Urwatul-Wusqaa - Al-Ghaashiya : 26
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور حَسِبُوْٓا : انہوں نے گمان کیا اَلَّا تَكُوْنَ : کہ نہ ہوگی فِتْنَةٌ : کوئی خرابی فَعَمُوْا : سو وہ اندھے ہوئے وَ : اور صَمُّوْا : بہرے ہوگئے ثُمَّ : تو تَابَ : توبہ قبول کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان کی ثُمَّ : پھر عَمُوْا : اندھے ہوگئے وَصَمُّوْا : اور بہرے ہوگئے كَثِيْرٌ : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھ رہا ہے بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
وہ سمجھے کہ کوئی آزمائش نہیں ہوگی اس لیے اندھے بہرے ہوگئے اور پھر اللہ اپنی رحمت سے ان پر لوٹ آیا لیکن پھر ان میں سے بہ تیرے اندھے بہرے ہوگئے اور اب جیسے کچھ ان کے کرتوت ہیں اللہ انہیں دیکھ رہا ہے
یہود کے دو بار اندھے اور بہرے ہونے کا مطلب دو بار تباہی کا شکا ہونا ہے : 187: زیر نظر آیت میں بنی اسرائیل کے دو مرتبہ اندھے بہرے بن جانے اور پھر ان پر گرفت ہونے کا بیان ہے اور بنی اسرائیل کی یہ وہ تاریخ ہے جو نزول قرآن کریم سے پہلے کی ہے قرآن کریم کے نزول کے بعد جو ان کے ساتھ ہوا اور آئندہ زمانے میں ہوتا رہے گا اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل میں اشارات ہی اشارات میں کردیا گیا۔ اس جگہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان کے اندھے اور بہرے بن جانے کی اصل حقیقت اور وجہ کیا تھی ؟ قرآن کریم کے معجزانہ کلام پر غور کرنے سے بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس کی وجہ بنی اسرائیل کا یہ عقیدہ تھا کہ ” نجات کے لئے یہودونصاریٰ کے گروہ بندیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ منسلک ہونا ضروری ہے۔ ” وقالوالن یدخل الجنہ الا من کان ھودا او نصری۔ “ پھر جب ان گروہ بندیوں میں سے کسی کے ساتھ منسلک ہوگیا یعنی اپنے آپ کو یہودی یا عیسائی کہہ دیا اور ان کی رسم و رواج کو اپنا لیا تو اب وہ چاہے جو کرے اس پر کچھ گرفت نہیں آسکتی۔ اس عقیدہ نے ان کو دین کا چھوڑا نہ دنیا کا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس عقیدہ کے باعث ایسی ذلت میں مبتلا کیا کہ ان کی دنیا بھی برباد ہوگئی اور آخرت کی رسوائی بھی انہی کا مقدر بن کر رہ گئی۔ زیر نظر آیت میں بھی ان کے اس عقیدہ کی طرف اشارہ فرمادیا کہ وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ ، وہ سمجھے کہ ان پر کوئی آزمائش نہیں ہوگی۔ “ پھر ان پر آزمائش ہوئی یا نہیں ؟ کیوں نہیں ، ان کی دو بار کی آزمائش کا ذکر تو اس آیت میں فرمادیا کہ ان کا گمان تو یہی تھا اور ان کو اس عقیدہ نے ایسا اندھا اور بہرہ کیا کہ انہوں نے ہر ایک سنی ان سنی کردی ۔ اس جگہ ان کے دوبارہ اندھے اور بہرے ہونے کا ذکر کر کے ان کی دو بار کی آزمائش کی طرف صرف اشارہ کیا لیکن سورة بنی اسرائیل میں اس کی پوری وضاحت فرما دی کہ ان کے اندھے اور بہرے ہونے کا کیا نتیجہ رہا۔ چناچہ ارشاد ہوا کہ : وَقَضَیْنَآ اِلٰى بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا۝ 4 فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ۝ 0ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا۝ 5 ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِیْرًا۝ 6 اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ۝ 0ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا۝ 0ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْۗءٗا وُجُوْہَكُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَـمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِــیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا۝ 7 اور ہم نے کتاب میں (یعنی توراۃ میں) بنی اسرائیل کو اس فیصلہ کی خبر دے دی تھی کہ تم ضرور ملک میں دو مرتبہ خرابی پھیلاؤ گے اور بڑی ہی (زبردست) سرکشی کرو گے۔ پھر جب ان دو وقتوں میں سے پہلا وقت آگیا تو ہم نے تم پر اپنے ایسے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی خوفناک تھے پس وہ تمہاری آبادیوں کے اندر پھیل گئے اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہا۔ پھر ہم نے زمانہ کی گردش تمہارے دشمنوں کے خلاف اور تمہارے موافق کردی اور مال و دولت اور اولاد کی کثرت سے تمہاری مدد کی اور تمہیں ایسا بنا دیا کہ بڑے جتھے والے ہوگئے۔ اگر تم نے بھلائی کے کام کیے تو اپنے ہی لیے کیے اور اگر برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لیے کیں ، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تاکہ تمہارے چہروں پر رسوائی پھیر دیں اور وہ اسی طرح مسجد میں داخل ہوگئے جس طرح پہلی مرتبہ حملہ آور گھسے تھے اور جو کچھ پایا توڑ پھوڑ کر برباد کردیا۔ (بنی اسرائیل 17 : 4 تا 7) ظاہر ہے کہ ” کتاب سے مراد اس جگہ بنی اسرائیل کے صحیفے ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل کی یہ دونوں آزمائشیں قرآن کریم کے نزول سے پہلے ہوچکی تھیں۔ چناچہ یسعیاہٖیرمیاہ اور حزقیل کی کتابوں میں بنی اسرائیل کی ان دو بڑی بربادیوں اور دو فسادوں کی خبر دے دی گئی تھی جن میں سے پہلی بربادی بابل کے بادشاہ بنو کدزر (بخت نصر) کے حملہ سے ہوئی اور دوسری رومیوں کے حملہ سے ہو ٹیٹس کے زیر قیادت ہوئی تھی۔ بنی اسرائیل کی اس پہلی بربادی کا ذکر اس طرح کیا گیا کہ ” انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا۔ جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا۔ بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے۔ جو ان کے لئے پھندا بن گئے ۔ بلکہ انہوں نے اپنے بیٹوں بیٹیوں کو شیاطین کے لئے قربان کیا اور معصوموں کو یعنی اپنے بیٹے بیٹیوں کا خون بہایا جن کو انہوں نے کنعان کے بتوں کے لئے قربان کردیا اور ملک خون سے ناپاک ہوگیا۔ یوں وہ اپنے کاموں سے آلودہ ہوگئے اور اپنے فعلوں سے بےوفا بنے۔ اس لئے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان کو قوموں کے قبضہ میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران ہوگئے ۔ ان کے دشمنوں نے ان پر ظلم کیا اور وہ ان کے محکوم ہوگئے۔ (زبور 106 ، 34 تا 42) ” آہ خطاکار گروہ ۔ بدکرداری سے لدی ہوئی قوم۔ بدکرداروں کی نسل ۔ مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا۔ اسرائیل کے قدوسی کو حقیر جانا اور گمراہ برشتہ ہوئے۔ تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے ؟ تمام سر بیمار ہے اور دل بالکل ست ہے۔ “ (یسیعاہ 1 : 4 ، 6) ” وفادار بستی کیوں بدکار ہوگئی ! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راست بازی اس میں بستی تھی لیکن اب خونی رہتے ہیں ۔ تیری چاندی میلی ہوگئی ۔ تیری مے میں پانی مل گیا۔ تیرے سردار گردن کش اور چوروں کے ساتھ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت اور انعام کا طالب ہے۔ وہ یتیموں کا انصاف نہیں کرتے اور بیوفاؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لئے خداوند رب الافواج اسرائیل کا قادریوں فرماتا ہے کہ آہ ضرور میں اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا اور اس رانگے کو جو تجھ میں ملا ہے جدا کروں گا۔ “ (یسیعاہ 1 : 21 تا 26) ” تو نے تو اپنے لوگوں یعنی یعقوب کے گھرانے کو ترک کیا اس لئے کہ وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلستیوں کی مانند شگون لینے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ساتھ ہاتھ مارتے ہیں اور ان کا ملک سونے چاندی سے مالا مال ہے اور ان کے خزانوں کو کچھ انتہا نہیں اور ان کا ملک گھوڑوں سے بھرا ہے اور ان کے رتھوں کا کچھ شمار نہیں اور ان کی زمین بتوں سے بھی پر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صفت یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاری گری کو سجدہ کرتے ہیں۔ “ (یسعیاہ 2 : 7 ، 9) ” اور خداوند فرماتا ہے چونکہ صیون کی بیٹیاں متکبر ہیں اور گردن کشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی ہیں اور اپنے پاؤں سے ناز رفتاری کرتی ہیں اور گھنگرو بجاتی جاتی ہیں ۔ اس لئے خداوند صیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور یہودہ ان کے بدن بےپردہ کر دے گا اس دن خداوند ان کے خلخال کی زیبائش اور جالیاں اور چاند لے لے گا۔ “ (یسیعاہ 3 : 16 ، 17) ” اور میں لڑکوں کو ان کے سردار بناؤں گا اور ننھے بچے ان پر حکمرانی کریں گے۔ لوگوں میں سے ایک دوسرے اور ہر ایک اپنے ہمسائے پر ستم کرے گا اور بچے بوڑھوں کی اور رذیل شریفوں کی گستاخی کریں گے۔ جب کوئی آدمی اپنے باپ کے گھر میں اپنے بھائی کا دامن پکڑ کر کہے کہ تو تو پوشاک والا ہے آتو ہمارا حاکم ہو اور اس اجڑے دیس پر قابض ہوجا۔ “ (یسعیاہ 3 : 5 ، 7) ” یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خداوند کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں جو غیب بینوں سے کہتے ہیں غیب بین نہ کرو اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں نہ کرو۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو۔ راہ سے باہر جاؤ ۔ راستہ سے برگستہ ہو اور اسرائیل کے قدوسی کو ہمارے درمیان سے موقوف کرو۔ پس اسرائیل کا قدوسی یوم فرماتا ہے چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسہ رکھتے ہو اور اس پر قائم ہو۔ اس لئے یہ بدکرداری تمہارے لئے ایسی ہوگی جیسی پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔ اونچی ابھری ہوئی دیوار جس کا گرنا ناگہاں ایک دم میں ہو وہ اسے کمہار کے برتن کی طرح توڑ ڈالے گا۔ (یسعیاہ 30 : 9 ، 14) ” ان پر افسوس جو صبح سویرے اٹھتے ہیں تاکہ نشہ بازی کے درپے ہوں اور رات کو جاگتے ہیں جب تک شراب ان کو بھڑکانہ دے اور ان کے جشن کی محفلوں میں بربط اور ستار اور دف اور بین اور شراب ہیں لیکن وہ خداوند کریم کے کام کو نہیں سوچتے اور اس کے ہاتھوں کی کاری گری پر غور نہیں کرتے۔ اس لئے میرے لوگ جہالت کے سبب سے اسیری میں جاتے ہیں ۔ “ (یسعیاہ : 5 ، 11 ، 14) ” ان پر افسوس جو بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی کہتے ہیں اور نور کی جگہ تاریکی کو اور تاریکی کی جگہ نور کو دیتے ہیں اور شیرینی کے بدلے تلخی اور تلخی کے بدلے شیرینی رکھتے ہیں۔ ان پر افسوس جو اپنی نظر میں دانشمند اور اپنی نگاہ میں صاحب امتیاز ہیں۔ ان پر افسوس جو قے پے نت میں زور آور اور شراب پلانے میں پہلوان ہیں۔ جو رشوت کے شریروں کو صادق اور صادقوں کو ناراست ٹھہراتے ہیں پس جس طرح آگ بھوسے کو کھا جاتی ہے اور جلتا ہوا پھوس بیٹھ جاتا ہے اسی طرح ان کی جڑ بوسیدہ ہوگی اور ان کی کلی گرد کی طرح اڑ جائے گی کیونکہ انہوں نے رب الافواج کی شریعت کو ترک کیا اور اسرائیل کے قدوسی کے کلام کو حقیر جانا۔ اس لئے خداوند کا قہر اس کے لوگوں پر بھڑکا اور اس نے ان کے خلاف اپنا ہاتھ بڑھایا اور ان کو مارا چناچہ پہاڑ کانپ گئے اور ان کی لاشیں بازاروں میں غلاظت کی مانند پڑی ہیں۔ “ (یسعیاہ 5 : 21 ، 25) تورات کی ان آیات میں بنی اسرائیل کے وہ حالات بیان کئے گئے ہیں جن کی پاداش میں بنی اسرائیل پر پہلی یلغار ہوئی اور بخت نصر نے ان کو تہہ تیغ کیا اور ان کے علاقوں کو ویران کردیا۔ ان آیات کو ایک سے زیادہ بار پڑھو اور سمجھ سمجھ کر پڑھو اور پھر آج اپنی قوم قوم مسلم کے حالات کے ساتھ مطابقت کر کے دیکھو وہ کونسی بات ہے جو اس وقت قوم بنی اسرائیل میں پائی جاتی تھی اور آج ہم میں وہ نہیں پائی جاتی ۔ پھر غور کرو کہ قوم بنی اسرائیل ان ساری فرمانیوں ، زیادتیوں اور بےحیائیوں کے باوجود یہی سمجھتی تھی اور اس کے علماء ان کو یہی باور کراتے تھے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو اور ایک بخشی امت ہو۔ نبیوں کی اولاد ہو ۔ اسرائیل کے گھرانے کے لوگ ہو تم پر کوئی عذاب نہیں آسکتا ۔ تم کو کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ دنیا کیا ہے تم تو جنت کے وارث قرار دیئے گئے ہو۔ اور آج ہماری قوم قوم مسلم بزعم خویش کیا سمجھتی ہے اور ہمارے علمائے کرام نے ہمیں کیا بتایا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی امت ہیں اور آپ ﷺ نے سجدہ میں سر رکھ کر امتی ، رب امتی صدائیں بلند کر کے امت کو بخشوا لیا ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ ہمارے نانا پاک ہیں ۔ ہم فاطمہ ؓ کے گھرانے کے افراد ہیں اور حسین ؓ کی اولاد ہیں ہم پر کوئی عذاب نہیں آسکتا جیسا کہ پہلی قوموں پر آیا کرتا تھا ۔ اسی طرح کے وہ کتنے خیالات ہیں جو ہمارے عقیدے میں راسخ ہوچکے ہیں ۔ پھر سب سے بڑ ھ کر یہ کہ دنیا کی وہ ذلیل ترین قومیں جن کی تاریخ ان کو ذلیل قرار دیتی ہیں جن کی آسمانی کتابیں ان کو نافرمان اور بےحیاء کے القابات سے نوازتی ہیں وہ ہم پر اس طرح مسلط کردی گئی ہیں کہ ہم اپنی سرزمین اور اپنے ہی گھروں میں اپنی مرضی کے مطابق اٹھ بیٹھ اور چل پھر نہیں سکتے اور ان کے اشاروں پر ہم حرکت کے پابند ہو کر رہ گئے ہیں۔ دنیا کی وہ کیا شے ہے جو مسلمانوں کے پاس موجود نہیں لیکن اس کے باوجود مسلمان بےدست وپا ہو کر رہ گئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری سوچ اور سمجھ پر پابندی ہے کہ ہم اس سے کام نہیں لے سکتے اور ہم ہیں کہ ان ساری باتوں کو برداشت کر کے صاحب کو سلام کرتے ہیں۔ تف ہے ہمارے حکمرانوں پر ، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں پر ، مذہبی راہنماؤں پر اور فوجی کمانڈروں پر کہ ان میں ایک بھی نہیں جو سر پکڑ کر سوچ سکے کہ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے ؟ قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ بنی اسرائیل نے من حیث القوم اپنی پہلی تباہی و بربادی کے بعد سنبھلنے کی کوشش کی اور اللہ نے ان کا ہاتھ تھام لیا ۔ جب اس عذاب سے انہوں نے نجات پائی اور ان کی کھوئی طاقت سینکڑوں سالوں کے بعد واپس لوٹی تو انہوں نے دوبارہ وہی کام شروع کردیئے جو ان کے آباء واجد کرتے آئے تھے ۔ حتیٰ کہ وہ اپنے سارے کاموں میں پہلوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے اور انجام کار ” سنت اللہ “ نے بھی ان کو دوبارہ پکڑ لیا اور وہ مار دی کہ وہ ہزار ہا سال تک بھی سنبھل نہ سکے اور اب دوسروں کے سہارے کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ دوسری مار ان کو کب پڑی ؟ قرآن کریم کی روشنی اور تاریخی ابواب سے یہ معلوم ہے کہ سیدنا مسیح (علیہ السلام) کے بعد ان کا انحطاط شروع ہوا اور نبی اعظم وآخر ﷺ کے مبعوث ہونے کے زمانہ میں وہ رومیوں کے ہاتھوں پٹ رہے تھے اور یہی بنی اسرائیل کی وہ دوسری ہلاکت تھی جس کے بعد وہ سنبھل نہ سکے۔ ” وَ اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا 1ۘ“ (17 : 8) کے الفاظ اپنے اندر کتنی معجزانہ بلاغت رکھتے ہیں اور مسلمانوں کو وہ کس طرح پکار پکار کر بزبان حال درس دے رہے ہیں کہ ” اگر تم نے پھر سرکشی کی اور فساد کی طرف لوٹے تو ہماری طرف سے بھی پاداش عمل لوٹ آئے گی ۔ “ لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے قرآن کریم کو سمجھ کر نہ پڑھنے کی قسم کھالی ہے اور علماء نے ان کو باور کرا دیا ہے کہ قرآن کریم مردوں کو بخشوانے کے لئے نازل کیا گیا ہے اسلئے پہلے مرے ہوئے کو تم بخشواؤ اور ان کے لئے قرآن پڑھواؤ اور جب تم مرو گے تو تمہارے پیچھے والے تم کو بخشوائیں گے اور قرآن کریم کے ختم پر ختم کرائیں گے۔
Top