Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 31
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا١ۙ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ
قَدْ : تحقیق خَسِرَ : گھاٹے میں پڑے الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا : وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا بِلِقَآءِ : ملنا اللّٰهِ : اللہ حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَتْهُمُ : آپ پہنچی ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک قَالُوْا : وہ کہنے لگے يٰحَسْرَتَنَا : ہائے ہم پر افسوس عَلٰي : پر مَا فَرَّطْنَا : جو ہم نے کو تا ہی کی فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ يَحْمِلُوْنَ : اٹھائے ہوں گے اَوْزَارَهُمْ : اپنے بوجھ عَلٰي : پر ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ (جمع) اَلَا : آگاہ رہو سَآءَ : برا مَا يَزِرُوْنَ : جو وہ اٹھائیں گے
یقینا وہ لوگ نقصان و تباہی میں پڑے جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا یہانتک کہ جب گھڑی اچانک ان پر آجائے گی تو اس وقت کہیں گے افسوس اس پر جو کچھ ہم سے اس بارے میں تقصیر ہوئی وہ اس وقت اپنے گناہوں کا بوجھ پیٹھوں پر اٹھائے ہوں گے سو دیکھو کیا ہی برا بوجھ ہوا جو یہ لاد رہے ہیں
اللہ کی ملاقات کو جھٹلانے والے اس تباہی میں جاگرے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں : 47: غفلت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور فرض شناسی کی عادت انسان کو اس غفلت سے جلد نکال لیتی ہے لیکن ایک نافرض شناس کبھی حالت غفلت سے نہیں نکل سکتا۔ مثلاً ایک نافرض شناس طالب علم جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ اس کا امتحان نہیں لیا جائے گا اور اپنا سارا تعلیمی سال کھیل کود اور عیش و عشرت کی نذر کر دے پھر اچانک جب اسے بتایا جائے کہ میاں صاجزادے ! کل آپ کا امتحان ہے تیار ہوجاؤ تو یہ خبر اس کے خرمن ہوش پر بجلی بن کر کو ندے گی اور سال بھر کی غفلتوں پر اپنے آپ کو کو سنے لگے گا بس اس سے آپ اندازہ کرلیجئے اس سراسیمگی اور پریشانی کا جس سے ایسا شخص دو چار ہوگا جو یہ سمجھتے ہوئے ساری عمر یہ یقین رکھے کہ قیامت کا دن آئے گا ہی نہیں اور پھر اسے اچانک پکڑ کر اپنے گذشتہ اعمال کی حساب دہی کے لئے بارگاہ رب ذوالجلال میں کھڑا کردیا جائے۔ ” اللہ کی ملاقات کو جھٹلانے “ کا مطلب بھی سمجھ میں آگیا کہ آخرت ہی کو جھٹلانا ہے۔ کیا ہی برا بوجھ ہے جو وہ اپنی پیٹھوں پر لادے ہوئے ہوں گے : 48: وہ عادی مجرم جو جرم کرتے کبھی پکڑا نہ گیا ہو بلکہ کسی کو معلوم تک نہ ہو کہ یہ شخص بھی کسی غیر قانونی فعل کا مجرم ہے اور پھر اچانک وہ پکڑ لیا جائے اور ہتھکڑی لگا کر اس کو پھرایا جائے تو اس وقت جو اس کی حالت ہوگی اس پر ذرا غور کرو کہ وہ کس بوجھ کے نیچے دب کر رہ جائے گا اور وہ شرمندگی اور ندامت کے بحر زخار میں کس طرح ڈوب جائے گا۔ بس یہی مطلب اس بوجھ سے ہے جوان لوگوں کی پیٹھ پر لادا ہوگا جو اس دن کی ملاقات سے بالکل انکاری تھے اور ان کو اس بات کا کبھی یقین نہیں تھا کہ اس دنیا کے اعمال کی ہم سے کسی اور جگہ بھی باز پرس ہوگی۔ پھر جب وہ اس دن حاضر کر لئے جائیں گے اور ان کے سارے اعمال کی فلم ان کو دکھائی جائے گی اور وہ ان حرکتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو یقیناً احساس گناہ اور ندامت ان پر مسلط ہوگی اور فرط ندامت سے ان کی یہ حالت ہوگی جیسے کوئی بھاری بھر کم بوجھ ان کی پیٹھوں پر لاد دیا گیا ہو اور وہ اس کی نگرانی کے نیچے دبے چلے جا رہے ہوں۔ مر تو وہ بھی رہے ہوں گے اور جان یوں تو ان کی بھی نکلے گی جو صرف اپنے ہی بوجھوں میں دبے ہوئے ہوں گے لیکن ان کی حالت تو کیا ہی بےبسی کی حالت ہوگی جن کو اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کے بوجھ اٹھانے کا بھی سامنا ہوگا ۔ جن کا ذکر آگے اس سورت میں آنے والا ہے۔ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” خوب سن لو میں ایسی حالت میں تم کو نہ پاؤں کہ تم میں سے بعض لوگ بلبلاتے اونٹ کو اپنی گردن پر اٹھائے میرے سامنے آئیں اور کہیں یا رسول اللہ ﷺ دہائی ہے اور میں جواب دوں کہ آج اللہ کے سامنے میرا کچھ قابو نہیں میں تجھے دنیا میں پیغام پہنچا چکا۔ “ اس طرح بعض احادیث میں ہنہناتے گھوڑے اور منمناتی بکری اور سونے اور چاندی کے ڈھیروں کا ذکر بھی موجود ہے یہ سب وہی حقیقتیں ہیں جن کا ذکر اوپر بیان کردیا گیا اور نبی اعظم و آخر ﷺ کے ارشادات انہی آیات قرآن کریم کی تفسیر ہیں۔
Top