Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 71
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور حَسِبُوْٓا : انہوں نے گمان کیا اَلَّا تَكُوْنَ : کہ نہ ہوگی فِتْنَةٌ : کوئی خرابی فَعَمُوْا : سو وہ اندھے ہوئے وَ : اور صَمُّوْا : بہرے ہوگئے ثُمَّ : تو تَابَ : توبہ قبول کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان کی ثُمَّ : پھر عَمُوْا : اندھے ہوگئے وَصَمُّوْا : اور بہرے ہوگئے كَثِيْرٌ : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھ رہا ہے بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور گماں یہی کرتے رہے کہ وبال کچھ نہ پڑے گا،241 ۔ سواندھے اور بہرے ہوگئے،242 ۔ پھر اللہ نے ان پر رحمت سے توجہ فرمائی،243 ۔ پھر بھی ان میں کے بہت سے اندھے اور بہرے ہی رہے، اور اللہ خوب دیکھ رہا ہے ان کے کرتوت،244 ۔
241 ۔ (ان پر تکذیب انبیاء اور قتل انبیاء کا) (آیت) ” فتنۃ “۔ کے ایک معنی سزا کے بھی ہیں۔ الفتنۃ العذاب (قاموس) قرآن مجید میں بھی (آیت) ” فتنۃ “۔ ایک دوسرے موقع پر اسی معنی میں آیا ہے۔ ذوقوا فتنتکم ای عذابکم (راغب) اہل تحقیق نے یہی معنی یہاں بھی لیے ہیں، ای عذاب وقتل (معالم صحیفہ زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ایک مناجات بھی اسی معنی ومفہوم کی تائید میں ہے :۔” اے خداوند، شریر کب تک، ہاں شریر کب تک شادیانے بجائیں گے۔ وہ ڈکارتے اور گستاخی کی باتیں بولتے۔ سارے بدکاری کرنے والے لاف زنی کرتے۔ وہ اے خداوند تیرے لوگوں کو پیس ڈالتے ہیں، اور تیری میراث کو دکھ دیتے ہیں، اور بیوہ اور پردیسی کو جان سے مارتے ہیں اور یتیم کو قتل کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں، خداوند نہ دیکھے گا، یعقوب کا خدا ہرگز نہ سمجھ لے گا “۔ (زبور۔ 94:3 ۔ 7) (آیت) ” فتنہ “۔ کے مشہور و متعارف معنی آزمائش کے ہیں، وہ بھی یہاں بےجا نہیں اور بعض مفسرین نے یہی اختیار کیے ہیں۔ انہ لایقع من اللہ عزوجل ابتلاء واختبار بالشدائد (قرطبی) 242 ۔ یعنی ان کے اس گمان وپندار نے اور حق تعالیٰ کی طرف سے مہلت نے انہیں قبول حق وکلمہ حق کی طرف سے اور زیادہ غافل وبے نیاز کردیا۔ عموا عن الھدی وصموا عن سماع الحق (قرطبی) عموا عن الرشد وصموا عن الوعظ (مدارک) 243 ۔ اور مزید ہدایت کے لیے کوئی اور پیغمبر ان میں بھیجا) 244 ۔ (اور وقت مناسب پر انہیں سزا دے کر رہے گا) فیجازیھم بحسب اعمالھم (مدارک) صحیفہ زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبان سے ہے : اے قوم کے بیوقوفوسمجھو۔ اے جاہلوتم کب ہوشیار رہوگے۔ وہ جس نے کان لگایا، کیا نہیں سنتا ؟ وہ جس آنکھ بنائی، کیا نہیں دیکھتا ؟ وہ جو قوموں کو تنبیہ دیتا ہے، کہا وہ سزا نہ دے گا ؟ وہ جو انسان کو دانش سکھلاتا ہے کیا وہ واقفیت نہ رکھتا ہوگا “ ؟ (زبور۔ 94:9) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ معاصی پر اصرار سے استعداد بالکل مضمحل ہوجاتی ہے، اور اسی کو بطلان استعداد کہا جاتا ہے۔
Top