Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 31
قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰى مَا فَرَّطْنَا فِیْهَا١ۙ وَ هُمْ یَحْمِلُوْنَ اَوْزَارَهُمْ عَلٰى ظُهُوْرِهِمْ١ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ
قَدْ : تحقیق خَسِرَ : گھاٹے میں پڑے الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا : وہ لوگ جنہوں نے جھٹلایا بِلِقَآءِ : ملنا اللّٰهِ : اللہ حَتّٰى : یہانتک کہ اِذَا : جب جَآءَتْهُمُ : آپ پہنچی ان پر السَّاعَةُ : قیامت بَغْتَةً : اچانک قَالُوْا : وہ کہنے لگے يٰحَسْرَتَنَا : ہائے ہم پر افسوس عَلٰي : پر مَا فَرَّطْنَا : جو ہم نے کو تا ہی کی فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ يَحْمِلُوْنَ : اٹھائے ہوں گے اَوْزَارَهُمْ : اپنے بوجھ عَلٰي : پر ظُهُوْرِهِمْ : اپنی پیٹھ (جمع) اَلَا : آگاہ رہو سَآءَ : برا مَا يَزِرُوْنَ : جو وہ اٹھائیں گے
یقیناً وہ لوگ گھاٹے میں آگئے جنہوں نے اللہ سے ملنے کو جھٹلایا، یہاں تک کہ جب وہ (مقرر) گھڑی ان پر یک بیک آپہنچے گی،48 ۔ تو بول اٹھیں گے، ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو ہم اس کے بارے میں کرتے تھے،49 ۔ اس حال میں کہ وہ اپنے گناہ اپنی پشتوں پر لادے ہوں گے،50 ۔ دیکھو تو (کیا ہی) برا (بوجھ) ہے جس کو یہ لادے (لادے پھر رہے) ہوں گے
48 ۔ (آیت) ” سے مراد قیامت ہونا بالکل ظاہر ہے۔ سمیت القیامۃ ساعۃ لسرعۃ الحساب فیھا (قرطبی) المراد بالساعۃ القیامۃ (کبیر) لیکن موت بھی مقدمات قیامت میں سے ہے۔ بلکہ من وجہ اس میں شامل۔ اس لیے وہ بھی مراد ہوسکتی ہے۔ لما کان الموت وقوعا فی احوال الاخرۃ ومقدما تھا جعل من جنس الساعۃ وسمی باسمھا (کشاف) فسربعضھم ھنا بوقت الموت (روح) (آیت) ” بلقآء اللہ “۔ لقاء اللہ سے مراد ہے بعث بعد الموت اور جزاء اعمال۔ قیل بالبعث بعد الموت وبالجزاء (قرطبی) حتی کا تعلق تکذیب سے ہے۔ خسران سے نہیں۔ حتی غایۃ لکذبو الا لخسرلان خسرانھم لاغایۃ لہ (کشاف) 49 ۔ اس کے لیے ہم نے کوئی تیاری نہ کی۔ یا یہ کہ دنیوی زندگی میں ہم نے ادائے فرائض میں غفلت برتی، (آیت) ” فرطنا فیھا “۔ ضمیر قیامت یا (آیت) ” الساعۃ “ کی طرف ہے۔ (آیت) ” الحیوۃ الدنیا “۔ کی بابت بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ ای فی الساعۃ ای فی التقدمۃ لھا عن الحسن (قرطبی) الضمیر للحیوۃ الدنیا (کشاف) (آیت) ” یحسرتنا “۔ ترکیب یہاں ندا منادی کی نہیں۔ بلکہ یہ اسلوب شدت تحسرکے اظہار کا ہے۔ وضع النداء علی الحسرۃ ولیست بمنادی فی الحقیقۃ ولکنہ یدل علی کثرۃ التحسر (قرطبی) والعرب تعبر عن تعظیم امثال ھذہ الامور بھذہ اللفظۃ (کبیر) 50 ۔ (آیت) ” یحملون اوزارھم علی ظھورھم “۔ یہاں اوزار کے معنی ذنوب سب کو مسلم ہیں۔ ای ذنوبھم (قرطبی) اثامھم وذنوبھم (ابن جریر) قال ابن عباس ؓ الاثام والخطایا (کبیر) وزر جو اوزار کا واحد ہے۔ اس کے معنی ثقل وحمل کے بھی لئے گئے ہیں۔ لیکن امام ابن جریر نے جو عربیت کے بھی امام ہیں اس پر سخت جرح کی ہے۔ اور وزر کے معنی گناہ ہی رکھے ہیں۔ قدزعم بعضھم ان الوزر الثقل والحمل ولست اعرف ذلک کذلک فی شاھد ولا من روایۃ ثقۃ عن العرب سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ گناہ تو ایک غیر مادی شی ہے، گناہ پیٹھ پر کیسے لدیں گے ! جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہاں مجاز اور محض محاورہ زبان مراد ہے۔ مجاز وتوسع و تشبیہ بمن یحمل ثقلا (قرطبی) والمعنی انھم لزمتھم الاثام فصاروامثقلین بھا (قرطبی) لیکن خود یہ ماننے میں کیا عقلی یا شرعی دشواری ہے کہ آخرت میں مجردات بھی مادیات ہی کی طرح باوزن ہوں گے اور اعمال بھی وزن رکھیں گے، یا اعمال بہ شکل اجسام متمثل ہوجائیں گے، اکابر اہل سنت میں سے متعدد حضرات عقیدہ تجسیم اعمال کے قائل ہوئے ہیں۔ غرض یہ کہ جب حقیقی معنی لینے ممکن ہیں تو یہاں بھی انہیں مجاز کے لئے ترک نہ کیا جائے گا۔ لامانع من الحمل علی الحقیقۃ واجراء الکلام علی ظاھر وہ قدقال کثیر من اھل السنۃ بتجسیم الاعمال فی تلک الدار وھو الذی یقتضیہ ظاہر الوزن (روح) والظاھر ان ھذالحمل حقیقۃ وھو قول عمیر بن ھانی وعمرو بن قیس العلائی والسدی واختارہ الطبری (بحر)
Top