Urwatul-Wusqaa - Ar-Rahmaan : 6
وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ
وَّالنَّجْمُ : اور تارے وَالشَّجَرُ : اور درخت يَسْجُدٰنِ : سجدہ کر رہے ہیں
اور نباتات و درخت بھی (اس کے) حکم کے مطیع ہیں
اور نباتات و درخت بھی اس کے حکم کے مطیع وفرمانبردار ہیں 6۔ سورج اور چاند دونوں کی فرمانبرداری اور اطاعت کے ذکر کے بعد اب دنیا میں اس زمین کے اندر جو کچھ پیدا ہوتا ہے خواہ نباتات وانگوری ہے اور خواہ فلک بوس درخت جو بعض اونچائی اور لمبائی میں بےمثل ہیں اور بعض موٹائی میں اور بعض اپنے پھیلائو میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے اور بعض ایسے بھی ہیں جو لمبائی ، چوڑائی ، موٹائی اور پھیلائو سب سے بےمثل اور لاثانی ہیں لیکن ساری چیزوں کے باوجود وہ فرمانبرداری میں اپنے اپنے فطری کاموں کو بغیر کسی حیل وحجت کے سرانجام دیئے چلے جا رہے ہیں جن کی فطرت میں قدرت نے پت جھڑ رکھا ہے وہ عین وقت پر آکر پتوں کو چھوڑدیتے ہیں اور جو موسم ان کے پھولنے اور پھوٹنے کے لیے مقرر ہے اس پر پھول اور پھوٹ رہے وہ سورج کی نہایت سخت گرمی کو برداشت کرکے سایہ دینے کے پابند ہیں تو کبھی کسی درخت کو اگر وہ کسی عارضہ کا شکار نہیں ہوگیا تو کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اس نے سایہ دینے سے انکار کیا ہو کہ میں اتنی گرمی کو برداشت کرکے سایہ نہیں دے سکتا۔ اس زمین کی نباتات میں سے کسی بوٹی ، کسی جنس ، کسی خود روپودا پر انسان نے ہاتھ ڈالا ہو اور اس نے انسان کے ہاتھ کو روک دیا ہو کہ میری طرف ہاتھ مت بڑھائو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جو کام جس چیز سے انسان لینا چاہتا ہے اس چیز نے انکار کیا ہے ؟ یہی وہ الہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا مطلب ہے۔ انسان نے طلب کا سارا کاروبار انہی بوٹیوں پر رکھا اور وہ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے وہ دینے کے لیے ہر وقت اور ہر آن تیار ہیں۔ (اَلنّجُم) کے لفظ سے بعض مفسرین نے ستارے مراد لیے ہیں (اَلنّجُم) کو اسم جنس قرار دیا ہے اور بلاشبہ (اَلنّجُم) کے معنی ستارہ کے ہید لیکن بیل دار گھاس اور زمین کی ساری روئیدگی پر بھی (اَلنّجُم) کا لفظ بولا جاتا ہے اور خاص ستاروں کا ایک جھنڈ جس کو ثریا بھی کہا جاتا ہے اسے بھی (اَلنّجُم) کے نام سے یاد کرتے ہیں اور وقت کے ایک حصہ اور ایک ٹکڑا کو بھی (اَلنّجُم) کہتے ہیں اور اصل وبنیاد کو بھی یہ نام دیا گیا ہے۔ ہم نے اس جگہ محض درختوں کے مقابلہ کے لیے اس کو نباتات کے لیے ہونا بیان کیا ہے اگر اس کا مقابلہ چاند اور سورج سے ہوتا تو یقیناً اس کے معنی ستارہ ہی ضروری تھے لیکن جب یہ لفظ اس جگہ شجر کے مقابلہ میں آیا ہے تو اس لیے اس کے معنی نباتات ہم نے کردیئے ہیں تاہم اگر کوئی درختوں کو مقابلہ میں اس سے مراد ستارے ہی لینا چاہیے تو وہ مفسرین نے لیے ہیں اس لیے کسی کے لیے کوئی پابندی نہیں ہے اور یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ہر ایک چیز اللہ کے لیے فرمانبردار ہے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے وہ ستارے ہوں یا نباتات الارض ہوں وہی سب کا خالق ومالک ہے اور اسی کے حکم سے سب ظاہر ہوتے اور معدوم ہوتے ہیں اور اسی کے حکم کے پابند ہیں اس لیے دونوں معنی ومفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح اور درست کہے جاسکتے ہیں اگر کوئی اس جگہ بھی نبات الارض کی بجائے ستارے ہی معنی کرتا ہے تو بلاشبہ وہ ایسا کہنے ہیں آزاد ہے اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہے اور ہم نے سورة الحج کی آیت 18 میں اور بعض دوسرے مقامات پر (اَلنّجُم) سے مراد ستارے ہی لیے ہیں لیکن شجر کے معنی تناور درخت کے ہیں اور (اَلنّجُم) کے معنی بیل بوٹی کے بھی کیے گئے ہیں۔
Top