Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 67
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول بَلِّغْ : پہنچا دو مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف (تم پر مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب وَ : اور اِنْ : اگر لَّمْ تَفْعَلْ : یہ نہ کیا فَمَا : تو نہیں بَلَّغْتَ : آپ نے پہنچایا رِسَالَتَهٗ : آپ نے پہنچایا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْصِمُكَ : آپ کو بچالے گا مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
اے پیغمبر اسلام ! تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر جو کچھ نازل ہوا ہے اسے پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ کا پیغام نہ پہنچایا اور اللہ تمہیں انسانوں سے محفوظ رکھے گا ، وہ اس گروہ پر راہ نہیں کھولتا جس نے کفر کی راہ اختیار کی ہے
ایک اہم پیغام جس کا پہنچانا پیغمبر اسلام ﷺ کے ذمہ لازم قرار دیا گیا : 180: وہ قوم جس میں نبی اعظم وآخر ﷺ کو مبعوث کیا گیا ہے اس کا باوا آدم بھی نرلا ہی تھا۔ اس لئے کہ وہ اپنی مزاج کے آپ ہی تھے۔ ان کی ہر بات انوکھی تھی اور اقوام عالم کی ساری بیماریاں ان کے اندر موجود تھیں۔ سیاسی طور پر وہ بدنظمی اور انتشار کا شکار تھے۔ معاشی طور پر ان کی بدحالی کی مثال نہ تھی۔ اخلاقی لحاظ سے ان کے ہاں گنگا ہی الٹی بہہ رہی تھی۔ کردار کی ساری خرابیاں ان میں موجود تھیں شراب نوشی ، جواز بازی ، بدکاری اور بےحیائی ان کے ہاں سرداری اور دولت مندی کی علامات تھیں۔ ظلم ، زیادتی اور قتل و غارت کو وہ شجاعت سمجھتے تھے ۔ معصوم بچیوں کو زندہ درگور کردینا ان کے لئے تقاضائے حمیت و غیرت تھا۔ اسراف و فضول خرچی کو وہ لوگ سخاوت کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ دینی لحاظ سے ان کی پوزشن یہ تھی کہ جو گھر اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کے لئے تعمیر کیا گیا تھا وہاں تین سوساٹھ بت اللہ کے بندوں کے بطور علامت بنا کر رکھے تھے اور اس طرح وہ ان بتوں کی نہیں بلکہ ان بندوں کی پرستش کرتے تھے جن کے وہ بت بنائے گئے تھے۔ ہر قبیلے کا الگ خدا تھا۔ اللہ کے وہ بندے جن کے بت انہوں نے بنا رکھے تھے ان کے عقیدے میں وہی ان کی بگڑی بنانے والے تھے ان کو حاجت روا اور مشکل کشا جانتے تھے اس لئے ان سے ان کی والہانہ محبت تھی۔ اب جو ہستی ایک عالمگیر انقلاب کی داعی بن کر آئی تھی اور جس کو زندگی کے ان سارے شعبوں میں ہر خرابی کی اصلاح کے لئے مقرر کیا گیا تھا اس کا فرض کیا تھا ؟ یہی کہ وہ سیاسی انتشار کے جو محرکات تھے ان پر کاری ضرب لگاتے ہوئے اس بدنظمی کا قلع قمع کرے وہ عناصر جن کی دھاندلیوں نے وہاں کی معاشی زندگی کو درہم برہم رکھا تھا ان کے منہ میں لگام دے۔ وہ خبیث عادتیں اور وحشیانہ افعال جن پر بلند اخلاقی کے غلاف چڑھائے گئے تھے ان کو مکمل طور پر بےنقاب کر دے اور اخلاق فاضلہ کا صحیح مفہوم ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرائے اور ان کی عقیدت کے صنم کدوں میں جتنے انسانوں کے بت خانے بنائے گئے تھے وہ پتھر کے ہوں ، تانبے کے ہوں ، چاندی کے ہوں ، سونے کے ہوں اٹھوا کر باہر پھینک دے اور ان کا صحیح مقام ان کے دلوں میں بٹھائے کہ یہ اللہ کے نیک بندے اللہ ہی کی بندگی کی اپنے اپنے وقت میں دعوت دیتے رہے تھے ۔ اس طرح وہ بت جو انہوں نے اپنی خواہشات ، اپنے نفس ، ذاتی اور قبائلی عصبیتوں کے بنا رکھے تھے سب کو ” الا اللہ “ کو ضرب سے پاش پاش کر دے پھر اس کار عظیم کیلئے قدرت کی نظر انتخاب اس ہستی پر پڑی جس کا اس دنیا میں کوئی بھائی نہیں۔ جس کے سر پر باپ کا سایہ نہیں۔ جس کے پاس دولت کی ریل پیل نہیں۔ جس کے ہاں حشم وخشم نہیں۔ جس کی خدمت کے لئے کوئی ملازم و خادم نہیں۔ اس کے پاس ہے تو صرف اور صرف اللہ کا نام ہے یہی اس کی ساری قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ یہی اس کی ساری توانائیوں اور طاقتوں کا منبع ہے۔ اس نازل ترین اور مشکل ترین خدمت کیلئے اس کو متعین فرما کر اس کا رب ذوا الجلال والا کرام اسے فرماتا ہے کہ آپ ﷺ رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور رسول کا کام یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کا پیغام بےخوف وخطر بغیر کسی ردوبدل کے اور بغیر کسی لوچ ولچک کے پہنچا دے۔ جن کی طرف یہ پیغام بھیجا گیا ہے ان میں اہل کتاب بھی ہیں اور اہل شرک بھی جن میں وہ ساری بیماریاں موجود ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا اس لئے پیغام دیتے ہی اس کو یقین دہانی کرادی کہ ” اللہ تمہیں انسانوں سے محفوظ رکھے گا۔ “ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 1ؕ۔ اللہ کفر کی راہ اختیار کرنے والوں پر کبھی سیدھی راہ نہیں کھولتا : 181: اس یقین دہانی کے بعد کہ لوگ آپ (علیہ السلام) کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور ان لوگوں سے اللہ آپ ﷺ کو محفوظ رکھے گا اس بات کی اطلاع بھی کردی کہ آپ ﷺ کا کام پیغام پہنچانا ہے سیدھی راہ پر لگا کر اس پر قائم رکھنا نہیں۔ یہ کام ان کا ہے جن کو پیغام پہنچایا گیا کہ وہ اس پر قائم رہیں۔ اس لئے کہ اگر وہ کفر پر جمے رہنا ہی پسند کریں گے تو اللہ کا قانون تو پہلے ہی موجود ہے کہ وہ جو ئندہ کو یا بندہ کرتا ہے اور ان باتوں میں جبر و کراہ سے کام نہیں لیتا جن میں جبر واکراہ سے کام لینا اس نے ممنوع فرمایا ہے ۔ کفر پر گامزن ہونے والوں کے کانوں تک یہ پیغام پہنچا دینا کہ تم کفر پر گامزن ہو اور شاید تم کو معلوم نہیں یہ کام مبلغ کا ہے۔ اس کفر سے باز آنا ان کی ذمہ داری ہے جو کفر کی راہ پر رواں دواں ہیں ۔ مبلغین کو یہ بتادیا کہ جو لوگ کفر پر ہی رواں دواں رہنا چاہتے ہیں ان کو بزور اس راہ سے روک کر سیدھی راہ پر لگادینا قانون الٰہی کے خلاف ہے اس لئے آپ ﷺ کی فکر نہ کریں کہ وہ سیدھی راہ کی طرف کیوں نہیں آتے۔ اس سارے پیغام میں ایک جملہ معترفہ ہے کہ ” اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا “ ان الفاظ سے کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ نبی اعظم وآخر ﷺ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو کسی کی پاسداری کے لئے یا کسی کے خوف سے کچھ چھپانا چاہتے تھے اس لئے یہ فرمایا گیا۔ دراصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے بیان کا یہ انداز جگہ جگہ موجود ہے کہ وہ آپ ﷺ کو مخاطب فرما کر آپ ﷺ کی امت کے لوگوں کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ قرآن کریم کی تبلیغ اور اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام لوگوں تک پہنچانا صرف آپ ﷺ ہی کے ذمہ نہ تھا بلکہ ” ومن بلغ “ جس کو یہ پیغام پہنچے اس کے ذمہ آگے پہنچانا ہی تھا اس لئے اس جملہ معترفہ میں رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے آپ ﷺ کی امت کے ان لوگوں کو بھی ساتھ ہی مطلع فرمادیا جن کے ذمہ اس پیغام الٰہی کو سن کر آگے پہنچانے کا کام لگایا گیا تھا۔ نبی اعظم و آخر ﷺ نے اللہ کا یہ پیغام بےخوف وخطر بغیر کسی لوچ ولچک کے اہل کتاب اور اہل شرک اور دوسرے گروہوں تک من وعن پہنچا دیا اس سلسلہ میں تفسیر عثمانی میں علامہ شبیر احمد عثمانی ؓ کے جو الفاظ ہیں وہ بڑے معنی خیز ہیں۔ آپ لکھتے ہیں ” نوع انسانی کے خواص و عوام میں سے جو بات جس طبقہ کے لائق اور جس کی استعداد کے مطابق تھی آپ ﷺ نے بلا کم وکاست اور بےخوف وخطر پہنچا کر خدا کی حجت بندوں پر تمام کردی۔ “ (ص 154) قرآن کریم کے تخاطب کا انداز معجزانہ ہے اس کی مثال دنیا کے کسی کلام میں نہیں ملتی : 182: پچھلی آیت میں ذکر پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ ﷺ کے پیغام الٰہی پہنچانے کا تھا۔ زیر نظر آیت میں آپ ﷺ وہ پیغام الٰہی ” اہل کتاب “ کو پہنچا رہے ہیں۔ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ اے اہل کتاب میں تمہارے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا ہوں اور وہ پیغام یہ ہے ۔ پیغام پہنچانے کا معجزانہ انداز یہ اختیار فرمایا گیا کہ ” اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ٹکنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے جب تک تم تورات و انجیل اور جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے قائم نہ کرو۔ “ بات بالکل مختصر لیکن کتنی معنی خیز کہ یہود کو مخاطب کیا اور نصاریٰ کو بھی ۔ پھر دونوں گروہوں پر واضح کردیا کہ تم اپنی اپنی جگہ جو تورات وانجیل کتب الٰہی دیئے جانے کا ذکر کرتے ہو یہ صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے اس پر تمہارے پاس کوئی دلیل موجود نہیں کیوں ؟ اس لئے کہ تم تورات وانجیل کے کسی حکم کے پابند نہیں اور تم دونوں گروہوں کا عمل اپنی اپنی تسلیم شدہ کتاب الٰہی کے خلاف ہے ۔ تم اپنے دعویٰ میں سچے اسی وقت ہو سکتے ہیں کہ اپنی تسلیم شدہ کتاب الٰہی کے مطابق عمل کرو اور ” جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کو قائم کرو۔ “ اور ظاہر ہے کہ اگر وہ ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں تو آپ ﷺ کی نبوت اور آپ ﷺ کے دیئے گئے پیغام کا وہ انکار کر ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ آپ ﷺ کی نبوت کی ساری پیش گوئیاں تورات وانجیل ہی میں موجود تھیں اور انہی پیش گوئیوں کو بناء پر وہ اس آنے والے نبی کے منتظر بھی تھے اور ان کے اس انتظار کی داستانیں زمانہ سنتا تھا اس لئے ان کو کس معجزانہ انداز میں اپنی ہی تسلیم شدہ کتب آسمانی کی طرف دعوت دی گئی۔ پھر اس انداز معجزانہ سے مسلمانوں کو بھی بتا دیا کہ جب ہم اہل کتاب کو صحیح معنوں میں اہل کتاب ہونے کی دعوت پیش کر رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اہل اسلام بھی صحیح معنوں میں اہل اسلام اسی وقت ہو سکتے ہیں جب اپنی کتاب آسمانی یعنی قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق عمل کریں۔ اگر اہل کتاب اپنی کتب آسمانی کے مطابق عمل نہ کرنے کی وجہ سے حقیقت میں اہل کتاب نہیں ہیں اور اہل قرآن ، قرآن کی ہدایات کے مطابق عمل نہ کر کے کیسے اہل قرآن رہ سکتے ہیں ؟ اس طرح گویا اہل کتاب کو مخاطب فرما کر اہل قرآن جن کا دوسرا نام اہل اسلام بھی ہے وہی سبق سکھا دیا جو اہل کتاب کو یاد کرایا جا رہا ہے۔ اس کو کہتے ہیں کہ ” ایک پنتھ اور دو کاج “ یہی تقریر پیچھے آیت 65 ، 66 میں بھی گزر چکی ہے۔
Top