Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 131
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَنِیًّا حَمِیْدًا
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَقَدْ وَصَّيْنَا : اور ہم نے تاکید کردی ہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جنہیں کتاب دی گئی مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں اَنِ اتَّقُوا : کہ ڈرتے رہو اللّٰهَ : اللہ وَاِنْ : اور اگر تَكْفُرُوْا : تم کفر کرو گے فَاِنَّ : تو بیشک لِلّٰهِ : اللہ کیلئے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَنِيًّا : بےنیاز حَمِيْدًا : سب خوبیوں والا
اور اللہ کا ہے جو کچھ ہے آسمان میں اور جو کچھ ہے زمین میں اور ہم نے حکم دیا ہے پہلے کتاب والوں کو اور تم کو کہ ڈرتے رہو اللہ سے اور اگر نہ مانو گے تو اللہ کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین میں اور اللہ ہے بےپرواہ سب خوبیوں والا
ربط آیات
عورتوں اور یتیموں کے احکام بیان کرنے کے بعد قرآنی اسلوب کے مطابق پھر ترغیب و ترہیب کا مضمون ارشاد فرمایا گیا۔
خلاصہ تفسیر
اور اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمان میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں (تو ایسے مالک کے احکام کا ماننا بہت ہی ضرری ہے) اور (بجا آوری احکام کا خطاب خاص تم ہی کو نہیں ہوا بلکہ) واقعی ہم نے ان لوگوں کو بھی حکم دیا تھا جن کو تم سے پہلے کتاب (آسمانی یعنی توراة و انجیل) ملی تھی اور تم کو بھی (حکم دیا ہے) کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر (جس کو تقوی کہتے ہیں، جس میں تمام احکام کی موافقت داخل ہے، اسی لئے اس سورة کو تقوی سے شروع کر کے اس کی تفصیل میں مختلف احکام لائے ہیں) اور (یہ بھی ان کو اور تم کو سنایا گیا) کہ اگر تم ناشکری کرو گے (یعنی احکام الٓہیہ کی مخالفت کرو گے) تو (خدا تعالیٰ کا کوئی ضرر نہیں ہاں تمہارا ہی ضرر ہے، کیونکہ) اللہ تعالیٰ کی (تو) ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں (ایسے بڑے سلطان کا کیا ضرر ہوگا، البتہ ایسے بڑے سلطان کی مخالفت بلاشک مضر ہے) اور اللہ تعالیٰ کسی (کی اطاعت) کے حاجت مند نہیں (اور) خود اپنی ذات میں محمود (کامل الصفات) ہیں (پس کسی کی مخالفت سے ان کی صفات میں کوئی نقص لازم نہیں آتا) اور اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہیں جو چیزیں کہ آسمان میں ہیں اور جو چیزیں کہ زمین میں ہیں اور (جب وہ ایسے قادر و مختار ہیں تو اپنے اطاعت گذار بندوں کے لئے وہ) اللہ تعالیٰ کافی کار ساز ہیں (پس ان کی کار سازی کے ہوتے ان کے فرمانبرداروں کو کون ضرر پہنچا سکتا ہے، پس کسی سے ڈرنا نہ چاہئے اور اللہ تعالیٰ جو تم کو دین کے کام بتلا رہے ہیں تو تمہاری ہی سعادت کے لئے ورنہ وہ دوسروں سے بھی کام لے سکتے ہیں کیونکہ ان کی ایسی قدرت ہے کہ) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اے لوگوں تم سب کو فنا کردیتا اور دوسروں کو موجود کردیتا (اور ان سے کام لے لیتا، جیسا دوسری آیت میں ہے ان تتولو ایستبدل الخ (74: 83) اور اللہ اس پر پوری قدرت رکھتے ہیں (پھر ایسا جو نہیں کیا تو ان کی عنایت ہے، اطاعت حکم کو غنیمت سمجھ کر سعادت حاصل کرو اور دیکھو دین کے کام کا اصلی ثمرہ آخرت میں ہے دنیا میں نہ لینے سے بد دل نہ ہونا بلکہ) جو شخص (دین کے کام میں) دنیا کا معاوضہ چاہتا ہو تو (وہ بڑی غلطی میں ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ کے پاس (یعنی ان کی قدرت میں) تو دنیا اور آخرت دونوں کا معاوضہ (موجود) ہے جب ادنی اعلی دونوں پر ان کی قدرت ہے، تو اعلی ہی چیز کیوں نہ مانگی جائے) اور اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے دیکھنے والے ہیں (سب کے اقوال اور درخواستوں کو دنیا کی ہوں یا دین کی سنتے ہیں اور سب کی نیتوں کو دیکھتے ہیں، پس طالبان آخرت کو ثواب دیں گے اور طالبان دنیا کو آخرت میں محروم رکھیں گے، پس آخرت ہی کی نیت اور درخواست کرنا چاہئے، البتہ دنیا کی حاجت مستقل طور پر مانگنا مضائقہ نہیں، لیکن عبادت میں یہ قصد نہ کرے۔
معارف و مسائل
فوائد مہمہ۔
للہ مافی السموت وما فی الارض، ”یعنی اللہ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات“ اس جگہ ان الفاظ کو تین مرتبہ دہرایا گیا، اول سے کشائش اور وسعت مقصود ہے کہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں، دوسرے سے بےنیازی اور بےپروائی کا بیان مقصود ہے کہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں، دوسرے سے بےنیازی اور بےپروائی کا بیان مقصود ہے اس کو کسی کی پرواہ نہیں اگر تم منکر ہو، تیسری دفعہ میں رحمت اور کارسازی کا اظہار ہے کہ اگر تقوی اور اطاعت اختیار کرو تو وہ تمہارے سب کام بنا دے گا۔
Top