Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 103
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ١ۚ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ۚ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا   ۧ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمُ : تم ادا کرچکو الصَّلٰوةَ : نماز فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِكُمْ : اپنی کروٹیں فَاِذَا : پھر جب اطْمَاْنَنْتُمْ : تم مطمئن ہوجاؤ فَاَقِيْمُوا : تو قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز كَانَتْ : ہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) كِتٰبًا : فرض مَّوْقُوْتًا : (مقررہ) اوقات میں
پھر جب تم نماز پوری کر چکو تو چاہیے کہ کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو پھر جب ایسا ہو کہ دشمن سے تم مطمئن ہوجاؤ (اور سفر سے گھر واپس لوٹ آؤ ) تو نماز قائم رکھو (قصر کرنا ترک کر دو ) بلاشبہ نماز مسلمانوں پر وقت کی قید کے ساتھ فرض کردی گئی ہے
حالت جنگ میں نماز ادا کرنے کے بعد ذکر الٰہی کی مشغولیت 176 ۔ ہمارے ہاں معروف یہ ہے کہ ذکر اللہ کیلئے ضروری ہے کہ تسبیح ہاتھ میں ہو اور ایک کونہ میں الگ تھلگ بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہے کوئی مرے یا جئے اس کی بلا سے۔ آپ اس جگہ ذکر اللہ سے یہ مفہوم نہ نکالیں جب عین حالت نماز میں بھی جو ذکر اللہ کی ایک خاص الخاص حالت ہے اس میں بھی اپنے دفاع کی طرف غافل ہونے کو جرم قرار دیا ہے تو وہ نماز کے بعد اس طرح کا ذکر کیوں ارشاد فرمائے گا اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حالت جنگ میں ضروریات زندگی کے جس طرح سارے کام تم پورے کرتے ہو گویا کبھی تم لیٹنے کا موقع ملے گا کبھی کھڑے رہنے کا حکم ہوگا اور کبھی بیٹھ جانے کا کیونکہ یہ ساری صورتیں میدان جنگ میں پیش آسکتی ہیں اور آتی ہیں ان حالتوں میں سے آپ کسی حالت میں ہوں تو اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہونا کیونکہ ہر معاملہ میں جب ہدایت کی راہنمائی کی ضرورت ہے تو ہدایت کہاں سے آئے گی اس کیلئے تو صرف اور صرف اللہ کی ذات کا تصور ہی ایک ایسی چیز ہے جو ہر حال میں راہنمائی کرسکتا ہے کیونکہ اسلام کی جنگ اندھا دھند جنگ نہیں جس کیلئے کوئی اصول ہی مقرر نہ ہو۔ اس میں تو قدم قدم پر راہنمائی کی ضرورت ہے کہ ذرا قدم پھسلا تو تباہی و بربادی لازم آگئی اور کا ئ کرایا سب برباد ہوگیا۔ اس لیے اس بات کی ہدایت فرمائی کہ نماز ادا ہوگی تو باقی اوقات میں بھی ذکر اللہ کی اتنی ہی ضرورت ہے تاکہ اس میں مشکل وقت میں پڑھی گئی نماز کو کہیں ضائع نہ کردیں۔ گویا اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ نماز کا ادا کرنا اور بات ہے اور نماز کی حفاظت اور شے ہے اس لیے قرآن کریم نے کبھی بار بار یہ ہدایت دی ہے کہ نمازوں کی حفاظت کرو۔ اس طرح زیر نظر آیت میں حکم ہوا کہ اگر تم دشمن کے خوف سے امن میں ہوجاؤ یعنی جنگ جب لڑی جا چکے یا جنگ لڑنے کی اگر نوبت ہی نہ آئے اور دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں بہرحال جس طریقہ سے بھی وہ خطرہ باقی نہ رہے بلکہ امن کا زمانہ میسر آئے تو معاً نماز کا حکم بھی اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹ کر چلا آئے گا گویا اب نماز خوف ادا نہیں ہوگی بلکہ اگر سفر بھی درپیش ہے تو قصر ہوگی لیکن اگر اقامت گاہ پر پہنچ گئے اور اب سفر درپیش نہیں رہا تو نماز پوری ادا کرنا ہوگی اور اس طرح نماز قصر ادا کرنے کا حکم باقی نہ رہے گا بلکہ اب پوری نماز ادا کرنا ہوگی۔ بلاشبہ نماز ہر مسلمان پر وقت مقرر کے ساتھ فرض کی گئی ہے 177 ۔ مطلب یہ ہے کہ نماز اپنی فرضیت کے لحاظ سے ادا کرنا ضروری ہے اور موقت ہونے کی وجہ سے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے اس لیے مخصوص حالات میں اس کی ہیئت نہیں ہے اور موقت ہونے کی وجہ سے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے اس لیے مخصوص حالات میں اس کی ہیئت میں جو فرق کیا گای ہے اس سے فی نفسہ نماز میں کوئی فرق نہیں آتا اور ضرورت کے مطابق جو اس کو موخر یا وقت کے آنے کے ساتھ ہی ادا کرنا یا اس طرح دو نمازوں کو اکٹھا کرنا یعنی جمع کرلینے کی اجازت ہے وہ کتاب موقوت میں کوئی فرق نہیں پڑتا صرف اول و موخر سے وقت نکل جانا مراد نہیں لیا جاسکتا اور پھر سنت میں اس کی ہر لحاظ سے وضاحت بیان کردی گئی ہے گویا آیت زیر نظر سے ایک تو یہ بات واضح ہوگئی کہ اوقات کی پابندی اوقات صلوۃ کی شرائط میں سے ہے دوسری یہ کہ نبی اعظم و آخر ﷺ نے اہل ایمان پر جو کچھ فرض کیا ہے وہ عین اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ فریضہ ہے کیونکہ نمازوں کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ اوقات کے اہتمام کے ساتھ فرض ہیں در آنحالیکہ اوقات نماز تمام تر نبی کریم ﷺ کے مقرر کردہ ہیں قرآن کریم میں ان کی کوئی صراحت نہیں ہے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ ارشادات مختلف مقامات پر کیے گئے ہیں۔
Top