Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 76
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۚ وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْۤا اَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِ١ۚ اِنَّ كَیْدَ الشَّیْطٰنِ كَانَ ضَعِیْفًا۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) يُقَاتِلُوْنَ : وہ لڑتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ الطَّاغُوْتِ : طاغوت (سرکش) فَقَاتِلُوْٓا : سو تم لڑو اَوْلِيَآءَ : دوست (ساتھی) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّ : بیشک كَيْدَ : فریب الشَّيْطٰنِ : شیطان كَانَ : ہے ضَعِيْفًا : کمزور (بودا)
جو لوگ ایمان رکھتے ہیں تو ان کا لڑنا اللہ کی راہ میں ہوتا ہے اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں ، سو شیطان کے حمایتیوں سے لڑو ، شیطان کا مکر دیکھنے میں کتنا ہی مضبوط دکھائی دے لیکن حق کے مقابلے میں کبھی جمنے والا نہیں
اللہ والوں کو شیطان کے حمایتیوں کے خلاف برسرپیکار رہنا ضروری ہے : 130: آیت زیرنظر نے مسلمانوں اور کافروں کی اغراض جنگ کا قطعی فیصلہ کردیا اور یہ حقیقت واضح کردی کہ اسلام نے جنگ کا جو حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ مسلمان دوسروں پر چڑھ دوڑیں بلکہ اس لیے دیا ہے کہ مظلوموں اور بےکسوں کی حمایت کریں اور انہیں ظالموں کے پنجے سے نجات دلائیں۔ بلاشبہ جنگ دونوں طرف سے لڑی گئی لیکن ایک نے ظلم کیا اور دوسرے نے ظلم کو روکنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ کسی پر کبھی ظلم نہیں کرتے لیکن جب مظلوم ہو کر دوسروں کے ظلم کو روکتے ہیں تو پھر سر دھڑ کی بازی لگا کر پوری قوت سے روکتے ہیں تاکہ ظالم آئندہ ظلم کا نام نہ لے۔ لیکن شیطانی قوتیں جب بھی ابھریں گی تو آخر کیا کریں گے ؟ اگر وہ امن پسند بن جائیں اور ظلم کرنا چھوڑ دیں تو پھر قوتیں شیطانی کیوں ہوں گی ؟ اس لیے شیطان اپنے حمایتیوں کی تھپکی کبھی نہیں روکتا اور ان کو سبز باغ دکھاتا ہی رہتا ہے اس لیے مسلمانوں کو بھی ہر وقت اس کی چالوں کو حرف غلط کی طرف مٹانے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ فرمایا : شیطان ہے تو مکار اس لیے وہ اپنی مکاری سے کبھی باز نہیں آئے گا لیکن تم یہ بات یاد رکھو کہ اس کا مکر کبھی مضبوط نہیں ہوتا بلکہ ضعیف و کمزور ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ دکھاوے کی چیز ہے ایسے سمجھ لو کہ غبارے میں ہوا بھری ہے ابھی ہوا خارج ہوئی تو باقی کیا رہا ؟ بس سامنے آتا دیکھ کر نہ گھبراؤ ۔ ایک زور دار ضرب لگاؤ اور ٹھاہ کی آواز سن لو۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے جب بھی اور جہاں بھی نقصان اٹھایا تو اپنے ہاتھوں ہی اٹھایا اور کسی اپنی ہی کمزوری سے اٹھایا اس آیت میں ” طاغوت “ کا لفظ بھی آیا ہے اور ” شیطان “ کا لفظ بھی دو بار استعمال ہوا ہے اور اس طرح ” کید “ اور ” ضعیف “ کا لفظ بھی۔ ان سب کا مفہوم آپ کو پیچھے سمجھا دیا گیا ہے اس لیے ان الفاظ پر خوب غور کرو اور ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر بھی نظر رکھو کہ ” ایمان والو ! اللہ کی راہ میں لڑو۔ “ پھر اپنے معاشرے کے ایک فقرہ پر بھی نظر کرو جو ہر کس و ناکس کی زبان پر جاری ہے کہ ” خدا واسطے لڑائی کون لڑے ؟ “ ” اللہ واسطے کا بیر کون کرے ؟ “
Top