Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 23
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
قَالَا
: ان دونوں نے کہا
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
ظَلَمْنَآ
: ہم نے ظلم کیا
اَنْفُسَنَا
: اپنے اوپر
وَاِنْ
: اور اگر
لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا
: نہ بخشا تونے ہمیں
وَتَرْحَمْنَا
: اور ہم پر رحم (نہ) کیا
لَنَكُوْنَنَّ
: ہم ضرور ہوجائیں گے
مِنَ
: سے
الْخٰسِرِيْنَ
: خسارہ پانے والے
وہ دونوں بولے : اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اب اگر آپ نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا نامرادوں میں سے ہوجائیں گے۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا سکتہ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ۔ (الاعراف : 23) ” وہ دونوں بولے : اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اب اگر آپ نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا نامرادوں میں سے ہوجائیں گے “۔ یعنی جیسے ہی انھیں تنبہ ہوا اور پروردگار نے انھیں ان کی غلطی پر ٹوکتے ہوئے پکارا تو بےساختہ ان پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو گناہ کے شدید احساس کے بعد طاری ہوتی ہے اور فوراً انھوں نے اپنے رب کے دروازے پر دستک دی اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے انھوں نے سب سے پہلے نجانے کتنی گریہ وزاری کے بعد اپنے رب سے وہ کلمات سیکھے جن سے وہ اپنے رب کو پکار سکیں اور پھر انھوں نے اپنے رب کو پکارتے ہوئے کہا کہ اے ہمارے رب ! ہم کوئی عذر پیش نہیں کرتے کہ ہم سے یہ گناہ کیوں سرزد ہوا ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے یہ حرکت کر کے آپ کی شان میں کوئی کمی نہیں کی بلکہ اپنے نفسوں کو تباہ کیا اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا ہے۔ کیونکہ ہماری جانیں آپ کی عطیہ ہیں ‘ ہمارا جسم آپ کی دین ہے ‘ ہمارے احساسات آپ کی عطا کردہ نعمت ہیں ‘ ہماری قوتیں سراسر آپ کی بخشش ہیں ‘ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب آپ کا ہے اس لحاظ سے ان سب کا آپ کے سامنے جھکنا آپ کا حق ہے ہم نے اس حق کو کسی دوسرے کے حوالے کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب ہم اپنے اس گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے آپ ہی سے دست بستہ پوری عاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہمارے اس گناہ کو معاف فرما دیں ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آپ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔ جس نے دیا ہے درد وہی چارہ گر بھی ہے کہنی ہے چارہ گر سے ہی خود چارہ گر کی بات ہمارے اس درد کی چارہ گری صرف آپ کے ہاتھ میں ہے اس لیے ہم آپ ہی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں اور آپ ہی کے آستانے پر سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس آستانے کے سوا ہمارا کوئی آستانہ نہیں اور اس خزانے کے سوا کوئی اور خزانہ نہیں جہاں سے یہ قیمتی سوغات ملتی ہو اس لیے آپ ہم پر رحم فرمائیں اور ہمارے گناہ کو معاف فرما دیں کیونکہ ہماری معافی کا تعلق سراسر آپ کے رحم و کرم سے ہے۔ گناہ گار کا گناہ صرف رحم و کرم کے پانی ہی سے دھل سکتا ہے اس کے علاوہ دنیا کے سمندر بھی اس گندگی کو ختم نہیں کرسکتے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ( رح) کے حالات میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ اللہ کے گھر کا طواف کر رہے تھے کہ انھوں نے عالم غیب سے ایک آواز سنی کہ کسی شخص کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ ہمارے گھر سے نکل جاؤ تمہارا یہاں آنا ہمیں منظور نہیں۔ شیخ نے اس نام کے آدمی کو تلاش کرنا شروع کیا حتیٰ کہ وہ انھیں مل گئے پوچھا کہ یہ آواز جو میں سن رہا ہوں آپ کو بھی سنائی دیتی ہے یا نہیں ؟ کہنے لگے میں بھی سنتا ہوں پوچھا پھر آپ یہاں سے چلے کیوں نہیں جاتے انھوں نے نہایت تعجب سے شیخ کی طرف دیکھا اور کہا بھلے آدمی آپ ہی مجھے بتائیں میں کہاں جاؤں ؟ کیا اس دروازے کے علاوہ کوئی اور دروازہ ہے جہاں جا کر دستک دوں یا اس آستانے کے علاوہ کوئی اور آستانہ ہے جہاں جا کر سر جھکائوں جب اس چوکھٹ کے سوا کوئی اور چوکھٹ نہیں تو میں تو جب تک معافی نہیں مل جاتی یہیں جبہ سائی کرتا رہوں گا اور یہیں اپنا سر پٹختا رہوں گا۔ اس لیے حضرت آدم اور حضرت حوا بھی یہ فرما رہے ہیں کہ تیرے سوا اور آستانہ کوئی نہیں کہ جہاں ہم جا کر معافی کے طلبگار ہوں اس لیے تو نے اگر ہمیں معاف نہ فرمایا تو پھر ہماری نامرادی اور تباہی میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جائے گی اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ گناہ ابلیس سے بھی ہوا لیکن اس نے بجائے عجز و اعتراف کے انکار و بغاوت کا راستہ اختیار کیا اور ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ ہوگیا اور گناہ حضرت آدم اور حضرت حوا سے بھی ہوا لیکن وہ فوراً اللہ کی بارگاہ میں جھک گئے جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ گناہ فرشتوں اور اللہ کے پیغمبروں کے سوا ہر مخلوق سے ہوسکتا ہے کیونکہ ؎ چلے بچ کر کوئی کتنا وہ ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے کوئی چال لڑکھڑاہٹ سے پاک نہیں ہوتی ‘ کوئی عمل معصیت کی جراہتوں سے محفوظ نہیں ہوتا ‘ کوئی خیال آوارہ خیالی سے بچا ہوا نہیں ہوتا۔ یہاں قدم قدم پر محرکات شر اور آلودگیوں کے بھنور موجود ہیں جن سے ہر وقت محفوظ رہنا اولاد آدم کے لیے آسان نہیں کسی بھی وقت گناہ کا ظہور ہوجانا بالکل ممکن ہے اس لیے حضرت آدم کا رویہ ہمیں یہ راستہ دکھاتا ہے کہ تم گناہوں سے معصوم پیدا نہیں کیے گئے ہو تمہارا کام یہ ہے کہ کبھی اپنے اندر انکار کی جرأت نہ پیدا ہونے دینا یہ ابلیس کا رویہ ہے تم سے اگر غلطی ہوجائے اور کبھی معصیت کے راستے پر پڑجاؤ تو تنبہ ہوجانے کے بعد فوراً توبہ کا راستہ اختیار کرنا یہی ابلیس اور آدم کے رویے میں فرق ہے اور اللہ کریم کا یہ وعدہ ہے کہ کسی کے گناہ اگر زمین و آسمان کے درمیانی حصے کو بھر بھی دیں لیکن وہ جب بھی اخلاص اور عاجزی کے ساتھ ہم سے معافی مانگے گا اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا یقین دلا دے گا تو ہم اسے معاف کردیں گے بلکہ اس کا کرم اس حد تک بےپایاں ہے کہ وہ صرف گناہوں کو معاف ہی نہیں کرتا ‘ بلکہ گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔ سورة الفرقان میں اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو آدمی توبہ کرتا ہے اور پھر نیک عمل کا راستہ اختیار کرلیتا ہے : فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہ ُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنَاتٍ ط (الفرقان : 70) (تو اللہ ان لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل کردیتا ہے) بلکہ بعض دفعہ تو یہ رحمت ایسے جھوم کر برستی ہے کہ گناہ صرف نیکی ہی میں تبدیل نہیں ہوتا بلکہ معافی اور توبہ کی صورت میں ڈھیروں نیکیوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ایک صحابی کا واقعہ ہے کہ ایک دن نیند نہ کھلنے کے باعث ان کی تہجد چھوٹ گئی جب آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہوچکی تھی۔ فجر کی نماز پڑھی لیکن دل غم سے نڈھال ہو رہا تھا اور بار بار آنکھوں میں آنسو آرہے تھے کہ ہائے مجھ سے تہجد کیوں چھوٹ گئی۔ پورا دن اللہ سے معافی مانگتے گزرا کہ میں یہ غفلت کی نیند کیوں سویا جس کی وجہ سے میری تہجد رہ گئی چناچہ دوسرے روز رات کو سوتے ہوئے جب تہجد کا وقت ہوا تو دیکھا کہ انھیں کوئی جگا رہا ہے انھیں حیرت ہوئی کہ میری خواب گاہ میں کون آگیا پوچھا کہ تم کون ہو ؟ وہ بولا میں شیطان ہوں۔ پوچھا : تم کیوں آئے ہو ؟ کہا میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں تہجد کے لیے اٹھا دوں۔ انھوں نے حیران ہو کر کہا کہ شیطان تو لوگوں کو تہجد کے وقت سلاتا ہے تاکہ وہ تہجد نہ پڑھ سکیں تم کیسے شیطان ہو جو مجھے تہجد کے لیے اٹھا رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ کل تمہاری تہجد چھوٹ گئی اور تم نے دن بھر رو رو کر برسوں کی تہجدیں اپنے نام لکھوا لیں۔ میں آج اس لیے آیا ہوں کہ اٹھو تہجد پڑھو اور ایک ہی تہجد کا ثواب پائو۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آج پھر اگر تمہاری تہجد چھوٹ جائے تو تم برسوں کی تہجدیں پھر اپنے نام لکھوا لو۔ اس سے معلوم ہوا کہ تہجد پڑھنے سے تو ایک تہجد کا ثواب ملتا ہے لیکن معافی اور توبہ کی صورت میں نجانے کتنی تہجدوں کا ثواب مل جاتا ہے۔ جس اللہ کی کرم نوازیوں کا یہ عالم ہے اسے پکارنے والا کیسے محروم رہ سکتا ہے۔ چناچہ حضرت آدم اور حضرت حوا نے جب اپنی اس غلطی پر پروردگار کو مغفرت و توبہ کے لیے پکارا اور پھر بار بار عاجزی سے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ یا اللہ تیرے سوا کوئی دروازہ نہیں جہاں ہم جائیں ‘ تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں اگر آپ نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کھایا تو ہم تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ سورة البقرہ میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے پھر ان کی توبہ قبول فرما لی اور گناہ کا یہ داغ جو ان کے دامن پر لگ گیا تھا اسے دھو ڈالا اور قیامت تک کے لیے ان کے اس حسن عمل کے طفیل یہ اصول ٹھہرا : التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا) اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم اور حضرت حوا جب دنیا میں تشریف لائے ہیں تو وہ اللہ سے گناہ کی مغفرت کی سند لے کر آئے ہیں یعنی ان کا دامن ان چھینٹوں سے بالکل پاک ہوچکا تھا وہ زمین پر اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ وہ گناہ گار ہونے کے بعد جنت میں رہ نہیں سکتے تھے بلکہ ان کا زمین پر بھیجا جانا گناہوں کی معافی کے بعد تھا اور وہ اس لیے تھا کہ انھیں ان کی پیدائش سے بھی پہلے زمین پر اللہ اپنا خلیفہ بنا چکا تھا۔ پہلے پارے میں اللہ نے اس واقعے کو بیان کرنے سے پہلے فرمایا ہے کہ ہم نے فرشتوں کو یہ بات بتائی تھی کہ ہم زمین پر آدم کو اپنا خلیفہ بنا رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم کی پیدائش سے پہلے اور جنت میں انھیں بھیجنے سے پہلے اور اس واقعے کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے یہ بات طے ہوچکی تھی کہ حضرت آدم زمین پر اللہ کے نائب اور خلیفہ ہوں گے اور وہ زمین پر اللہ کی طرف سے اللہ کے احکام کی تنفیذ کریں گے تو اس حقیقت کے باوجود یہ سمجھنا کہ حضرت آدم اور حضرت حوا اپنے گناہ کی سزا کے طور پر دنیا میں بھیجے گئے تھے۔ یہ سراسر قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں کی صراحتوں کے خلاف ہے۔ اسی طرح یہ بات کہنا کہ وہ جب زمین پر آئے تو وہ گناہ گار تھے یہ بھی حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کریم واضح طور پر یہ بات بیان کرچکا ہے کہ ان کے زمین پر آنے سے پہلے اللہ ان کی توبہ قبول فرما چکا تھا اس کے باوجود عیسائیوں کا اس مغالطے میں مبتلا ہونا کہ انسان بھی شیطان کی طرح اس دنیا میں لعنتی ہو کر اترا ہے ‘ ایک بہت بڑی گمراہی ہے جس میں آج تک عیسائی دنیا مبتلا ہے اور پھر اس غلط عقیدے کو اختیار کرنے کے نتیجے میں عیسائیوں نے جس طرح گمراہیوں کے ردے پر ردے چڑھائے ہیں اور جس طرح کج رویوں کا راستہ اختیار کیا ہے وہ بجائے خود ایک داستان ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت آدم اور حضرت حوا ایک گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے گناہ گار ہوگئے تھے اور وہ اسی حالت میں دنیا میں اتارے گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جتنی ان کی اولاد پیدا ہوئی وہ ان کے گناہ کی وجہ سے گناہ گار ٹھہری۔ ذرا اس عقیدے کی غیر معقولیت پر توجہ فرمایئے کہ فرض کریں حضرت آدم و حوا اگر گناہ گار بھی ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کی اولاد کیسے گناہ گار ٹھہرے گی کیا باپ کا گناہ اور اس کی غلطیاں اولاد کو گناہ گار بنا دیتی ہیں ؟ کیا عیسائی دنیا کے قانون میں واقعی ایسا ہے کہ اگر باپ جرم کرے تو اس کی پاداش میں اس کی اولاد کو پکڑ لو ؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے قانون میں اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں اور اسلام تو صاف صاف اس کی تردید کرتا ہے اور پھر اس پر بھی مزیدجہالت یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہر انسان پیدائشی طور پر گناہگار ہے تو اب اس کے گناہوں سے نجات حاصل کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا غیر انسانی بیٹا دنیا میں آکر انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنے۔ چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو (جو عیسائیوں کے بقول اللہ کا بیٹا ہیں) دنیا میں بھیجا گیا اور وہ صلیب پر چڑھ کر انسانوں کے گناہوں کا کفارہ بنے اور اس طرح انسان اپنے گناہوں سے پاک ہوسکا۔ لیکن قرآن یہاں صاف بتارہا ہے کہ حضرت آدم و حوا نے اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگی اور توبہ کی تو اللہ نے یہ توبہ قبول فرمائی اور اس کے بعد انھیں دنیا میں اترنے کا حکم دیا
Top