Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 23
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
قَالَا : ان دونوں نے کہا رَبَّنَا : اے ہمارے رب ظَلَمْنَآ : ہم نے ظلم کیا اَنْفُسَنَا : اپنے اوپر وَاِنْ : اور اگر لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا : نہ بخشا تونے ہمیں وَتَرْحَمْنَا : اور ہم پر رحم (نہ) کیا لَنَكُوْنَنَّ : ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے
وہ دونوں بولے : اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اب اگر آپ نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا نامرادوں میں سے ہوجائیں گے۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا سکتہ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔ (الاعراف : 23) ” وہ دونوں بولے : اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اب اگر آپ نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا نامرادوں میں سے ہوجائیں گے “۔ یعنی جیسے ہی انھیں تنبہ ہوا اور پروردگار نے انھیں ان کی غلطی پر ٹوکتے ہوئے پکارا تو بےساختہ ان پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو گناہ کے شدید احساس کے بعد طاری ہوتی ہے اور فوراً انھوں نے اپنے رب کے دروازے پر دستک دی اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے انھوں نے سب سے پہلے نجانے کتنی گریہ وزاری کے بعد اپنے رب سے وہ کلمات سیکھے جن سے وہ اپنے رب کو پکار سکیں اور پھر انھوں نے اپنے رب کو پکارتے ہوئے کہا کہ اے ہمارے رب ! ہم کوئی عذر پیش نہیں کرتے کہ ہم سے یہ گناہ کیوں سرزد ہوا ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے یہ حرکت کر کے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ اپنے نفسوں کو تباہ کیا اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا ہے۔ کیونکہ ہماری جانیں آپ کی عطیہ ہیں ‘ ہمارا جسم آپ کی دین ہے ‘ ہمارے احساسات آپ کی عطا کردہ نعمت ہیں ‘ ہماری قوتیں سراسر آپ کی بخشش ہیں ‘ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب آپ کا ہے اس لحاظ سے ان سب کا آپ کے سامنے جھکنا آپ کا حق ہے ہم نے اس حق کو کسی دوسرے کے حوالے کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب ہم اپنے اس گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے آپ ہی سے دست بستہ پوری عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہمارے اس گناہ کو معاف فرما دیں ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔ جس نے دیا ہے درد وہی چارہ گر بھی ہے کہنی ہے چارہ گر سے ہی خود چارہ گر کی بات ہمارے اس درد کی چارہ گری صرف آپ کے ہاتھ میں ہے اس لیے ہم آپ ہی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور آپ ہی کے آستانے پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس آستانے کے سوا ہمارا کوئی آستانہ نہیں اور اس خزانے کے سوا کوئی اور خزانہ نہیں جہاں سے یہ قیمتی سوغات ملتی ہو اس لیے آپ ہم پر رحم فرمائیں اور ہمارے گناہ کو معاف فرما دیں کیونکہ ہماری معافی کا تعلق سراسر آپ کے رحم و کرم سے ہے۔ گناہ گار کا گناہ صرف رحم و کرم کے پانی ہی سے دھل سکتا ہے اس کے علاوہ دنیا کے سمندر بھی اس گندگی کو ختم نہیں کرسکتے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ( رح) کے حالات میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ اللہ کے گھر کا طواف کر رہے تھے کہ انھوں نے عالم غیب سے ایک آواز سنی کہ کسی شخص کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ ہمارے گھر سے نکل جاؤ تمہارا یہاں آنا ہمیں منظور نہیں۔ شیخ نے اس نام کے آدمی کو تلاش کرنا شروع کیا حتیٰ کہ وہ انھیں مل گئے پوچھا کہ یہ آواز جو میں سن رہا ہوں آپ کو بھی سنائی دیتی ہے یا نہیں ؟ کہنے لگے میں بھی سنتا ہوں پوچھا پھر آپ یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے انھوں نے نہایت تعجب سے شیخ کی طرف دیکھا اور کہا بھلے آدمی آپ ہی مجھے بتائیں میں کہاں جاؤں ؟ کیا اس دروازے کے علاوہ کوئی اور دروازہ ہے جہاں جا کر دستک دوں یا اس آستانے کے علاوہ کوئی اور آستانہ ہے جہاں جا کر سر جھکائوں جب اس چوکھٹ کے سوا کوئی اور چوکھٹ نہیں تو میں تو جب تک معافی نہیں مل جاتی یہیں جبہ سائی کرتا رہوں گا اور یہیں اپنا سر پٹختا رہوں گا۔ اس لیے حضرت آدم اور حضرت حوا بھی یہ فرما رہے ہیں کہ تیرے سوا اور آستانہ کوئی نہیں کہ جہاں ہم جا کر معافی کے طلبگار ہوں اس لیے تو نے اگر ہمیں معاف نہ فرمایا تو پھر ہماری نامرادی اور تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جائے گی اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ گناہ ابلیس سے بھی ہوا لیکن اس نے بجائے عجز و اعتراف کے انکار و بغاوت کا راستہ اختیار کیا اور ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ ہوگیا اور گناہ حضرت آدم اور حضرت حوا سے بھی ہوا لیکن وہ فوراً اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ گناہ فرشتوں اور اللہ کے پیغمبروں کے سوا ہر مخلوق سے ہوسکتا ہے کیونکہ ؎ چلے بچ کر کوئی کتنا وہ ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے کوئی چال لڑکھڑاہٹ سے پاک نہیں ہوتی ‘ کوئی عمل معصیت کی جراہتوں سے محفوظ نہیں ہوتا ‘ کوئی خیال آوارہ خیالی سے بچا ہوا نہیں ہوتا۔ یہاں قدم قدم پر محرکات شر اور آلودگیوں کے بھنور موجود ہیں جن سے ہر وقت محفوظ رہنا اولاد آدم کے لیے آسان نہیں کسی بھی وقت گناہ کا ظہور ہوجانا بالکل ممکن ہے اس لیے حضرت آدم کا رویہ ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے کہ تم گناہوں سے معصوم پیدا نہیں کیے گئے ہو تمہارا کام یہ ہے کہ کبھی اپنے اندر انکار کی جرأت نہ پیدا ہونے دینا یہ ابلیس کا رویہ ہے تم سے اگر غلطی ہوجائے اور کبھی معصیت کے راستے پر پڑجاؤ تو تنبہ ہوجانے کے بعد فوراً توبہ کا راستہ اختیار کرنا یہی ابلیس اور آدم کے رویے میں فرق ہے اور اللہ کریم کا یہ وعدہ ہے کہ کسی کے گناہ اگر زمین و آسمان کے درمیانی حصے کو بھر بھی دیں لیکن وہ جب بھی اخلاص اور عاجزی کے ساتھ ہم سے معافی مانگے گا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا یقین دلا دے گا تو ہم اسے معاف کردیں گے بلکہ اس کا کرم اس حد تک بےپایاں ہے کہ وہ صرف گناہوں کو معاف ہی نہیں کرتا ‘ بلکہ گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ سورة الفرقان میں اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو آدمی توبہ کرتا ہے اور پھر نیک عمل کا راستہ اختیار کرلیتا ہے : فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہ ُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنَاتٍ ط (الفرقان : 70) (تو اللہ ان لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کردیتا ہے) بلکہ بعض دفعہ تو یہ رحمت ایسے جھوم کر برستی ہے کہ گناہ صرف نیکی ہی میں تبدیل نہیں ہوتا بلکہ معافی اور توبہ کی صورت میں ڈھیروں نیکیوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ایک صحابی کا واقعہ ہے کہ ایک دن نیند نہ کھلنے کے باعث ان کی تہجد چھوٹ گئی جب آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہوچکی تھی۔ فجر کی نماز پڑھی لیکن دل غم سے نڈھال ہو رہا تھا اور بار بار آنکھوں میں آنسو آرہے تھے کہ ہائے مجھ سے تہجد کیوں چھوٹ گئی۔ پورا دن اللہ سے معافی مانگتے گزرا کہ میں یہ غفلت کی نیند کیوں سویا جس کی وجہ سے میری تہجد رہ گئی چناچہ دوسرے روز رات کو سوتے ہوئے جب تہجد کا وقت ہوا تو دیکھا کہ انھیں کوئی جگا رہا ہے انھیں حیرت ہوئی کہ میری خواب گاہ میں کون آگیا پوچھا کہ تم کون ہو ؟ وہ بولا میں شیطان ہوں۔ پوچھا : تم کیوں آئے ہو ؟ کہا میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں تہجد کے لیے اٹھا دوں۔ انھوں نے حیران ہو کر کہا کہ شیطان تو لوگوں کو تہجد کے وقت سلاتا ہے تاکہ وہ تہجد نہ پڑھ سکیں تم کیسے شیطان ہو جو مجھے تہجد کے لیے اٹھا رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ کل تمہاری تہجد چھوٹ گئی اور تم نے دن بھر رو رو کر برسوں کی تہجدیں اپنے نام لکھوا لیں۔ میں آج اس لیے آیا ہوں کہ اٹھو تہجد پڑھو اور ایک ہی تہجد کا ثواب پائو۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آج پھر اگر تمہاری تہجد چھوٹ جائے تو تم برسوں کی تہجدیں پھر اپنے نام لکھوا لو۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہجد پڑھنے سے تو ایک تہجد کا ثواب ملتا ہے لیکن معافی اور توبہ کی صورت میں نجانے کتنی تہجدوں کا ثواب مل جاتا ہے۔ جس اللہ کی کرم نوازیوں کا یہ عالم ہے اسے پکارنے والا کیسے محروم رہ سکتا ہے۔ چناچہ حضرت آدم اور حضرت حوا نے جب اپنی اس غلطی پر پروردگار کو مغفرت و توبہ کے لیے پکارا اور پھر بار بار عاجزی سے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ یا اللہ تیرے سوا کوئی دروازہ نہیں جہاں ہم جائیں ‘ تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کھایا تو ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ سورة البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے پھر ان کی توبہ قبول فرما لی اور گناہ کا یہ داغ جو ان کے دامن پر لگ گیا تھا اسے دھو ڈالا اور قیامت تک کے لیے ان کے اس حسن عمل کے طفیل یہ اصول ٹھہرا : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا) اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت حوا جب دنیا میں تشریف لائے ہیں تو وہ اللہ سے گناہ کی مغفرت کی سند لے کر آئے ہیں یعنی ان کا دامن ان چھینٹوں سے بالکل پاک ہوچکا تھا وہ زمین پر اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ وہ گناہ گار ہونے کے بعد جنت میں رہ نہیں سکتے تھے بلکہ ان کا زمین پر بھیجا جانا گناہوں کی معافی کے بعد تھا اور وہ اس لیے تھا کہ انھیں ان کی پیدائش سے بھی پہلے زمین پر اللہ اپنا خلیفہ بنا چکا تھا۔ پہلے پارے میں اللہ نے اس واقعے کو بیان کرنے سے پہلے فرمایا ہے کہ ہم نے فرشتوں کو یہ بات بتائی تھی کہ ہم زمین پر آدم کو اپنا خلیفہ بنا رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے اور جنت میں انھیں بھیجنے سے پہلے اور اس واقعے کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے یہ بات طے ہوچکی تھی کہ حضرت آدم زمین پر اللہ کے نائب اور خلیفہ ہوں گے اور وہ زمین پر اللہ کی طرف سے اللہ کے احکام کی تنفیذ کریں گے تو اس حقیقت کے باوجود یہ سمجھنا کہ حضرت آدم اور حضرت حوا اپنے گناہ کی سزا کے طور پر دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ یہ سراسر قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں کی صراحتوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح یہ بات کہنا کہ وہ جب زمین پر آئے تو وہ گناہ گار تھے یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم واضح طور پر یہ بات بیان کرچکا ہے کہ ان کے زمین پر آنے سے پہلے اللہ ان کی توبہ قبول فرما چکا تھا اس کے باوجود عیسائیوں کا اس مغالطے میں مبتلا ہونا کہ انسان بھی شیطان کی طرح اس دنیا میں لعنتی ہو کر اترا ہے ‘ ایک بہت بڑی گمراہی ہے جس میں آج تک عیسائی دنیا مبتلا ہے اور پھر اس غلط عقیدے کو اختیار کرنے کے نتیجے میں عیسائیوں نے جس طرح گمراہیوں کے ردے پر ردے چڑھائے ہیں اور جس طرح کج رویوں کا راستہ اختیار کیا ہے وہ بجائے خود ایک داستان ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت آدم اور حضرت حوا ایک گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے گناہ گار ہوگئے تھے اور وہ اسی حالت میں دنیا میں اتارے گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جتنی ان کی اولاد پیدا ہوئی وہ ان کے گناہ کی وجہ سے گناہ گار ٹھہری۔ ذرا اس عقیدے کی غیر معقولیت پر توجہ فرمایئے کہ فرض کریں حضرت آدم و حوا اگر گناہ گار بھی ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کی اولاد کیسے گناہ گار ٹھہرے گی کیا باپ کا گناہ اور اس کی غلطیاں اولاد کو گناہ گار بنا دیتی ہیں ؟ کیا عیسائی دنیا کے قانون میں واقعی ایسا ہے کہ اگر باپ جرم کرے تو اس کی پاداش میں اس کی اولاد کو پکڑ لو ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے قانون میں اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں اور اسلام تو صاف صاف اس کی تردید کرتا ہے اور پھر اس پر بھی مزیدجہالت یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہر انسان پیدائشی طور پر گناہگار ہے تو اب اس کے گناہوں سے نجات حاصل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا غیر انسانی بیٹا دنیا میں آکر انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنے۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو (جو عیسائیوں کے بقول اللہ کا بیٹا ہیں) دنیا میں بھیجا گیا اور وہ صلیب پر چڑھ کر انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنے اور اس طرح انسان اپنے گناہوں سے پاک ہوسکا۔ لیکن قرآن یہاں صاف بتارہا ہے کہ حضرت آدم و حوا نے اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگی اور توبہ کی تو اللہ نے یہ توبہ قبول فرمائی اور اس کے بعد انھیں دنیا میں اترنے کا حکم دیا
Top