Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 120
وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ
وَذَرُوْا : چھوڑ دو ظَاهِرَ الْاِثْمِ : کھلا گناہ وَبَاطِنَهٗ : اور اس کا چھپا ہوا اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے) ہیں الْاِثْمَ : گناہ سَيُجْزَوْنَ : عنقریب سزا پائیں گے بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : تھے يَقْتَرِفُوْنَ : وہ برے کام کرتے
اور ظاہری گناہ ہو یا چھپا گناہ ہو ، ہر حال میں گناہ کی باتیں ترک کر دو جو لوگ گناہ کماتے ہیں وہ (انسانوں کی نگاہ سے اگرچہ چھپ جائیں لیکن) جو کچھ کرتے رہتے ہیں ضرور اس کا بدلہ پائیں گے
گناہ کی باتوں کو ترک کردو خواہ گناہ چھپا ہوا ہو یا ظاہر ہو : 184: گناہ گناہ ہی ہے خواہ اس سے دوسرے لوگ واقف ہوں یا نہ ہوں۔ گناہ کرنے والوں کے لئے اس کی مضرت یکساں ہے لیکن یہ مضرت اخروی ہے اگر کسی سے کوئی گناہ ہوا لیکن وہ اتنا پوشیدہ تھا کہ کرنے والے کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا پھر اس گناہ کرنے والے نے جس کا گناہ کیا اس سے معاف کرالیا اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی تویقیناً وہ دنیوی اور اخروی دونوں برائیوں سے بچ گیا۔ اسی طرح یہاں ہر قسم کے گناہوں سے باز آنے کا حکم دیا گیا خواہ ان کا تعلق اعضائے جسمانی سے ہو یا دل کے ارادوں سے خواہ ان کا ارتکاب مجمع عام میں کیا جائے گا یا لوگوں سے چھپ چھپا کر کیونکہ گناہ دراصل اپنی ذات یا سوسائٹی کے حقوق کو پامال کرنے کا نام ہے اور اسلام کسی صورت میں بھی نہ اس کی اجازت دے سکتا ہے اور نہ ہی اسے برادشت کرسکتا ہے۔ ایک پاک معاشرہ تب ہی معرض وجود میں آسکتا ہے جب اس کے افراد کے ظاہری اعضاء بھی کسی پر زیادتی نہ کریں اور ان کے دل بھی برے خیالات سے پاک ہوں ان کی جلوت اور خلوت دونوں یکساں اور ظاہر و باطن دونوں پاک ہوں۔ پیچھے سے بات شرک اور توحید کی جاری تھی اس سلسلہ میں حلال و حرام کی بحث کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام یا حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دینا بھی توحید سے انکار اور شرک کے قبول کرنے کے مترادف ہے اب بتایا جا رہا ہے کہ شرک کی ایک تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی ذات یا صفات یا اس کے حقوق میں کسی کو شریک ماننا دوسرے اس کے مظاہرہ واشکال ہیں مثلاً اصنام ، انصاب ، لازم ، بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ حام اور غیر اللہ کے نام کا جانور اور اسی قبیل کی دوسری ساری چیزیں جو کسی شرکیہ عقیدے یا تصور کا عملی مظہر اور نشان ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کا بڑا گہرا ربط اور واسطہ ہوتا ہے یہ ایک دوسرے کے سہارے پروان چڑھتی اور غذا و قوت حاصل کرتی ہیں۔ اسی لئے کسی برائی کا استیصال اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کی حقیقت اور اس کے مظاہرواشکال دونوں کا استیصال نہ کیا جائے۔ مختصر یہ کہ اس آیت نے یہ بات واضح کردی کہ جس طرح شرک کو چھوڑنا ضروری ہے اسی طرح شرکیہ عقائد و تصورات کی بنا پر جن چیزوں کو مقدس مان کر حرام ٹھہرایا گیا ان کا تقدس اور ان کی حرمت کو بھی ختم کرنا ضروری ہے اور عام جانوروں کی طرح ان کو بھی اللہ کے نام پر ذبح کرو اور پھر بےجھجھک ان کو کھاؤ یعنی شرک کو جڑوں تک اکھاڑ کر پھینک دو تاکہ کہیں ایسی بات دل میں نہ پھوٹ جائے کہ یہ بکرا فلاں بزرگ کے نام کا کیا تھا لیکن اس کو اللہ کے نام پر دے دیا گیا اور اب معلوم نہیں کہ وہ سرکار کیا کریں گے اگر یہ بات دل میں رہی تو سمجھو کہ ابھی شرک نہیں مرا اور اس کی جڑیں ہری ہیں۔ ابھی آپ کو سب کچھ اللہ سے ہونے کا یقین نہیں آیا۔ ایسے گناہوں کا جو بدلہ آخرت میں ملے گا وہ تو ملے گا لیکن اس دنیا میں بھی اس کا بدلہ ظاہر ہو سکتا ہے کہ اس شرک کی بیماری میں پھر ملوث ہونے کا امکان باقی ہے جب یہ امکان ختم ہوا تو سمجھ لو کہ اب انشاء اللہ ایسی بیماری لاحق نہیں ہوگی۔
Top