Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 62
وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ اِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَنِیًّا حَمِیْدًا
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَقَدْ وَصَّيْنَا : اور ہم نے تاکید کردی ہے الَّذِيْنَ : وہ لوگ اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جنہیں کتاب دی گئی مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں اَنِ اتَّقُوا : کہ ڈرتے رہو اللّٰهَ : اللہ وَاِنْ : اور اگر تَكْفُرُوْا : تم کفر کرو گے فَاِنَّ : تو بیشک لِلّٰهِ : اللہ کیلئے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَنِيًّا : بےنیاز حَمِيْدًا : سب خوبیوں والا
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور تم سے پہلے جن کو کتاب دی گئی ہم نے انہیں بھی ہدایت کی اور تم کو بھی کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کروگے تو یاد رکھو کہ اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بےنیاز، ستودہ صفات ہے
131۔ 134:۔ وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭوَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَاِيَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰهَ ۭ وَاِنْ تَكْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَنِيًّا حَمِيْدًا۔ وَلِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا۔ اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ اَيُّھَا النَّاسُ وَيَاْتِ بِاٰخَرِيْنَ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَلٰي ذٰلِكَ قَدِيْرًا۔ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ ثَوَابَ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۔ ان آیات میں دو باتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں : لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ الایۃ کی تکرار کی بلاغت : ایک تو یہ کہ " لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ " (اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے) بار بار دہرایا گیا ہے۔ دو مرتبہ تو آیت 131 ہی میں اور پھر آیت 132 میں۔ علاوہ ازیں جہاں سے یہ مضمون چلتا ہے یعنی آیت 126، وہاں بھی بعینہ یہی ٹکڑا ہے۔ اس مضمون کا بار بار اعادہ بلا سبب نہیں ہے بلکہ خاتمہ سورة کا مزاج اس کا مقتضی ہوا۔ ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ اس خاتمے میں مسلمانوں کو، منافقین کو اور اہل کتاب کو آخری تنبیہ کی گئی ہے کہ جو ہدایات تمہاری رہنمائی کے لیے ضروری تھیں، وہ دلائل کی وضاحت کے ساتھ، دے دی گئیں، اب ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے، مانوگے تو تمہارا نفع ہے، نہ مانوگے تو خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑوگے، خدا اس پوری کائنات کا بلاشرکتِ غیرے مالک ہے، اس کی حکومت اپنے بل بوتے پر قائم ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ وہ چونکہ پوری کائنات کا مالک ہے اس وجہ سے اس نے تم سے پہلے اہل کتاب کو بھی اپنے احکام و حدود سے آگاہ کیا اور اب تمہیں بھی اس سے آگاہ کردیا کہ خدا سے ڈرتے رہو۔ اہل کتاب نے نافرمانی کی تو انہوں نے خود اپنی شامت بلائی۔ خدا کا کچھ نہیں بگاڑا۔ اسی طرح اگر تم بھی کفر کروگے تو یاد رکھو کہ خدا تمہارا محتاج نہیں بلکہ بےنیاز اور ستودہ صفات ہے۔ وہ تمہارے لیے کسی چیز کو پسند کرتا ہے تو اس لیے نہیں کہ اس کو اس کی احتیاج ہے بلکہ اس لیے کہ وہ حمید ہے۔ اس کی اس صفت کا تقاضا ہے کہ بےنیاز ہونے کے باوجود ساری خلق کو اپنے جودوکرم سے نوازے۔ ساری کائنات کا مالک ہونے کی وجہ سے وہی سزاوار ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے اور زندگی کی باگ اس کے حوالہ کی جائے۔ نافرمانی کی صورت میں اگر وہ چاہے تو سب کو فنا کردے اور اس دنیا میں دوسری مخلوق لا بسائے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کا ہاتھ کون پکڑ سکتا ہے۔ حذف کا ایک اسلوب : دوسری قابل غور چیز آیت " من کان یرید ثواب الدنیا الایۃ " میں حذف کا اسلوب ہے ہم پیچھے کسی مقام میں اشارہ کر آئے ہیں کہ عربی میں کلام کے دو متقابل اجزا میں سے بعض اجزا کو اس طرح حذف کردیتے ہیں کہ مذکور جزو، محذوف کی طرف خود اشارہ کردیتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس آیت کے محذوفات کھول دیے جائیں تو تالیف کلام یہ ہوگی مَنْ كَانَ يُرِيْدُ ثَوَابَ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا و مَنْ كَانَ يُرِيْدُ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الْاٰخِرَةِ ، پہلے میں فَعِنْدَ اللّٰهِ ثَوَابُ الدُّنْيَا کو حذف کردیا اور دوسرے میں سے و مَنْ كَانَ يُرِيْدُ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ کو۔ اس حذف کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا کہ مذکور ٹکڑے محذوف ٹکڑوں کی نشان دہی خود کر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو دنیا ہی کے صلے کا طالب ہوتا ہے تو دنیا کا مالک بھی خدا ہی ہے، وہ اس میں سے اس کو جتنا چاہتا ہے دیتا ہے اور جو آخرت کا طالب ہوتا ہے تو اللہ اس کو دنیا میں بھی جو چاہتا ہے دیتا ہے اور آخرت کا صلہ بھی بھرپور عطا فرمائے گا۔ یہ ان لوگوں کو تنبیہ و موعظت ہے جو اپنے دنیوی مفادات کی خاطر خدا کی شریعت سے فرار اختیار کر رہے ہوں۔ فرمایا جو صرف دنیا کا طالب بنتا ہے تو بہرحال اس میں سے وہ پاتا اتنا ہی ہے جتنا خدا کو منظور ہوتا ہے اور آخرت سے وہ بالکل محروم ہی رہتا ہے تو آخرت کا طالب کیوں نہ بنے کہ آخرت کا بھرپور صلہ بھی ملے اور دنیا میں سے جو مقدر ہو وہ بھی ملے۔ یہی مضمون بعینہ آل عمران کی آیات 145 اور 148 میں بھی گزرچکا ہے۔ اس پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ اس کے ساتھ سمیع وبصیر کی صفات کے حوالہ سے مقصود اس حقیقت کی یاددہانی ہے کہ خدا نہ کسی کی دعا و فریاد سے بیخبر ہے نہ کسی کی احتیاج اور حالت اس سے مخفی ہے تو آخر انسان اسی سے کیوں نہ چاہے اور مانگے، دوسروں سے کیوں آرزومند اور دادخواہ ہو۔
Top