Urwatul-Wusqaa - Adh-Dhaariyat : 46
وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ۠   ۧ
وَقَوْمَ نُوْحٍ : اور قوم نوح مِّنْ قَبْلُ ۭ : اس سے قبل اِنَّهُمْ كَانُوْا : بیشک وہ تھے قَوْمًا فٰسِقِيْنَ : فاسق لوگ
اور ان (سب) سے پہلے قوم نوح (کا بھی یہی حال ہوا) بلاشبہ وہ لوگ بڑے نافرمان تھے
قبل ازیں قوم نوح کو ان قوموں سے پہلے ہلاک کیا گیا تھا کہ یہ لوگ بھی فاسق ہی تھے 46 ؎ نوح (علیہ السلام) ‘ آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی ہیں جن کو رسالت سے نوازا گیا جیسا کہ صحیح مسلم باب شفاعت میں ابوہریرہ ؓ کی ایک طویل روایت میں بہ تصریح بیان کی ہے کہ (یا نوع انت اول الرسل الی الارض) ” اے نوح ! تو زمین پر سب سے پہلا رسول بنایا گیا “۔ نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ تقریباً قرآن کریم کی 25 سورتوں میں کیا گیا ہے جن میں سورة الاعراف کی آیات 59 ‘ تا 69 ‘ سورة ہود کی آیات 25 ‘ تا 89 ‘ سورة بنی اسرائیل کی آیات 2 تا 17 ‘ سورة الشعرا کی آیات 105 ‘ تا 116 ‘ سورة الصافات آیات 75 تا 79 ‘ سورة ال مومن کی آیات 5 تا 31 اور سورة نوح مکمل آپ ہی کے ذکر میں بیان کی گئی ہے۔ اگر آپ تفصیل چاہتے ہیں تو انہی محولہ سورتوں کی تفسیر دیکھیں۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم زیادہ تر بنت پرست ہی تھی اور انہوں نے اپنی قوم کے پانچ بزرگوں کے بت بنا رکھے تھے جو دوسرے سارے بزرگوں سے زیادہ بزرگ تسلیم کئے جاتے تھے۔ نوح (علیہ السلام) ایک مدت تک قوم کو سمجھاتے رہے لیکن قوم نے ان کی ایک نہ مانی اور صرف یہی نہیں کہ ان کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہوئے بلکہ ان کو دیکھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوئے اور آپ کو دیکھتے ہی اپنے چہروں کے سامنے پردہ کرلیتے تھے اور یہ ان لوگوں کا کا وہ مذاق تھا جس میں دوسری قوموں سے منفرد تھے دوسری قوموں میں سے کسی قوم نے یہ حرکت نہیں کی جو انہوں نے اپنائی انجام کار نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم ملا۔ آپ نے ایک بہت بڑی کشتی تیار کی اور جب کشتی تیار ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آسمان کو حکم دیا کہ بس بارش شروع ہوگئی آپ اللہ کے حکم سے اس کشتی میں سوار ہوگئے اور آپ کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے بھی کشتی میں سوار ہوئے اور ضرورت کی اشیاء بھی آپ نے کشتی میں رکھ لیں پھر ایک بہت بڑا طوفان آیا جس نے نوح (علیہ السلام) کی پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سب کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا باقی جو کچھ بچا وہ ان کے فسق و فجور کی داستان تھی جو آج تک پڑھی جاتی ہے اور رہتی دنیا تک پڑھی جاتی رہے گی اگرچہ اس پڑھنے سے بھی کسی قوم نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور آج ہماری حالت بھی وہی ہے کہ ان تذکار سے ذرہ بھر نصیحت حاصل کرنے کے لئے ہم بھی تیار نہیں اور تعجب ہے کہ ان داستانوں کو ہم نے مردے بخشوانے کے لئے خاص کردیا ہے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔
Top