Urwatul-Wusqaa - Maryam : 85
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَنِیًّا حَمِیْدًا
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَقَدْ وَصَّيْنَا : اور ہم نے تاکید کردی ہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جنہیں کتاب دی گئی مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں اَنِ اتَّقُوا : کہ ڈرتے رہو اللّٰهَ : اللہ وَاِنْ : اور اگر تَكْفُرُوْا : تم کفر کرو گے فَاِنَّ : تو بیشک لِلّٰهِ : اللہ کیلئے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَنِيًّا : بےنیاز حَمِيْدًا : سب خوبیوں والا
اور یاد رکھو آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کیلئے ہے ، ہم نے یقینا ان لوگوں کو جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور خود تم کو بھی یہ حکم دیا کہ اللہ سے ڈرو اور (اگر تم کفر پہ ڈٹے رہو تو خوب سن لو کہ) آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کیلئے ہے وہ بےنیاز ہے اچھی تعریف کیا ہوا
تم کو اور تم سے پہلوں کو تقویٰ کی وصیت کی اور کہا کہ اگر کفر کرو گے تو نقصان تمہارا ہی ہوگا : 215: باربار اس بات کا اعلان کہ ” اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے “ جیسا کہ آیت 126 میں پھر اس آیت 131 میں دوبارہ اور پھر یہی بات آیت 132 میں آکر کیوں ؟ قبل ازیں کئی بار یہ بات بیان کی گئی کہ قرآن کریم کا نزول عین اس زبان اور اس کے تقاضوں کے مطابق ہے جو انسان روزہ مرہ بولتے ہیں۔ یہ فطرۃ انسانی کا مسئلہ ہے کہ جب ساری نصیحتیں کر چکتا ہے اور ایک بات کو بار بار بیان کر کے گویا تھک جاتا ہے اور دیکھتا ہے کہ جو کچھ میں نے کہا اس کا اثر اتنا نہیں ہوا جتنا کہ ہونا چاہئے تھا تو وہ اپنے تنبیہ کے فقرہ کو بار بار دھراتا ہے کہ اچھا اگر نہیں مانو گے تو میرا کیا نقصان ہے جو کچھ نقصان ہے وہ سراسر تمہارا ہی ہے۔ کوئی پوچھے کہ اگر تم کو آخر الکلام یہی کہنا ہے کہ جو نقصان ہے وہ سراسر تمہارا ہی ہے تو پھر ان کو نصیحت کیوں کرتے ہو ؟ جب نقصان ان ہی کا ہے آپ کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں تو آخر ان کو بار بار یہ کہنے کا فائدہ ؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے نہ ماننے سے دراصل نقصان اس کا بھی ہے اگرچہ وہ نظر نہ آتا ہو وہ کیونکہ اس کی محبت اور پیار کا یہ تقاضا ہے اور ان کا نقصان یقینا اس کو شاق گزرتا اور دکھ دیتا ہے لیکن جب اس کی بات قبول نہیں کی جاتی تو آخر الکلام افسوس کے ساتھ اس کے منہ سے یہ بار بار نکلتا ہے کہ ہدایت کو قبول نہ کر کے میرا کیا بگاڑو گے جو کچھ بگاڑوگے وہ تمہارا ہی ہوگا۔ بالکل یہی صورت حال یہاں ہے۔ مومنین اور مخالفین اہل کتاب کو ہدایات دی گئیں اور اس سورة میں بھر پور ہدایات دی گئیں لیکن لوگوں نے ان سے خاطر خواہ استفادہ نہ کیا جتنا کرنا چاہئے تھا تو بات بات کے بعد فقرہ دہرایا گیا کہ ” جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ ہی کا ہے۔ “ اگر تم نہیں مانتے تو وہ کتنی مخلوق ہے جو اللہ کی فرمانبرداری میں مصروف ہے حتیٰ کہ زمین و آسمان کی ساری مخلوق اس کی فرمانبردار ہے اگر تم اللہ کے نہیں بنتے تو نہ بنو اللہ ہی کا تو ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ اگر تم نہیں مانو گے تو آخر اللہ کا کیا بگڑے گا ؟ وہ تو بلا شرکت غیرے پوری کائنات کا خود مالک ہے اور ان فقرات میں گویا وہ تاسف اور درد مخفی ہے پوری کائنات میں سے اس نے اس کو منتخب کیا تھا اور اس کا بگاڑ اللہ کی رضا مطلق نہیں ہے بلکہ اللہ کو انسان کا دکھ اور مصیبت میں مبتلا ہونا ذرا بھی اچھا نہیں لگتا لیکن جو قانون اس نے عذاب ونجات کا مقرر فرمایا ہے وہ بھی اس نے اپنے اختیار و ارادہ ہی سے مقرر فرمایا ہے جو اس کے قانون کی زد میں آئے وہ اس کو اس سے بچانے کے لئے بھی تیار نہیں کیونکہ وہ ہر ایک کا رب ہے اور ہر ایک کا خالق ہے اور ایک رعایت سے دوسرے کا حق ضائع ہوتا ہے اور وہ یہ کام کسی حال میں بھی کرنے کے لئے تیار نہیں۔ چونکہ اس کا اعلان عام ہے کہ ” اگر تم شکر کرو گے تو یقینا تم کو اور زیادہ دوں گا “ لیکن اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ “ اچھا شکر گزاروں کو زیادہ مل گیا اور اگر نا شکروں کو اور ناقدروں کو بھی اتنا ہی مل گیا تو اس کے اعلان الٰہی کا کیا ہوا ؟ اعلان کیا تھا کہ اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔ اعلان الٰہی تو اس وقت ہی سچ ہوا جب شکر گزاروں کو ملنے کے ساتھ ساتھ ناشکر گزاروں کو عذاب بھی دیا جائے کیونکہ شکر گزاروں کا حق بھی اسی وقت ادا ہوتا ہے جب ایسا ہو پھر یہ ممکن کیوں کر ہوا کہ اب ایسا نہ ہو۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اللہ کا قانون نہ ہوا موم کا ناک ہوگئی کہ جدھر چاہو موڑلیا۔
Top