Al-Qurtubi - Al-Maaida : 71
وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ
وَ : اور حَسِبُوْٓا : انہوں نے گمان کیا اَلَّا تَكُوْنَ : کہ نہ ہوگی فِتْنَةٌ : کوئی خرابی فَعَمُوْا : سو وہ اندھے ہوئے وَ : اور صَمُّوْا : بہرے ہوگئے ثُمَّ : تو تَابَ : توبہ قبول کی اللّٰهُ : اللہ عَلَيْهِمْ : ان کی ثُمَّ : پھر عَمُوْا : اندھے ہوگئے وَصَمُّوْا : اور بہرے ہوگئے كَثِيْرٌ : اکثر مِّنْهُمْ : ان سے وَاللّٰهُ : اور اللہ بَصِيْرٌ : دیکھ رہا ہے بِمَا : جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اور یہ خیال کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی آفت نہیں آنے کی تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی (لیکن) پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور بہرے ہوگئے۔ اور خدا ان کے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
آیت نمبر : 71 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وحسبوا الا تکون فتنۃ یعنی ان لوگوں نے گمان کیا جن سے میثاق لیا گیا تھا کہ اللہ کی طرف سے ان پر کوئی آزمائش اور ابتلا نہ ہوگی انہیں اپنے قول سے دھوکا ہوا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فرزند اور اس کے چہیتے ہیں اور انہوں نے طویل مدت مہلت ملنے کی وجہ سے دھوکا کھایا۔ ابو عمرو اور حمزہ اور کسائی نے (تکون) رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی قراء نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ رفع اس بنا پر ہے کہ حسب معنی علم اور تیقن ہے اور ان مخففہ ہے اور لا کا دخول، تخفیف کے عوض ہے ضمیر کو حذف کیا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے ناپسند کیا کہ اس سے فعل متصل ہو اور اس کے حکم سے نہیں ہے کہ اس پر داخل ہو پس ان کے درمیان لا کا فاصلہ کردیا۔ اور جنہوں نے نصب پڑھی ہے انہوں نے ان کو ناصبہ بنایا ہے اور حسب اپنے باپ پر باقی رکھا ہے۔ سیبویہ نے کہا : حسبت الا یقول ذالک یعنی حسبت انہ قال ذالک اگر تو چاہے تو یقول کو نصب دے دے نحاس نے کہا : نحویوں کے نزدیک حسب اور اس کے اخوات میں رفع عمدہ ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : الا زعمت بسباسۃ الیوم اننی کبرت والا یشھد اللھو امثالی رفع عمدہ ہے، کیونکہ حسب اور اس کے اخوات، علم کے قائم مقام ہیں کیونکہ وہ ثابت چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فعموا وہ ہدایت سے اندھے ہوگئے۔ صموا حق سننے سے بہرے ہوگئے، کیونکہ جو انہوں نے دیکھا اور انہوں نے سنا اس سے نفع نہ اٹھایا۔ آیت : ثم تاب اللہ علیھم اس کلام میں اضمار ہے یعنی ان پر آزمائش واقع ہوئی تو انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ان سے قحط کو دور کردیا یا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما کر نظر رحمت فرمائی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بتایا کہ اللہ ان پر نظر کرم فرمائے گا اگر وہ ایمان لے آئیں گے۔ یہ آیت : تاب اللہ علیھم کا بیان ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان پر نظر رحمت فرمائے گا اگر وہ ایمان لے آئیں گے اور تصدیق کریں گے یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے حقیقیۃ توبہ کی۔ آیت : ثم عموا وصموا کثیر منھم یعنی حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ان کے لیے حق واضح ہونے کے بعد بہت سے لوگ اندھے اور بہرے ہوئے۔ آیت : کثیر کا رفع واو جمع سے بدل ہونے کی بنا پر ہے۔ اخفش سعید نے کہا : جیسے تو کہتا ہے : رایت قومک ثلثیھم اگر تو چاہے تو مبتدا مضمر مان لے یعنی العمی والصم کثیر منھم۔ اگر تو چاہے تو تقدیر یوں کرے : العمی والصم منھم کثیر۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ یہ ان لوگون کی لغت پر ہے جو کہتے ہیں : اکلونی البراغیث۔ اس بنا پر شاعر نے کہا : ولکن دیافی ابوہ وامہ بحوران یعصرن السلیط اقاربہ (اس شعر میں اقاربہ فاعل ہے پھر بھی یعصرن جمع مونث کا صیغہ ذکر ہوا ہے) اسی طرح ہے آیت : واسروالنجوی الذین ظلموا (الانبیائ : 3) اور غیر قرآن میں کثیرا پر نصب بھی جائز ہے یہ محذوف مصدر کی صفت ہوگا۔
Top