنْفُسِهِمْ : ان کی جانیں وَاَزْوَاجُهٗٓ : اور اس کی بیبیاں اُمَّهٰتُهُمْ ۭ : ان کی مائیں وَاُولُوا الْاَرْحَامِ : اور قرابت دار بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلٰى : نزدیک تر بِبَعْضٍ : بعض (دوسروں سے) فِيْ : میں كِتٰبِ اللّٰهِ : اللہ کی کتاب مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور مہاجرین اِلَّآ اَنْ : مگر یہ کہ تَفْعَلُوْٓا : تم کرو اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَوْلِيٰٓئِكُمْ : اپنے دوست (جمع) مَّعْرُوْفًا ۭ : حسن سلوک كَانَ : ہے ذٰلِكَ : یہ فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مَسْطُوْرًا : لکھا ہوا
نبی (کریم ا) ایمان والوں کو اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے اور اس کی بیویاں (ایمان والوں کی) مائیں ہیں اور کتاب اللہ کے بتائے ہوئے رشتہ دار (جن کا رشتہ خون کا ہے) مسلمانوں اور مہاجروں کی نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں ہاں ! اگر تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو (کچھ دینا چاہو تو دے سکتے ہو) یہ بات کتاب میں لکھی جا چکی ہے
رسول اللہ ﷺ ایمان والوں کے لئے ان کی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں 6) ” نبی کریم ﷺ ایمان والوں کو اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں “ ۔ کیا انتہا ہے اس شفقت وتعلق کی جو نبی کریم ﷺ کو اپنی تامام امت کے ساتھ ہے۔ انسان خود اپنا دشمن اور بدخواہ تو ہوسکتا ہے اور بعض اوقات جہل وغباوت کی بنا پر بھی ہوجاتا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ سے تو جن پر خفی وخفی منافع ومصالح بھی روشن ہیں کسی حال میں بھی بدخواہی کا امکان نہیں۔ بلا شبہ ایک سچے مسلمان کا جو رشتہ اپنے رسول ﷺ سے قائم ہوتا ہے اور جو تعلق اس تعلق سے جو نبی کریم ﷺ اور اہل ایمان کے درمیان ہے آپس میں کوئی نسبت نہیں رکھتا کہنے کو تو آدمی معلوم نہیں کیا کچھ کس کس کے لئے کہہ دیتا ہے لیکن کسی چیز کی محبت انسان کے ایمان کا جزو نہیں قرار دی جاسکتی سوائے اللہ اور اسے کے رسول ﷺ کی محبت کے دنیا میں انسان کے تعلق کس کس سے اور کیا کیا ہے غور کرو کہ ماں باپ ہیں ، بیوی بچے ہیں ، اسی طرح عزیز و اقارب ہیں اور اسی طرح ہر آدمی کے لئے اس کی اپنی جان اور نفس ہے۔ مسلمان کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ دنیا کے ان تمام علائق حتیٰ کہ انسان کی اپنی جان سے بھی نبی کریم ﷺ کو زیادہ عزیز رکھتا ہو تب وہ مسلمان دین اسلام کے معاملہ میں سچا ہوسکتا ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ انسان اس محبت میں تب ہی سچاہوسکتا ہے جب نبی اعظم وآخر ﷺ کی محبت میں وہ طریقہ اختیار کرے جو رسول کی محبت کا طریقہ خود رسول اللہ ﷺ ہی نے سکھایا ہو۔ قرآن کریم ہی نے دوسری جگہ اس کی اس طرح تشریح کی ہے کہ ” اے پیغمبر اسلام ! مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر ایسا ہے کہ تمہارے ماں باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی ، تمہاری بیویاں ، تمہاری برادری ، تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے ، تمہاری تجارت جس کے مندا پڑجانے سے ڈرتے ہو ، تمہارے رہنے سہنے کے مکان جو تمہیں اس قدر پسند ہیں یہ ساری چیزیں تمہیں اللہ سے ، اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کو کرنا ہے وہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ تعالیٰ فاسقوں پر سعادت کی راہ کبھی نہیں کھولتا “۔ (التوبہ 24:9) اس سے واضح ہوگیا کہ اگر کہیں جب ایمانی اور غیر ایمانی میں مقابلہ ہوجائے تو مومن وہ ہے جس کی حب ایمانی پر دنیا کی کوئی محبت اور علاقہ بھی غالب نہ آسکے۔ زیر نظر آیت میں آٹھ چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اگر غور کرو گے تو ایک متمدن زندگی کے تمام علائق ان میں آگئے ہیں نیز جس ترتیب سے ذکر کیا ہے علائق کی گہرائیوں کی قدرتی ترتیب یہی ہے۔ فرمایا انسان تمدنی زندگی کی الفتوں کے بڑے رشتے یہی ہیں اور اپنی جگہ سب مطلوب وضروری ہیں لیکن اگر کسی وقت محب ایمانی میں اور ان میں مقابلہ ہوجائے تو پھر مومن وہ ہے جس پر ان تمام الفتوں میں سے کسی الفت کا بھی جادو چل نہ سکے اور کوئی علاقہ بھی اسے اتباع حق سے روک نہ سکے۔ میری اپیل قارئین سے ہمیشہ یہ رہی ہے اور اب بھی ہے کہ وہ غور وخوض کریں اور خود سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ میرے نزدیک یہی سیدھی اور صاف راہ ہے جو اسلام نے بتائی ہے یہاں بھی میری وہی اپیل ہے کہ غور کرو قرآن کریم فطرت انسانی کی کمزوریوں کا کس طرح کھوج لگاتا ہے فرمایا اور تجارت جس کے منداپڑ جانے کا تمہیں ڈر لگارہتا ہے یعنی عزائم ومقاصد کی راہ میں جب کبھی بھی قدم اٹھایا جائے گا تو ناگزیر ہے کہ صورت حال میں انقلاب ہو اور جب انقلاب ہوگا خواہ جنگ کی صورت میں ہو خواہ کسی دوسری صورت میں تو عارضی طور پر کاروبار ضرور بگڑے گا ، مال و جائیداد کے لئے خطرات ضرور پیدا ہوں گے اور یہی بات مال و دولت کے پرستاروں پر ہمیشہ شاق گزرتی ہے وہ کہتے ہیں ہمارا کاروبار خراب ہوجائے گا اور نہیں جانتے کہ اگر راہ حق میں استقامت دکھائیں تو جو کچھ خراب ہوگا وہ بہت تھوڑا ہوگا اور پھر جو کچھ بنے گا وہ اس کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہوگا۔ وان اللہ عندہ اجر عظیم۔ بلا شبہ محبت کی اس آزمائش میں صحابہ کرام جس طرح پورے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے اور وہ محتاج بیان نہیں بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیسا صحابہ نے اللہ تعالیٰ کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ سے راہ حق میں کیا۔ انہوں نے اس محبت کی راہ میں سب کچھ قربان کردیا جو ایک انسان کرسکتا ہے اور پھر اس کی راہ سے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے لیکن آج ہمارا حال کیا ہے ؟ کیا ہم میں سے کسی کو جرات ہوسکتی ہے کہ یہ آیت سامنے رکھ کر اپنے ایمان کا احتساب کریں ؟ آج ہم میں سے کوئی انگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں اور ماتھے پر لگا کر محبت کا اظہار کررہا ہے اور کوئی میلاد منانے کے لئے لوگوں سے مانگ مانگ کر چاردیگیں پکا کر محبت کا اظہار کررہا ہے ، کوئی کدو پکا کر اور اس کی کاشیں شوربے سے چن چن کر اپنا پیٹ بھرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے عشق کی اس طرح تکمیل ہورہی ہے۔ مختصر یہ کہ کسی نے کوئی سوانگ رچایا ہے اور کسی نے کوئی اور اسلام کی حقیقی روح جو اس آیت میں بتائی گئی ہے اس کی طرف کسی نے بھی دھیان نہیں دیا حالانکہ قرآن کریم کی تعلیم یہی ہے جو اس نے نہایت واضح الفاظ میں بیان کردی ہے وہ بتاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک بزرگی وفضیلت کا معیار کیا ہے ؟ فرمایا سب سے بڑا درجہ انہی کا ہے جنہوں نے سچائی کی راہ میں ہر طرح کی قربانیاں کیں اور ایمان وعمل کی آزمائش میں پورے اترے تمہارے گھڑے ہوئے تقویٰ و بزرگی کے مناصب اور رواجی بڑائیاں اللہ کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ معلوم ہوا کہ آج کل مسلمانوں کی عام مذہبی ذہنیت کس درجہ اسلام سے دور ہوگئی ہے کہ جاہلیت عرب کی طرح وہ بھی رواجی نیکیوں کو حقیقی اسلامی نیکیوں پر ترجیح دینے لگے ہیں اگر ایک فاسق وفاجر امیر محرم میں سبیل لگا دیتا ہے یا ربیع الاول میں دھوم دھام سے چراغاں کردیتا ہے یا میلاد کی مجلس رکھوا دیتا ہے یا کسی مسجد اور درگاہ میں بجلی لگوادیتا ہے تو تمام مسلمان اس کی حمدوثنا کا غلغلہ مچا دیتے ہیں اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ اس کے ایمان وعمل اور ایثار فی اللہ کا کیا حال ہے ؟ خیال رکھنا چاہیے کہ رواجی نیکیاں اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکیاں نہیں ہیں ، نیکی کا معیار صرف ایمان وعمل اور ایمان وعمل کی راہ میں ایثار ہے۔ بخاری شریف میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ما من مومن الا وانا اولی الناس بہ فی الدنیا والاخرۃ اقراء وا ان شئتم النبی اولی بالمومنین من انفسھم فایما مومن من ترک مالا فلیرثہ عصبتہ من کانوا فان ترک دینا اوضیاعا فلیاتنی وانا مولاہ ” کوئی مومن نہیں مگر میں دنیا اور آخرت میں سب لوگوں سے بڑھ کر اس کا حق دار ہوں اگر چاہو تو پڑھو۔ النبی اولیٰ بالمومنین۔ الخ۔ پس جو کوئی بھی مومن اپنے مرتے کے بعد مال چھوڑے تو اس کے رشتہ داروں کا جو کوئی بھی ہوں یا عصبات کا اور اگر وہ کوئی قرضہ چھوڑے یا نادار بال بچے چھوڑے تو چاہئے کہ اس کے لوگ میرے پاس آئیں کہ میں اس کی ان ضروریات کا بندوبست کروں گا۔ ذرا غور کریں کہ اس سے بڑھ کر آخر آپ کی اور کیا محبت ہوگی۔ آج کل علما ورثۃ الانبیاء کی حدیث پڑھ کر جھومنے والوں کو ذرا خیال کرنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کا پیغام کیا ہے اور وہ کیا کر رہے ہیں ؟ مرنے والا مرگیا تو وہ نہیں دیکھتے کہ اس کی مالی حالت کیا ہے ؟ اس کے یتیم بچوں کا کفیل کون ہوگا ؟ اس کے اموال کا کون بندوبست کرے گا ؟ اس نے جو قرض چھوڑا ہے اس کا کیا ہوگا ؟ ان کو ایک ہی دھن ہے کہ جائے نماز چھوٹا ہے تو آخر کیوں ؟ اس کے قل کی رقم میں کیا کیا پیش کیا جانا ضروری ہے ؟ اس کو کیا کیا غذائیں پسند تھیں ؟ اس کو کون سا لباس پسند تھا ؟ تاکہ ملائوں کو کھانا اچھا ملے اور کپڑے اچھے پیش کئے جائیں ، پھر اس کے دسویں اور چالیسیویں کی بھی ان کو فکر ہے کہ اس میں کتنے قرآن کریم اس کے ورثاء پڑھوا سکنے کی طاقت رکھتے ہیں اور کتنے دام وہ قرآن پڑھ کر بھجوا سکتے ہیں ھ۔ آیت کریمہ کتنا اور قل ھو اللہ کتنی بار اور درود شریف کس تعداد میں ؟ کیونکہ مرنے والے کے ورثاء جتنا گڑ ڈالیں گے اتنا ہی میٹھا ہوگا اور وہ ہرچیز کا الگ الگ ریٹ لگائیں تو کتنا کلام پیش کریں اور اگر پورا قرآن کریم ختم کے لئے درکار ہے تو وہ کتنی اجرت کا ہو ؟ کیونکہ ان کے پاس سارے اقسام کے قرآن کریم پڑھے ، پڑھائے موجود ہیں ان کی ہمت ہے کہ وہ کتنے اور کیسے معنی کس ریٹ کے خرید سکتے ہیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ مرنے والے کی حیثیت کیا ہے ؟ ان کی بلا سے وہ قرض چھوڑ گیا ہے تو ان کو کیا ؟ اس کے یتیم بچے باقی رہ گئے ہیں تو ان کو ان کی فکر کیوں ہو ؟ ان کو تو اپنے کام سے غرض ہے کہ اس کی بخشش کے نسخے ان کے پاس ہیں اور ان کے ورثاء کو وہ مہیا کرسکتے ہیں اگر وہ لینے کی ہمت رکھتے ہوں اور پھر پہنچا وہ ان کو دین کے اور اس پہنچانے کی اجرت اس کے سوا ہوگی کیونکہ یہ ان کے فن کا معاملہ ہے جتنے میں طے ہوجائے اور جس مرنے والے کے ورثا یہ سب کچھ لغویات نہ کرائیں اور ان خرافات سے وہ بچنے کی کوشش کریں ان کیلئے فتویٰ ان کے پاس موجود ہے وہ اپنا فتویٰ داغ دیں گے کہ مرگیا مردود نہ فاتحہ نہ درود۔ ” اور رسول اللہ ﷺ کی بیویاں ایمان والوں کی مائیں ہیں “۔ یہ دوسری بات ہے جو زیر نظر آیت میں بیان کی گئی کہ نبی کریم ﷺ کی بیویاں ایمان والوں کی مائیں ہیں۔ غور کرو کہ ابھی تو اوپر ذکر فرمایا تھا کہ منہ سے کسی عورت کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں ہوجاتی اور اس جگہ ارشاد فرمایا کہ نبی ﷺ کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں تو کیا یہ منہ سے کہہ دینا نہیں ہے ؟ بلا شبہ منہ سے کہنا ہے لیکن وہاں کسی کو ” ماں نہ کہہ “ کہا گیا ؟ ان عورتوں کو جن سے تمہارا نکاح ہوچکا گویا مطلب یہ تھا کہ اپنی بیوی کو ماں سے تشبیہہ مت دو اگر تم نے دے ہی دی ہے تو اب وہ تمہاری ماں نہیں ہوگئی بیوں بیوی رہے گی لیکن اس بکواس کا تم کو جرمانہ ہوگا اب تمہارے پاس دو ہی راہیں ہیں ایک یہ کہ اس عورت کو طلاق دے دو اگر اس کو رکھنا نہیں چاہتے اور اگر رکھنا چاہتے ہو تو یہ جرمانہ ہے اس کو ادا کردو تاکہ تمہارے کئے کا وبال تم پر پڑے اور اس جگہ نبی کریم ﷺ کی بیویوں کو جو تمہاری مائیں کہا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے اب کسی کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی ان امہات المومنین میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرے کیونکہ یہ اسی طرح تم پر حرام ہیں جس طرح تمہاری مائیں تم پر حرام ہیں۔ یہ دونوں باتیں برابر کیسے ہوئیں ؟ گویا جہاں قرآن کریم نے تعلقات نسبی کی عزت قائم کرکے اس بات سے روکا کہ جو بیوی ہے اور تم اس سے تعلقات زن وشو قائم کرچکے ہو اس کو اس حرام رشتہ سے تشبیہ مت دو اگرچہ اس طرح کہنے سے وہ تمہاری ماں تو نہیں ہوجائے گی ماں کے ساتھ جو تعلق نسبی ہے اس کی عزت ضرور مجروح ہوگی جو نہیں ہونی چاہیے لیکن اب ایک نہ ہونے والی بات تم نے کردی تو اب اس کا ازالہ یہ ہے کہ ان سزائوں میں سے ایک سزا کو قبول کرو جو حاکم وقت تم کو دے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ جہاں تم کو تعلقات نسبی کی عزت قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح اب تم کو تعلقات روحانی جو تعلقات جسمانی سے بھی اوپر حیثیت رکھتے ہیں ان کی عزت واحترام کا بھی حکم دیاجارہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا سارے مومنوں سے بلا شبہ تعلق نسبی نہیں لیکن آپ ﷺ کا تعلق روحانی تو ہر مومن کے ساتھ ہے جو جسمانی تعلق سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے جیسا کہ آیت کریمہ { النبی اولی بالمومنین } سے واضح کردیا گیا ہے اور جس کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ اس لئے جب مومنوں پر آپ ﷺ کی شفقت کا اظہار کیا تو ساتھ ہی بتایا کہ یہ شفقت اس روحانی تعلق کی وجہ سے ہے جو نبی ﷺ کو تمہارے ساتھ ہے اور بلا شبہ اس سے دو مقصد حاصل ہوئے ایک تو آپ ﷺ کی ابویت اس سے ایسی ثابت ہوئی جیسا کہ اس کو مقام حاصل تھا گویا آپ ﷺ کی بیویوں کو مومنوں کی مائیں کہنا ایسا ہے جیسا کہ خود نبی کریم ﷺ کو مومنوں کا باپ قرار دینا اور دوسرا مقصد ان الفاظ سے یہ حاصل ہوا کہ نہ صرف آپ ﷺ کی بیویوں کی تکریم ثابت ہوئی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ثابت ہوا کہ جو شخص مستحق عزت ہے اس کی بی بی اس کے تعلق سے مستحق عزت ہوجاتی ہے بلکہ ان الفاظ میں ایک گہرا راز ہے جس کی طرف مفسرین کی توجہ بہت کم ہوئی یہ ہے کہ جب ماں بلحاظ نسب وہ ہے جو بچہ کی جسمانی طور پر پرورش کرتی ہے تو ماں بلحاظ روحانیت وہ ہے جو بچہ کی روحانی پرورش کرتی ہے جب نبی کریم ﷺ کا اپنی امت کا روحانی باپ ہونا واضح ہے جس میں کوئی ابہام نہیں اور یہ بھی اپنی جگہ امر حق ہے کہ نبی ورسول کے سارے رشتہ دار بھی اس کی امت کے افراد ہیں خواہ وہ کون ہوں لیکن کیا اس ابویت کو حسب ونسب سے کوئی علاقہ ہے ؟ معلوم ہوگیا کہ پوری امت کا روحانی باپ ہونا پوری امت کی روحانی ماں ہونا حسب ونسب کے لحاظ سے نہیں ہے رہی یہ بات کہ نبی ﷺ کی بیویوں کے ساتھ امت کا کوئی آدمی نکاح نہیں کرسکتا تو یہ ایک شرعی حرمت ہے جس طرح دوسرے حرام رشتوں کی اور اس کا ذکر اس سورة الاحزاب کی آیت 53 میں بیان ہوا ہے جو آگے آرہا ہے اس کا تعلق صرف امھات المومنین کہنے سے نہیں ہے اور نہ ہی { ازواجہ امھتھم } کے الفاظ کہنے سے ہے کیونکہ یہ محض ادب واحترام کا بیان ہے اور یہ بھی کہ نبی ورسول سے بھی ان کا صرف یہی تعلق ہیں ہے کہ جو عام میاں بیوی کا ہوتا ہے جس کو قرآن کریم نے { من لباس لکم } اور { لتسکنوا الیھا } کے الفاظ سے بیان کیا ہے بلکہ وہ مومنوں کے لئے روحانی مائوں کا حکم بھی رکھتی ہیں گویا مومنوں کی روحانی پرورش بھی ان کے ذریعہ سے ہوئی ہے اور وہ دین کے اس کثیر حصہ میں جو انسان کے لئے نمونہ ہے راہنما بن کر مومنوں کی مائیں بن گئیں اور یہ اعزاز بھی ایک بہت بڑا اعزاز ہے جس سے رسول اللہ ﷺ کے نکاح کرنے کی ضرورت اور دوسرے ایمان والوں کے مقابلہ میں خصوصی رعایت کے مستحق ہونے کی اصل وجہ بھی بیان کردی گئی کہ اس کی حتقر کیا ہے ؟ اور یہ بھی بتا دیا کہ یہ غرض بھی خالصتاً دینی غرض ہے سوائے نکاح کے پوری نہیں کی جاسکتی اور مومنوں کو جو چار تک کی اجازت دی گئی ہے اس کی ایک غرض یہ بھی ہوسکتی ہے اور پھر جب کوئی قانون بنتا ہے تو وہ قانونی رعایت سب کے لئے یکساں ہوتی ہے اور بلاشبہ وہ یکساں ہی ہونی چاہیے۔ نبی ورسول کی خصوصی رعایت بھی سارے نبیوں اور رسولوں کے لئے ہوتی ہے۔ ” کتاب اللہ کے بتائے ہوئے رشتہ دار جن کا رشتہ خون کا ہے ، عام مسلمانوں اور مہاجروں کی نسبت ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں “۔ فرض کرو کہ ایک آدمی کو کسی نے متنبی قرار دے کر اپنا بیٹا مان لیا اور تصور کرلیا اور ایک دوسرا آدمی فی الواقع اس کا بیٹا ہے تو ظاہر ہے کہ جس کا بیٹا بنایا گیا وہ فی الواقع بیٹا ہونے والے کے برابر نہیں ہوسکتا بلا شبہ اصل اصل ہے اور متنبی متنبی ہی ہے اس طریقہ سے اصل ماں باپ اصل ہی ہیں اور جن کو ماں باپ کے درجہ پر بنا رکھا ہے وہ اہمیت کے لحاظ سے ماں باپ کے برابر یا زیادہ بھی قرار دیئے جاسکتے ہیں لیکن اصلیت کے لحاظ سے نہیں۔ اس اصلیت سے ہماری مراد یہ ہے کہ جس طرح حقیقی اور اصلی بیٹا وارث ہوتا ہے متنبی اسی طرح وارث قرار نہیں دیا جاسکتا اور اسی طرح حقیقی اور اصلی والدین کا میراث میں ایک خاص حصہ کا وارث قرار دیا گیا ہے لیکن ماں باپ کے درجہ پر رکھے گئے بلکہ اس سے بھی اوپر مقام دیئے گئے جیسے رسول اللہ ﷺ وہ اپنی روحانی اولاد کے وارث نہیں بنادیئے گئے اور اسی طرح آپ ﷺ کی بیویوں کو جو مومنوں کی روحانی مائیں کہا گیا ہے تو وہ ان کے وارث نہیں قرار دی گئیں ان کا تعلق صرف احترام کی حد تک ہے گویا مسلمانوں پر لازم وضروری ہے کہ اس تعلق کے باثع ان کا اسی طرح احترام کریں جس طرح اپنی مائوں کا احترام کرتے ہیں اور جس طرح ان حقیقی مائوں کا احترام نہ کرنے والے رحمت الٰہی سے محروم ہوجاتا ہے اسی طرح اپنی روحانی مائوں یا ان میں سے کسی ایک کا احترام نہ کرنے والا بھی رحمت الٰہی سے قیامت کے روز محروم ہی کردیا جائے گا۔ غور کرو کہ جو لوگ اس حکم خداوندی کے خلاف کرتے ہوئے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ پر تبرہ بازی کرتے ہیں اگر وہ مسلمان ہیں تو کسی سزا کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ ” اگر تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو تو بلا شبہ دے سکتے ہو یہ بات کتاب اللہ میں لکھی جاچکی ہے “۔ وراثت کے متعلق تو حکم واضح ہوگیا اور اس کی وضاحت سورة النساء میں کردی گئی ہے اور ان کے حصص وحقوق مقرر کردیئے گئے ہیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے کسی محسن یا دوست کی خدمت کرنا چاہے تو اسے بھی حق ہے کہ اپنی زندگی میں اپنے مال سے تیسرے حصہ تک دے دے یا اس سے جتنا کم چاے دے سکتا ہے لیکن وارثوں کو محروم کرنا بھی جائز نہیں اور تیسرے حصہ سیزیادہ کی وصیت بھی درست نہیں کیونکہ اس کی وضاحت احادیث میں کردی گئی ہے۔ ہمارے ہاں اسلام کے نام سے جو قانون نافذ کیا جاتا ہے وہ اس قدر ادھورا رکھا جاتا ہے کہ لوگ اس میں رخنہ اندازیاں کرتے رہیں اور اس طرح وہ قانونی مجرم نہ بن سکیں یہ بات اس لئے کی جارہی ہے کہ نام کے لحاظ سے اس وقت ہمارے ہاں اسلامی قانون وراثت نافذ ہے لیکن چونکہ وہ ادھورا اور ناقص ہے اس لئے کسی ایک جگہ بھی وراثت کی تقسیم اسلامی طریقہ کے مطابق نہیں ہوئی اور اس میں سب سے بڑا رخنہ جو رکھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ مرنے والا اپنی زندگی میں بالکل آزاد ہے کہ وہ اپنے مال کو چاہے جس کو دے دے اس پر کسی طرح کی کوئی قید نہیں لگائی گئی نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ملک کی نوے فیصدی آبادی اپنی جائیداد کو اپنی زندگی میں محکمہ مال کی رضامندی حاصل کرکے اپنے بیٹوں کے نام منتقل کردیتے ہیں تاکہ مرنے کے بعد لڑکیاں اس جائیداد کی وارث نہ قرار پا جائیں حالانکہ یہ دوہرا جرم ہے ایک وراثت کے صحیح تقسیم نہ ہونے کا اور دوسرا قرآن کریم کی آیات کے ساتھ مذاق کرنے کا دراصل مذاق و استہزاء صرف قرآن کریم کی ذات تک ہی نہیں بلکہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام اور اس کے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بھی ہے اور اسی طرح دوسرے اسلامی قانون کا حال ہے جو اس وقت تک نافذ العمل ہوچکے ہیں اور اس پر جس قدر افسوس کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔
Top