Urwatul-Wusqaa - At-Tur : 48
وَ اصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَاِنَّكَ بِاَعْیُنِنَا وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِیْنَ تَقُوْمُۙ
وَاصْبِرْ : اور صبر کیجیے لِحُكْمِ رَبِّكَ : اپنے رب کے فیصلے کے لیے فَاِنَّكَ بِاَعْيُنِنَا : پس بیشک آپ ہماری نگاہوں میں ہیں وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ : اور تسبیح کیجیئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ حِيْنَ : جس وقت تَقُوْمُ : آپ کھڑے ہوتے ہیں
اور آپ ﷺ اپنے رب کے حکم کا انتظار کیجئے بہرحال آپ تو ہماری نظروں میں ہیں اور آپ ﷺ اپنے رب کی تسبیح اور اس کی حمد بیان کرتے رہیے جب آپ کھڑے ہوں
آپ ﷺ اے پیغمبر اسلام ! صبر کیجئے اور اپنے رب کی حمد اور تسبیح بیان کرتے رہئے 48 ؎ اب سورت کا اختتام ہونے کو ہے اور نبی اعظم ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ جس قوم کی طرف آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا ہے وہ قوم نہایت اکھڑ اور اجڈ ہے اور عقل و فکر اور سمجھو سوچ ان کے قریب سے بھی نہیں گزری اس لئے وہ آپ ﷺ کے خلاف ہر وقت طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں اور ان کی ہر دوسری چال پہلی چال سے خطرناک ہوتی چلی جا رہی ہے ان کا معاملہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور وہ جو کچھ کر رہے ہیں ہماری ہی دی گئی مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کر رہے ہیں اور وہ یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ وہ اس طرح کی حرکتوں سے نقصان کس کا کر رہے ہیں۔ ہم نے آپ ﷺ کو بھیجا ہے کہ آپ ﷺ ان تک ہمارا پیغام پہنچا دیں ‘ ہمارے علم میں ہے کہ کون ان میں سے سیدھی راہ چلے گا اور کون الٹی راہ پر چلتا جائے گا لیکن اگر کوئی اس ہدایت کو قبول کرتا ہے تو آپ ﷺ کا کچھ فائدہ نہیں کرتا اور اسی طرح اگر کوئی الٹی راہ چلتا ہے تو بھی آپ ﷺ کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ وہ لوگ جو جو تکلیف آپ ﷺ کو دے رہے ہیں وہ بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور جس طرح آپ ﷺ ان کے ان دکھوں کو برداشت کر رہے ہیں وہ بھی ہم سے کوئی پوشیدہ نہیں ہیں۔ آپ ﷺ کی مخالفت کا ہم نے ذمہ لیا ہے اور آپ ﷺ کو کامیاب کرنے کا ہم نے اعلان کردیا ہے اور یہ بات آپ ﷺ دیکھتے اور پڑھتے چلے جا رہے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ اپنے نبیوں اور رسولوں کو کامیاب و کامران کیا ہے۔ آپ ﷺ اپنا کام جاری رکھیں اور اپنے رب کی حمد و تسبیح کرتے رہیں جب بھی آپ ﷺ کھڑے ہوتے ہیں گویا تمہاری مجلسوں کی ابتدا بھی اسی سے ہے اور انتہا بھی اسی سے اور آپ ﷺ جہاں بھی جائیں اور جس حال میں بھی ہوں آپ ﷺ کی کوئی حالت بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے اور بلاشبہ آپ ﷺ کی حفاظت کے لئے ہمارے پاس بہت سے اسباب ہیں کیونکہ جتنے اسباب بھی ہیں اب سب کا سبب ہم خود ہیں اور پھر ہم سے بڑھ کر کون ہے جو کسی کو کوئی فزند پہنچا سکتا ہے۔ یہ بات ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ تسبیح و تہلیل اور حمد و تعریف کیا چیز ہے اور اس سے کیا مراد ہے اور بلاشبہ وظائف و اور راد بھی زبان سے پڑھے جاتے ہیں لیکن سب سے بڑا اور بہتر وظیفہ کیا ہے ؟ یہی کہ انسان کے فعل و عمل اور قول میں یکسانیت آجائے۔ زبان جو کچھ کہہ رہی ہو ہاتھ اس کو کر رہا ہو۔ لیکن ان اور راد و وظائف سے کیا حاصل جو زبان سے تو بصورت الفاظ جاری ہوں اور ہاتھ بالکل ان کے خلاف عمل کر رہے ہوں گویا حالت یہ ہو کہ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔ اور راد و اذکار اور وظائف کا پڑھنا اور ورد کرنا بالکل صحیح اور درست لیکن وہی بات جو قبل ازیں ہم نے اوپر ذکر کردی ہے کہ جب زبان اور عمل آپس میں مطالبات کر رہے ہوں اٹھنے بیٹھتے ‘ چلتے پھرتے ‘ مجلس میں اکٹھے ہوتے ‘ مجلس کو برخاست کرتے ‘ نماز کو جاتے اور نماز سے فارغ ہو کر اور بعد از فراغت سب مقامات کے الگ الگ اذکار کتب احادیث میں کثرت سے پائے جاتے ہیں اور ایک ایک رکن و حرکت کے لئے کئی کئی وظائف و اور راد بھی مذکور ہیں ان کو یاد کرنا اور ان کا پڑھنا لاریب باعث برکت ہے لیکن انہی لوگوں کے لئے جو قوبل و فعل میں یکسانیت رکھتے ہیں۔ زیر نظر آیت کے تحت ہمارے اکثر مفسرین نے ان اذکار میں سے بعض کا ذکر بھی کیا ہے لیکن چونکہ ان اذکار کی کتب عام پائی جاتی ہیں اس لئے ہم نے وظائف کو اس جگہ درج کرنے کی بجائے بار بار یہ تلقین کی ہے جس کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ہے۔
Top