Urwatul-Wusqaa - Al-Ahzaab : 87
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں نازل کیا گیا ھٰذَا الْقُرْاٰنُ : یہ قرآن عَلٰي رَجُلٍ : اوپر کسی شخص کے مِّنَ : سے الْقَرْيَتَيْنِ : دو بستیوں میں عَظِيْمٍ : عظمت والے ۔ بڑے
اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن ان دونوں بستیوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ ہوا ؟ (کہ ان کی بات مانی جاتی)
سردارانِ قریش کا ایک اور اعتراض جو انہوں نے اپنی جہالت کے باعث کیا تھا 31 ؎ معترضین کسی ایک مجلس میں ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر اعتراض نہیں کرتے رہے بلکہ وقتاً فوقتاً جو اعتراض ان کو سوجھتا وہ کردیتے اور یہی کچھ اب بھی کیا جاتا ہے اس لیے اعتراضات کی صورتیں الگ الگ اٹھائی گئی ہیں کبھی تو وہ یہ اعتراض کرتے کہ کوئی انسان بھی بھلا نبی و رسول ہو سکتا ہے جب ان کے اعتراض کا جواب ان کو دیا گیا اور ان کے سلیم شدہ نبیوں اور رسولوں کی نشاندہی کی گئی کہ فلاں فلاں کو تم نبی و رسول مانتے ہو اور یہ بھی کہتے ہو کہ فلاں نبی کا فلاں بیٹا ہے تو کیا وہ صاحب اولاد نہیں تھے اس طرح ان کو باور کرایا گیا کہ گزشتہ سارے انبیاء کرام اور رسل عظام بھی انسان ہی تھے اس طرح جب ان کو لاجواب ہونا پڑا اور یہ اعتراض اٹھانا بند کیا تو ایک دوسرا کھڑا کردیا کہ اچھا اگر انسان رسول ہو سکتا ہے تو کیا عرب کے ان دو بڑے شہروں یعنی مکہ اور طائف میں کیا یہی ایک ایسا انسان تھا جس کی طرف وحی کی جانا تھی حالانکہ مکہ اور طائف میں بڑے بڑے لوگ موجود تھے جن کے ناموں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور لوگ ان کی بات پر ان رکھتے تھے اور اگر کوئی ان کی بات کو تسلیم کرے تو ان کے پاس اتنی طاقت و قوت بھی تھی کہ وہ منوا سکتے تھے اگر کسی انسان کو نبی و رسول بنایا جاسکتا ہے اور یہی اللہ کو منظور تھا تو وہ ان بڑے لوگوں میں سے کسی کو اپنا نبی و رسول بناتا تاکہ لوگ اس کی باتوں کو سنتے کیا اللہ میاں کو یہ ایک یتیم آدمی ہی نبوت کے لیے پسند آیا ، مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ اور عمر بن ہشام جیسے لوگ موجود نہیں تھے اور اسی طرح طائف میں عروہ بن مسعود ، حبیب بن عمرو ، کنانہ بن عبد عمرو اور ابن عبدیالیل جیسے زؤسا موجود نہیں تھے ؟ اس منصب کے لیے اگر کسی انسان کو چنا جانا اللہ کے ہاں طے تھا تو پھر ان لوگوں میں سے کوئی شخص منتخب کیا جاتا جو اثر و رسوخ کا مالک ہوتا اور اپنی قوم کا سردار ہوتا اور لوگ اس کی زبان سے نکلی ہوئی بات کو فوراً قبول کرلیتے اور اس کے احکام کے سامنے گردن خم کردیتے۔ یہ تو بہت تعجب کی بات ہوئی کہ اللہ میاں کو نبوت و رسالت کا منصب سپرد کرنے کے لیے مکہ میں ایک درِ یتیم ہی نظر آیا جس کی باتوں پر کوئی بھی معقول آدمی کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جس طرح آج کل یہ باپ دادا والے لوگ جو جاگیردار اور سرمایہ دار جیسے ناموں سے معروف ہیں ، نوابزادے ، پیرزادے اور صاحبزادے جیسے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حکومت ہمارا خاندانی حق ہے اور عوام ان کی ہاں میں ہاں ملانے ہی میں خیر سمجھتے ہیں اسی کو کہتے ہیں کہ ” ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں “۔
Top