Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 11
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ١ۖۗ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں پیدا کیا ثُمَّ : پھر صَوَّرْنٰكُمْ : ہم نے تمہاری شکل و صورت بنائی ثُمَّ قُلْنَا : پھر ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْٓا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس لَمْ يَكُنْ : وہ نہ تھا مِّنَ : سے السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے ؁
اور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری شکل و صورت بنا دی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم (کی خلافت کو قبول کرتے ہوئے) سجدہ کرو ، وہ سب سجدہ ریز ہوگئے مگر ابلیس نے سجدہ نہ کیا
آدم (علیہ السلام) کے خلیفہ بنائے جانے کی خوشی میں سجدہ شکر ادا کرنے کا حکم : 11: اس بات کی وضاحت ہم پہلے کرچکے ہیں کہ تخلیق اول میں بہت سے مرد اور عورتیں اللہ نے پیدا کئے جن میں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو خلافت ارضی سونپی گئی اور اس تخلیق اول کے بعد انسانی پیدائش کا ایک ضابطہ مقرر کردیا گیا جو قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ زیر نظر آیت ہی سے ہم نے یہ سمجھا کہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے کہ ” وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ “ بلاشبہ ہم نے تم کو پیدا کیا یعنی پیدائش اول کے انسانوں کو خواہ ان کی تعداد کتنی تھی اور وہ کہاں کہاں پیدا ہوئے تھے۔ خواہ ان کے اجسام ایک بار بنائے گئے یا کئی منازل سے گزرتے ہوئے انسان بنے بہرحال انسان کا اطلاق ان پر اسی وقت ہی ہوا جب ان کو موجودہ انسانوں کی شکل میں لایا گیا پھر فرشتوں کا حکم دیا گیا اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے مقابل کی مخلوق جنوں کو بھی کہ وہ سب مل کر آدم (علیہ السلام) کے خلیفہ بنائے جانے کی خوشی میں اللہ کے سامنے سجدہ شکر بجالائو۔ وہ فوراً سجدہ شکر بجا لائیں لیکن ابلیس سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا تب ہی وہ ابلیس ٹھہرا۔ اس بات کو ہم بڑی تفصیل سے عرض کرچکے ہیں ” فرشتے “ ان ملکوتی طاقتوں اور قوتوں کا نام ہے جو ہر حال میں فرمانبردار اور سرکش نہیں اور ان کے مقابلہ میں ” جن “ ان طاقتوں اور قوتوں کا نام رکھا گیا ہے سرکش اور نافرمان ہیں اور انہی کو قوائے بہمیہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ انسان ان دونوں طاقتوں اور قوتوں کے مجموعہ کا نام ہے جس میں فرمانبرداری کے عناصر بھی موجود ہیں اور نافرمانی کے عناصر بھی۔ اس قادر مطلق نے ان کا اس طرح بیان کیا کہ ہر ایک انسان سے وہ جاہل ہے یا عالم اس کی سمجھ میں یہ بات آسکے اور عام انسانوں کو سمجھانے کا یہی وہ ایک قاعدہ ہے جس سے بات اچھی طرح ذہن نشین ہو سکتی ہے۔ ہم نے اس کی پوری تفصیل عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة البقرہ کی آیت 38 کے تحت کردی ہے وہاں سے ملاحظہ فرما لیں۔
Top