Urwatul-Wusqaa - Ar-Ra'd : 19
وَ السَّمَآءَ بَنَیْنٰهَا بِاَیْىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان بَنَيْنٰهَا : بنایا ہم نے اس کو بِاَيْىدٍ : اپنی قوت۔ ہاتھ سے وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ : اور بیشک ہم البتہ وسعت دینے والے ہیں
اور ہم نے آسمان کو دست قدرت سے بنایا اور ہم ہی صاحب قدرت ہیں
ہم نے آسمان کو دست قدرت سے بنایا اور ہم ہی صاحب قدرت ہیں 47 ؎ (والمساء بینھا باید) ” اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے “ (ید) کی اصل ی د ی ہے اور (ید) کے معنی ہاتھ کے ہیں اور (ید) یعنی ہاتھ کے معنی میں بہت وسعت ہے لغت عرب میں (ید) کے معنی مختلف کئے گئے ہیں جیسے ہاتھ ‘ اقتدار ‘ قابو ‘ غلبہ ‘ ملک ‘ قبضہ ‘ تصرف ‘ روکنا ‘ برکت ‘ سخاوت ‘ احسان ‘ ذلت ‘ بھلائی اور ندامت وغیرہ اور اول الذکر معنی حقیقی و صنعی ہیں اور باقی معانی کسی قرینہ ‘ مقام ‘ سیاق یا اختلاف صلابت کی وجہ سے مراد لئے جاسکتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ یدیت الیہ میں نے اس کے ساتھ احسان کیا مالی بہ ید مجھ میں اس کی طاقت نہیں ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے ؎ فاعمد لما تعلوہ فمالک بالذی لا تستطیع من الامور یدان جس چیز پر تو غالب آسکے اس کا ارادہ کر کیونکہ جس کام کی تجھ میں طاقت نہ ہو اس میں تصرف نہیں کرسکتا۔ اور یہ بات قبل ازیں بہت دفعہ کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جب بھی کسی عضو کی نسبت کی جائے تو اس سے اس عضو کا نتیجہ مراد ہوتا ہے نہ کہ وہ عضو جو ایک جسمانی چیز ہے جیسے ید وجھہ اور (عن) وغیرہ اور ہاتھ کا اطلاق قبضہ اور قدرت ہی کے لئے کیا جاتا ہے اس لحاظ سے اس جگہ بھی یہی مراد ہے کہ ” آسمان کو ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے بنایا ہے “ اور بہت سی جگہوں پر (ید) یعنی ہاتھ کا لفظ بطور استعارہ اور محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ (ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکتہ) (2 : 195) (لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک) (17 : 29) (یقبضون ایدیھم) (9 : 67) اردو زبان میں بھی ہاتھ کا محاورہ اکثر بولا جاتا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ یہاں ہاتھ سے کیا مراد ہے۔ مثلاً ” ہاتھ اٹھانا “ دست درازی کرنا ‘ زیادتی کرنا ‘ کسی کی کوئی چیز دبا لینا ‘ کسی کی مدد کرنا ‘ چھوڑ دینا ‘ دست بردار ہوجانا ‘ کنارہ کش ہونا۔ ” ہاتھ کا اونچا ہونا “ سخی ہونا ‘ آسودہ حال ہونا۔ ” ہاتھ باندھنا “ منت سماجت کرنا ” ہاتھ بندھ جانا “ مجبور ہوجانا ‘ بےطاقت ہوجانا۔ ” ہاتھ بھر کی زبان ہونا “ گستاخ ہونا ‘ گالی گلوچ پر اتر آنا۔ ” ہاتھ پائوں باندھنا “ مجبور کردینا ‘ بےبس کردینا مثل ہے کہ ” ہاتھ پائوں دیا سلائی بات کرنے کو فضل الٰہی “ طاقت و قوت تو موجود نہیں مگر زبان خوب چلتی ہے۔ (انا لموسعون) ہم نے اس کو بہت وسیع بنایا ہے یعنی کشادہ بنایا ہے یہاں تک کہ زمین کا یہ طویل و عریض کرہ اس کے سامنے ایسا ہے جیسے دائرہ کے وسط میں کوئی نقطہ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم بڑی وسعت رکھنے والے ہیں اور بہت فنا کے مالک ہیں اور ہماری قدرت بےکراں ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا دراصل اس میں وقوع قیامت کا انکار کرنے والوں کے لئے عبرت ہے کہ وہ سوچیں اور انصاف سے بتائیں کہ ایسی قدرت و طاقت رکھنے والے اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے لئے عبرت ہے کہ وہ سوچیں اور انصاف سے بتائیں کہ ایسی قدرت و طاقت رکھنے والے اللہ رب ذوالجلال والا کرام کے لئے مردوں کو زندہ کردینا آخر کیا مشکل ہے اور یہ کانٹا ان کے گلے میں کیوں اٹک کر رہ گیا ہے۔ ایک طے شدہ بات سے انکار کرنے میں ان کو کیا ملے گا۔
Top