Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 71
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور حَسِبُوْٓا : انہوں نے گمان کیا اَلَّا تَكُوْنَ : کہ نہ ہوگی فِتْنَةٌ : کوئی خرابی فَعَمُوْا : سو وہ اندھے ہوئے وَ : اور صَمُّوْا : بہرے ہوگئے ثُمَّ : تو تَابَ : توبہ قبول کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان کی ثُمَّ : پھر عَمُوْا : اندھے ہوگئے وَصَمُّوْا : اور بہرے ہوگئے كَثِيْرٌ : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھ رہا ہے بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور خیال کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی آفت نہیں آنے کی تو وہ اندھے اور بہرے ہو گئے پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی (لیکن) پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہو گئے اور خدا ان کے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے
وحسبوا ان لا تکون فتنۃ اور ان کا گمان یہ تھا کہ (انبیاء کی تکذیب اور قتل سے) کوئی وبال (ان پر) نہیں آئے گا یعنی ان پر کوئی مصیبت اور عذاب نہیں آئے گا۔ فعموا وصموا پس (موسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد) یہ اندھے اور بہرے ہوگئے تھے یعنی دین اور دلائل کو دیکھنے سے اندھے اور حق بات سننے سے بہرے ہوگئے کیونکہ ان کا گمان ہی باطل تھا۔ ثم تاب اللہ علیہم پھر اللہ نے ان پر رحم فرمایا یعنی جب عیسیٰ ( علیہ السلام) پر یہ ایمان لائے اور توبہ کی تو اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ ثم عموا وصموا پھر (عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد دوبارہ) یہ اندھے بہرے ہوگئے۔ محمد ﷺ کا انکار کردیا۔ کثیر منہم ان میں سے بہتیرے۔ اس صورت میں لفظ کثیر عموا وصموا کی ضمیر سے بدل ہوگا جیسے کلام عربی میں آتا ہے اکلوا فی البر اغیث (جمہور اہل نحو کا قول ہے کہ اگر فاعل ظاہر ہو تو فعل کو مفرد لایا جائے گا لیکن آیت اور مثال مذکور میں کثیر اور البراغیث باوجودیکہ فاعل اور ظاہر ہیں پھر بھی فعل کو بصیغۂ جمع لایا گیا۔ اس شبہ کا جواب جمہور نے یہ دیا ہے کہ کثیر اور البراغیث فاعل نہیں ہیں بلکہ ضمیر فاعلی سے بدل ہیں) یا اس طرح ترجمہ ہوگا کہ ایسے ان میں بہت ہیں اس وقت کثیرخبر ہوگی اور مبتدا محذوف ہوگا یعنی اولئک کثیر۔ واللہ بصیر بما یعملون اور اللہ ان کے عمل کو خوب دیکھ رہا ہے۔ یعنی ان کے اعمال کی انکو سزا دے گا۔
Top